"JDC" (space) message & send to 7575

کپتان اور قومی قیادت

پچھلے دنوں میں نے پی ٹی آئی کے متعدد سپورٹرز کو پہلی مرتبہ یہ کہتے سنا کہ 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں عمران خان کا وزیراعظم بننا یقینی نہیں رہا۔ میں خود ایک عرصے سے مثبت تبدیلی کا پر زور حامی رہا ہوں۔ 2013ء میں میری پوری فیملی کے ووٹ تحریک انصاف کو ملے تھے حالانکہ ہم لوگ روایتی طور پر مسلم لیگی تھے۔ اب میری فیملی کے بھی کئی لوگ ڈبل مائنڈڈ یعنی متذبذب نظر آتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ پاکستان کی نوجوان نسل کا رومانس چند سال پہلے دیدنی تھا۔ لوگ کپتان کے دیوانے تھے مگر 17 جنوری کو لاہور میں عمران خان نے خطاب کیا تو کئی کرسیاں خالی تھیں۔ ایک زمانے میں کشور ناہید نے کہا تھا ؎
یہ تیرے شہر کے لڑکوں کو کیا ہوا ناہیدؔ
بہت اداس لگے کوئی دل جلا نہ ملا
تو کپتان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ دل جلے لڑکے اور دل جلی لڑکیاں جو کبھی عمران خان کی شمع کے گرد پروانوں کی طرح رقص کرتے تھے وہ آج کل اداس نظر آ رہے ہیں۔ کپتان کی مقبولیت کا گراف کیوں نیچے آ رہا ہے۔ آج ہم ممکنہ وجوہات جاننے کی کوشش کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے کرپشن کو پاکستان کے پرابلم نمبرون کے طور پر متعارف کرایا۔ آصف زرداری اور نواز شریف کی مبینہ کرپشن کو اعدادوشمار کے ساتھ عوام کو سمجھایا۔ خیبر پختونخوا کی پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کیا۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بہتری آئی۔ کئی بچے پرائیویٹ سکولوں کو چھوڑ کر سرکاری سکولوں میں واپس آ گئے۔ آزاد عدلیہ کو زیادہ فعال بنانے میں بھی عمران خان کا رول ہے۔ ملک کی گورننس بالکل بیٹھ رہی تھی۔ آزاد اور فعال عدلیہ نے گورننس میں بھی کچھ جان ڈالی حالانکہ یہ کام گورنمنٹ کے کرنے کا تھا۔ آزاد عدلیہ نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مقرر کردہ چیئرمین نیب کو بھی شرم دلانے کی کوشش کی۔ کپتان نے سابق چیئرمین نیب کو خوب ایکسپوز کیا۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ نے ایف بی آئی کے چیف جیمز کومی کو ڈنر پر بلایا تو پورے ملک میں شور مچ گیا تھا اور یہاں ہمارے تحقیقاتی ادارے قوم کی بجائے حکمران جماعت کی خدمت میں لگے ہیں۔ اس بیماری کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے میں کپتان کا بڑا ہاتھ ہے۔
اور اب آتے ہیں کپتان کی ناکامیوں اور منفی صفات کی طرف۔ وہ اپنی ہی پارٹی میں ڈھنگ کے الیکشن کرانے میں ناکام ہے۔ باتیں دن رات احتساب کی کرتے ہیں لیکن کے پی میں احتساب کمیشن غیر فعال رہا۔ ان کے ساتھی اکثر گلہ کرتے ہیں کہ عمران خان دوسروں پر اپنی رائے ٹھونستا ہے۔ میرے دوست اور بیچ میٹ گلزار خان مرحوم کو بھی یہی گلہ تھا۔ یکدم ان کے ذہن میں برین ویو Brain Wave آتی ہے اور وہ بغیر سوچے سمجھے کسی ناقابل عمل منصوبے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ بات پہلے کرتے ہیں سوچتے بعد میں ہیں۔ کنٹینر پر کھڑے کھڑے کسی سے مشاورت کے بغیر سول نافرمانی کا اعلان کر دیا۔ کہا کہ میں بجلی‘ پانی اور گیس کے بل ادا نہیں کروں گا۔ بعد میں خیال آیا کہ گیس کٹ گئی تو کھانا کیسے پکے گا۔
کپتان کی اصل طاقت نوجوان تھے مگر اب ان کے ساتھ اسّی کے پیٹے میں پہنچے ہوئے غلام مصطفی کھر اور سردار آصف احمد علی نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے عمران خان کا تبدیلی کیلئے جنون بوڑھے اور گھاگ قسم کے لوٹوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔
کپتان کی تازہ ترین منفی صفت جو سامنے آئی ہے وہ ان کی توہم پرستی ہے۔ موصوف ایک عرصے تک طالبان کا دفاع کرتے رہے۔ اصل حقیقت سمجھنے میں انہیں ایک زمانہ لگا۔ اب وہ مولانا روم اور ابن عربی کو سمجھنے کی سعی کر رہے ہیں اور میں یقین سے کہہ رہا ہوں ان دونوں عظیم ہستیوں کے افکار سمجھنے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہے۔ خاص طور پر عمران خان جیسے سنگل ٹریک آدمی کے لئے۔ میں یہاں سنگل ٹریک کی اصطلاح منفی طور پر استعمال نہیں کر رہا۔ یہ عادت کپتان کا اثاثہ بھی رہی ہے۔ وہ جس چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اسے منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ نواز شریف جیسے بڑے برج کو انصاف کے کٹہرے میں لانا کوئی آسان کام نہ تھا۔
لیکن کپتان کا پیروں اور پیرنیوں کے پاس جانا اصول پسند علماء کو قابل قبول نہیں۔ اسلام بہت آسان اور قابل عمل دین ہے۔ اللہ اور اللہ کی کتاب اور اس کے آخری رسولؐ کا اسوۂ حسنہ اس کی بنیاد ہیں۔ یہ خاص قسم کی انگوٹھیاں، گنڈے اور تعویذ اسلام کی اساس نہیں ہیں۔میرے خیال میں یہ بدعتیں ہیں جو مسلمانوں کے زوال کے عہد میں ہمارے معاشرے میں سرایت کر گئیں۔ برصغیر کا مسلمان ہندو مت کے اثرات اور سوچ سے ابھی سو فیصد آزاد نہیں ہو سکا۔
خیر میں کوئی عالم دین نہیں ہوں لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم آنے کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس اسلام کی اصلی ہیئت ِ ترکیبی کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ خانقاہ کی اہمیت غریب اور کم پڑھے لکھے طبقے میں ہی رہ گئی ہے لیکن کپتان تو پڑھے لکھے آدمی ہیں ان کی عمر کا ایک حصہ انگلینڈ میں گزرا ہے۔ آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ پاکستان کوکرکٹ کی بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ اپنی جوانی میں مغرب کی صنف نازک میں بڑے مقبول رہے۔ ایسا شخص اگر یہ کہے کہ میں نے جس محترمہ کو شادی کا پیغام بھیجا ہے ان سے میں دو سال سے روحانی مشورے لے رہا ہوں مگر میں نے ان کی شکل کبھی نہیں دیکھی تو یہ بات قرینِ قیاس نہیں۔ میں کپتان کی بات پر یقین کرنے سے قاصر ہوں۔
ہمارے کپتان صاحب کانوں کے کچے بھی ہیں۔ کسی سفیر نے پینتیس پنکچر والی بات کی تو موصوف نے فوراً یقین کر لیا۔ جلسے اپنی جگہ لیکن انہیں کچھ وقت پارٹی کی تنظیم و تربیت پر بھی صرف کرنا چاہئے۔ اپنے ممبران اسمبلی کو بتانا چاہئے کہ اپنے حلقے کی خدمت ہی ان کی سیٹ پکی کر سکتی ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں روز شام کو جلوہ افروز ہونا آئندہ کامیابی کی ضمانت نہیں۔ پی ٹی آئی کے بہت بڑے لیڈر اسد عمر کے پاس آدھے اسلام آباد کی قیادت ہے۔ پچھلے تین چار سال میں دارالحکومت کا جو حشر ہوا ہے وہ اسد صاحب بخوبی جانتے ہیںمگر اپنے حلقے کے لوگوں سے ان کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے گھر وہ ضرور آئے تھے لیکن انہیں پانچ مرلہ کے گھروں میں بھی تواتر سے جانا چاہئے۔ ان کے حلقے میں سرکاری تعلیمی اور صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جی 13‘ جی 14 اور جی 15 میں ایک بھی سرکاری سکول نہیں اور یہ کوئی ساٹھ ہزار کی آبادی ہے۔ لوگ حکومت سے سخت نالاں ہیں۔ پورے حلقے میں بااثر (ن) لیگی تجاوزات قائم کر رہے ہیں۔ بے شمار غیر قانونی شادی ہال بن گئے ہیں مگر اسدعمر لاچار نظر آتے ہیں۔
کپتان کی سیماب صفت شخصیت نے ان کی مقبولیت کا گراف گرایا ہے۔ لاہور میں جلسہ فلاپ ہوا تو اگلے روز سٹاک مارکیٹ میں خوب تیزی آئی۔ لوگ استحکام چاہتے ہیں، تجارتی طبقہ احتجاجی سیاست سے بیزار ہے اور اس طبقے میں میاں نواز شریف اب بھی مقبول ہیں۔ کپتان صاحب اقتدار کیلئے اتنے بے صبرے ہو رہے ہیں کہ چند ماہ کا انتظار بھی مشکل ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے کا پورا حق ہے اور اگر مئی تک لوڈشیڈنگ زیرو ہو گئی تو (ن) لیگ پھر جیت سکتی ہے گو کہ ہیوی مینڈیٹ اب نہیںمل سکے گا۔ پھر وہ سوال دہرائوں گا۔ کیا کپتان قومی قیادت کے قابل ہیں مگر پھر وہی خیال آتا ہے کہ کپتان میں لاکھ خامیاں سہی مگر وہ کرپٹ نہیں لہٰذا وہ اندھوں میں کانا راجہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں