"JDC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی کی اسرائیل یاترا

یہ 1936ء کا واقعہ ہے۔ فلسطین برطانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ یہودیوں کی یورپ سے ہجرت شروع ہو چکی تھی۔ صہیونی عالمی تحریک نے اپنا ایک نمائندہ انڈیا بھیجا‘ اس کی پنڈت جواہر لعل نہرو سے ملاقات ہوئی۔ میٹنگ کا مقصد کانگریس پارٹی کی یہودی ریاست کے قیام کے لئے سپورٹ حاصل کرنا تھا۔ پنڈت نہرو نے جواب دیا کہ ہم کسی استعماری منصوبے کی حمایت نہیں کر سکتے۔ 1947ء میں آزاد ہونے کے جلد بعد انڈیا نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ ڈالا۔ 1949ء میں اسرائیل کی اقوام متحدہ کی ممبرشپ کا سوال اٹھا تو انڈین ووٹ پھر اسرائیل کے خلاف پڑا۔
1992ء میں اوسلو معاہدہ ہونے کے بعد انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لیے۔ اس وقت انڈیا میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی۔ عام خیال یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اسرائیل سے دوستانہ تعلقات رکھنے کی زیادہ پرجوش حامی ہے لیکن بہرحال آج سے پچیس سال پہلے دوطرفہ تعلقات کی پہلی اینٹ کانگریس حکومت نے لگائی تھی اور اب نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے انڈین لیڈر بن گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے میں اتنے سال کیوں لگے اس کی تین وجوہات ہیں۔ انڈیا تیل ایران اور عرب ممالک سے خریدتا ہے۔ دوسرے انڈین ورکر لاکھوں کی تعداد میں عرب ممالک میں کام کرتے ہیں‘ لہٰذا عرب ممالک کی حساسیت بھی ملحوظ خاطر رہی اور تیسرے انڈیا کی ٹوٹل آبادی میں مسلمان اٹھارہ فیصد ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت فلسطین میں یہودی مظالم کی وجہ سے اسرائیل سے دوستی کے خلاف ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب وہ کونسی تبدیلی آئی ہے کہ انڈیا اور اسرائیل شیروشکر ہو رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مصر کی اسرائیل پالیسی کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد تبدیل ہوئی۔ اس کے بعد اسرائیل کی مزاحمت کرنے والے ملک شام‘ عراق اور لیبیا تھے۔ یہ تینوں ممالک اب اس قدر کمزور اور لاغر ہو چکے ہیں کہ اسرائیل مخالفت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسرائیل کے عالمی گاڈ فادر یعنی امریکہ سے انڈیا کے تعلقات میں بہت گرمجوشی آئی ہے اور سب سے اہم یہ بات کہ عرب خلیجی ممالک کی سوچ میں اب اسرائیل سے بڑھ کر خطرہ ایران سے ہے۔
چار جولائی کو مودی تل ابیب کے بن گوریان ایئرپورٹ پر اترے تو وزیراعظم بنیامین نتنیاہو کے ساتھ اسرائیل کی پوری کابینہ سواگت کرنے کے لئے موجود تھی۔ مودی نے اسرائیلی وزیراعظم کو ہاتھ جوڑ کر شلوم کہا اور ادھر سے جواب نمستے کی صورت میں آیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ہم تو کئی برس سے کسی انڈین لیڈر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے‘ یہاں یہ چیز اہم ہے کہ اکثر عالمی لیڈر یروشلم جائیں تو رام اللہ کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ فلسطینی قیادت کی اشک شوئی کی جائے اور ممکنہ حد تک غیرجانبدارانہ تاثر دیا جائے لیکن مودی صاحب نے ایسا کرنے کا بھی تکلف نہیں کیا۔ انہوں نے فلسطینی قیادت اور رام اللہ کو نظرانداز کیا۔ 1936ء میں پنڈت نہرو کو اسرائیلی منصوبے میں مغربی سامراج کی سازش نظر آئی تھی۔ 2017ء کی انڈین قیادت کا خیال ہے کہ اسرائیل عالمی برادری کا ایک بہت ہی اچھا اور معتبر رکن ہے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ہر اہم وزٹ کو دو زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے‘ پہلا زاویہ یہ ہوتا ہے کہ باہمی محبت اور احترام کا اظہار کرنے کے لیے کونسے طریقے آزمائے گئے۔ مودی کی اسرائیل یاترا اس لحاظ سے بہت کامیاب رہی۔ مودی اور نتنیاہو نے خوب گھٹ کے جپھیاں ڈالیں۔ مودی نے ایک تقریب میں سفید اور نیلے رنگ کے کپڑے زیب تن کئے یہ دونوں اسرائیلی پرچم کے رنگ ہیں۔ ایک جگہ یہ کہا کہ انڈیا اور اسرائیل دونوں کے نام انگریزی حرف تہجی آئی (I) س شروع ہوتے ہیں۔ انڈیا سے آئے ہوئے اور اسرائیل میں مقیم یہودیوں سے ملے اور کہا کہ ہندوستان میں کوئی مذہبی تفریق نہیں‘ ہمارے ہاں یہودی اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچے ہیں اور ثبوت کے طور پر جنرل جیکب اور چند دوسرے افسروں کے نام لیے۔ ہولوکاسٹ Holocaust کی یادگار گئے اور جرمنی میں ہٹلر کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے یہودیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اسرائیلی لیڈر ہرزل کی آخری آرام گاہ ہرزگئے حالانکہ یہ پروگرام کا حصہ نہیں تھا۔ پھر وہ اس دس سالہ لڑکے کو ملنے گئے جس کے والدین نومبر2008ء کے ممبئی کے واقعے میں مارے گئے تھے‘ اس لڑکے کا نام ہولز برگ موشے Holzberg Moshe ہے اور وہ اسرائیل میں اپنے دادا دادی کے پاس رہتا ہے۔ ممبئی کے واقعہ کے وقت اس کی عمر کوئی سوا سال تھی۔ ساتھ ہی اسرائیلی فارن آفس نے بیان دیا کہ حماس اور لشکرطیبہ میں کوئی فرق نہیں۔ 
مودی یاترا کے دوران سات باہمی تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ جب دستخط ہو رہے تھے تو نتنیاہو نے کہا کہ انڈیا اور اسرائیل کا ساتھ ابدی ہے ہماری جوڑی جنت میں بنائی گئی تھی۔ دونوں حکومتوں میں جمہوریت کا باہمی رشتہ ہے۔ سات معاہدوں میں خلائی ٹیکنالوجی‘ زراعت اور پانی کے باکفائت استعمال میں تعاون شامل ہیں۔ دونوں ممالک نے چالیس ملین ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا ہے جو کہ انڈسٹریل ریسرچ کے لئے مختص ہوگا۔ اسرائیل نے پانی کی قلت کے باوجود زرعی شعبے میں ترقی کی ہے۔ انڈیا پانی کے باکفایت استعمال کے طریقے اسرائیل سے سیکھنا چاہتا ہے۔ 
یہ تو تھیں وہ تعاون کی باتیں جو میڈیا کے سامنے ہوئیں۔ دراصل اسرائیل اور انڈیا کے درمیان دفاعی تعاون کم و بیش دس سال سے جاری ہے لیکن اس تعاون کو زیادہ مشتہر اس لئے نہیں کیا گیا کہ عرب ممالک ناراض نہ ہو جائیں۔ حکومت پاکستان بھی عرب ممالک میں اس پہلو کو اجاگر کرنے میں ناکام رہی‘ ایک زمانے میں ہماری وزارت اطلاعات میں بڑا فعال قسم کا ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ ہوا کرتا تھا۔ اب یہ لمبی تان کر سویا ہوا لگتا ہے۔ وزیراطلاعات ملک کی پبلسٹی کرنے کی بجائے ہمہ وقت وزیراعظم نوازشریف کے دفاع میں مصروف نظر آتی ہیں۔ انڈین ایجنسی را اور اسرائیلی موساد میں قریبی تعاون ہے۔ میزائل کا دفاعی نظام براق 8 دونوں ملکوں کا مشترکہ پروگرام ہے جو گزشتہ دس سال سے چل رہا ہے۔ انڈیا اسرائیل سے سالانہ ایک ارب ڈالر کا دفاعی سازو سامان خریدتا ہے۔ اسرائیل سے دفاعی تعاون کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انڈیا کو جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوگئی ہے۔
یادش بخیر ایک زمانے میں یاسر عرفات پوری دنیا میں فلسطینی کاز کے ہیرو تھے‘ وہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے۔ انڈیا ان دنوں فلسطینی حقوق کا پرجوش حامی تھا۔ یاسر عرفات اندرا گاندھی کو اپنی بہن کہا کرتے تھے اور اب نریندرمودی نے رام اللہ جا کر صدر محمود عباس سے ملنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بین الاقوامی تعلقات کی حقیقتیں بھی بڑی بے رحم ہیں۔ 
ایران ایک واحد ملک ہے جس نے ہمارے خطے میں انڈیا اور اسرائیل کے روزافزوں تعاون کا ہر وقت ادراک کیا ہے۔ تہران سے کشمیری حقوق کی حمایت میں بیان آتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان بیانات کا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ وزیراعظم مودی نے نتنیاہو کو انڈیا کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے‘ جو قبول کرلی گئی ہے۔ دونوں ملکوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف تعاون کا پھر سے عزم کیا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر دونوں بدترین ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ پاکستان کو صورت حال کا غور سے جائزہ لینا چاہئے۔ ماضی میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان خفیہ اور علانیہ رابطے ہوئے تھے۔ جنرل مشرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے لیکن ممکنہ اندرونی ردعمل کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ موجودہ صورت حال میں ہمارے پاس کیا کیا آپشنز ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں