"JDC" (space) message & send to 7575

سعودی عرب کا نظام

سعودی عرب میں اعلیٰ سطح پر قیادت میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو ولی عہد بنا دیا گیا ہے۔ اب تک بادشاہت مملکت کے بانی ملک عبدالعزیز کے بیٹوں تک محدود تھی اور سنیارٹی کا پیمانہ عمر تھی۔ اب یہ دونوں معیار ترک کر دئیے گئے ہیں۔ سعودی عرب کا اگلا بادشاہ شاہ عبدالعزیز مرحوم کا جوان پوتا ہوگا۔ اس وقت شہزادہ محمد بن سلمان اکتیس برس کے ہیں اور ان کے چند چچا اب بھی حیات ہیں۔ا س بڑی تبدیلی کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ عام پاکسانی سعودی عرب کو صرف دو حوالوں سے جانتا ہے یعنی تیل کی دولت اور حرمین الشریفین، پاکستان میں سعودی عرب کے بارے میں عمومی طور پر نیک جذبات پائے جاتے ہیں۔ تین سال پہلے کے ایک سروے کے مطابق بیاسی (82) فیصد پاکستانی سعودی عرب کے بارے میں مثبت رویہ رکھتے ہیں اور یہ تمام اسلامی دنیا میں اعلیٰ ترین شرح تھی۔ اس کالم کا مقصد آج کے سعودی عرب کے بارے میں چند ضروری معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ قارئین اس برادر ملک کے بارے میں مزید جان سکیں۔ 1744 اس ملک کی تاریخ کا اہم ترین سال ہے اس سال ریاض کے مضافاتی قصبے درعیہ میں محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب کی ملاقات میں یہ طے پایا کہ آئندہ کے سیاسی سیٹ اپ میں سیاسی قیادت آل سعود کے پاس ہوگی جبکہ دینی قیادت آل شیخ کے حوالے ہوگی۔ یاد رہے کہ شیخ عبدالوہاب کی آل اولاد کو آل شیخ کہا جاتا ہے۔ عرب میں شیخ کسی قبیلے کا نام نہیں یہ عزت اور تکریم کا لقب ہے جو کسی بھی عمر کے لحاظ سے بزرگ انسان ، عالم دین یا قبیلہ کے سربراہ کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ شیخ عبدالوہاب نے نجد کے علاقے کو بے شمار غیر اسلامی بدعتوں سے نجات دلائی تھی۔ اس وجہ سے ان کا نام آج بھی توقیر سے لیا جاتا ہے۔ البتہ اگر آپ سعودی عرب میں کسی کو وہابی کہیں گے تو وہ سخت برا منائے گا کیونکہ شیخ عبدالوہاب نے کسی نئے فرقے کی بنیاد نہیں رکھی تھی۔ ان کا مقصود صرف اور صرف اسلام کی اصل صورت میں احیاء تھا۔ 
آل سعود ملک کے مختلف حصوں پر پہلے بھی حکومت کر چکے تھے۔ انیسویں صدی میں آل سعود کو نجد چھوڑ کر کویت میں پناہ لینا پڑی۔ شاہ عبدالعزیز کویت ہی میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔ 1902ء میں نجد آئے اور اپنے خاندان کا کھویا ہوا اقتدار واپس لینے کی کوشش شروع کی۔ یہ طویل جدوجہد تیس سال پر محیط ہے۔ اس عرصے میں کئی جنگیں لڑیں۔ آل سعود کا سب سے بڑا حریف خاندان آل رشید تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی حکومت آل سعود کے ساتھ تھی جبکہ عثمانی سلطنت آل رشید کو سپورٹ کر رہی تھی۔ نوجوان عبدالعزیز کی قیادت میں آل رشید کو 1906ء میں نجد میں پہلی بڑی شکست ہوئی۔ لیکن آل رشید نے آل سعود کی مخالفت جاری رکھی۔ مختلف قبائل سے جنگوں میں آل سعود نے ابھرتے قائد عبدالعزیز کی سپہ سالاری میں اپنی بہادری کا لوہا منوایا۔ عرب رواج یہ تھا کہ جنگ کے بعد متحارب گروہوں میں صلح کا بندوبست کیا جاتا تھا اور صلح کا طریقہ یہ تھا کہ شکست خوردہ قبیلے کا سردار اپنی بہن یا بیٹی فاتح کو نکاح میں دیتا تھا۔ اس طرح دونوںقبیلوں میں مخاصمت کم ہو جاتی تھی۔ ویسے بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج عرب میں صدیوں سے ہے۔ ملک عبدالعزیز نے متحارب قبیلوں میں متعدد شادیاں کیں۔ ان کے پینتالیس (45) بیٹے پیدا ہوئے۔ ان میں سے چھتیس (36) سن بلوغت کو پہنچے۔ شاہ عبدالعزیز نے 1953ء میں وفات پائی اور اقتدار سعود بن عبدالعزیز کو ملا۔ یہاں جدہ شہر مکۃ المکرمہ اور حجاز کی فتح کا ذکر ضروری ہے۔ جو 1925ء میں ہوئی اور ہاشمی خاندان کا سات سو سالہ اقتدار ختم ہوا۔ شریف حسین آف مکہ ہاشمی خاندان کے آخری حکمران تھے۔ سلطنت برطانیہ نے کمال ہوشیاری کے ساتھ آل سعود اور ہاشمیوں سے دوستانہ تعلقات رکھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب میں آل رسولؐ کے لئے شریف کا لقب استعمال ہوتا ہے جبکہ سید کا لفظ مسٹر کے معنوں میں مستعمل ہے۔ شریف آف مکہ شکست کے بعد برطانیہ کے سرکاری بحری جہاز کا رن فلاور کے ذریعے جدہ کی پورٹ سے روانہ ہوئے۔ حجاز سے نکلے ہوئے ہاشمی خاندان کے لئے اردن کا ملک بنایا گیا۔
حجاز فتح ہوا تو جدہ اور مکہ کے لوگوں نے شاہ عبدالعزیز کے ہاتھ پر بیعت کی اب تک یہ نجد اور حجاز کے حکمران بن چکے تھے۔ سعودی عرب بعد میں یعنی1932ء میں بنا۔ جدہ فتح ہوا تو شہر کے گورنر جسے قائم مقام کہا جاتا تھا۔ عبدالعزیز کے سامنے پیش ہوئے ان کا نام حاجی عبداللہ علی رضا تھا۔ علی رضا فیملی آج بھی سعودی عرب میں معروف ہے۔ حاجی عبداللہ علی رضا نے شہر کی چابیاں عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کو پیش کیں اور کہا ''میرا عہد آج ختم ہو گیا‘‘ ظاہر ہے کہ سیاسی کشمکش اور جنگ میں حاجی عبداللہ علی رضا نے شریف آف مکہ کا ساتھ دیا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ آل سعود کبھی اسے معاف نہیں کریں گے لیکن نئے حکمران نے کمال فراخدلی سے جواب دیا ''تمہارا عہد تو آج شروع ہوا ہے‘‘ نہ صرف حاجی عبداللہ کو گورنری واپس مل گئی بلکہ تمام سرکاری ملازمین اپنے عہدوں پر قائم رہے۔ متحارب فوجیوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوا اور اس طرح پچاس سالہ عبدالعزیز نے حجاز والوں کے دل جیت لئے۔
عام طور پر جب بادشاہت کا تصور ذہن میں آتا ہے تو لگتا ہے کہ مطلق العنان بادشاہ بہت سخت گیر اور ظالم ہوگا۔ لیکن حقیقت میں خلیجی ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں قبیلے کا سردار ہو، والی یا بادشاہ سب عام لوگوں سے قریب رہتے ہیں۔ اکثر حکمران مجلس لگاتے ہیں جہاں عوام کی رسائی ہوتی ہے۔ عام لوگ بلاخوف حکمرانوں کومسائل اور مظالم کے بارے میں بتاتے ہیں۔ غالباً عوام سے مسلسل رابطے کی وجہ سے ہی خلیجی ممالک '' عرب سپرنگ‘‘ میں محفوظ رہے۔
آج کے سعودی عرب میں 1744کے معاہدے پر عمل جاری اور ساری ہے۔ وزارت دفاع‘ وزارت داخلیہ حارس الوطنی یعنی دفاع اور سکیورٹی سے متعلق تمام امور آل سعود کے پاس ہیں جبکہ وزارت تعلیم اور عدلیہ پر آل شیخ کا کنٹرول ہے۔ قرآن اور سنت قانون کا ماخذ اور منبع ہیں۔ سعودی سوسائٹی طبعاً بہت قدامت پسند ہے۔ اسے جدید بنانے میں آل سعود کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹیلیفون تک کو غیر اسلامی سمجھتے تھے اور آج کے سعودی عرب کی مجلس شوریٰ میں خواتین ممبر بھی ہیں۔ لڑکیاں بھی جامعات میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتی ہیں لیکن دونوں کے کلاس روم علیحدہ ہوتے ہیں۔ لڑکیوں تک لیکچر ویڈیو لنک کے ذریعہ پہنچتا ہے۔
سعودی عرب میں میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ البتہ حکومت مخالف خبریں اب انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں قطر سے تعلقات خراب ہوئے تو الجزیرہ ٹی وی چینل پر پابندی لگا دی گئی۔
پچھلے سال شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک متمول روسی سے بہت مہنگا بحری جہاز جسے Yacht کہا جاتا ہے خریدا تو مغربی میڈیا نے اس خبر کو خوب اچھالا۔اچھی بات یہ ہے کہ نئے ولی عہد کو ھیٔتہ البیعۃ Allegience Council کی حمایت حاصل ہے۔ یہ کونسل 2006ء میں شاہ عبداللہ مرحوم نے بنائی تھی۔ اکثر سینئر پرنس یا ان کے نمائندے اس کونسل کے ممبر ہیں۔ ولی عہد کی تقرری کے وقت کونسل سے رائے لینا ضروری ہے۔
نئے ولی عہد روشن خیال ہیں۔ وہ اقتصادی شعبے میں اصلاحات چاہتے ہیں۔ ان کی اس خواہش کے نتیجے میں اگلے سال آرامکو کی جزوی نجکاری ہوگی۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں انقلابی تبدیلی بھی شہزادہ محمد بن سلمان کے افکار کی ترجمانی کرتی ہے۔ میرا ناقص مشورہ یہ ہوگا کہ وہ سعودی عرب کی تدبر اور مشورے پر مبنی سیاست پر قائم رہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں