"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے بیرونی امیج کا مسئلہ (2)

پاکستان کی آبادی بے تحاشا ہے۔ حکمران لالچی اور خود غرض ہیں۔ طویل مدت کی اقتصادی پلاننگ کا فقدان ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہماری مختصر تاریخ کا جزو لاینفک رہا ہے۔ غربت اور جہالت جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہیں۔ غریب آدمی کا ووٹ خریدنا چنداں مشکل نہیں۔ جاہل انسان کی برین واشنگ آسان ہوتی ہے۔ اُسے چند ہفتوں میں قائل کیا جا سکتا ہے کہ بیٹا خود کش جیکٹ پہن لو سیدھے جنت میں جائو گے، اس ملک میں ویسے بھی تمہارے لیے جو کچھ خاص رکھا ہوا نہیں ہے۔ 
پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس ہونے والا ہے۔ وہاں امریکہ کی اس تجویز پر غور کیا جائے گا کہ کیوں نہ پاکستان کو ان ملکوں کی لسٹ میں ڈال دیا جائے جو انتہا پسندوں کی مالی امداد کو روکنے میں تساہل سے کام لے رہے ہیں۔ میرے لیے تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ برطانیہ جرمنی اور فرانس امریکہ کی قرارداد کے حامی ہیں۔ یہ چاروں ممالک ہمارے تجارتی پارٹنرز کی لسٹ میں بے حد اہم ہیں۔ 
لیبیا کے ساحل پر کشتی ڈوبتی ہے تو غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کی لاشیں وطن عزیز واپس آتی ہیں۔ جعلی ڈگریاں بیچنے کا الزام لگتا ہے تو پاکستانی کمپنی پر۔ ہم نے ماضی قریب میں بارہا کہا کہ حقانی نیٹ ورک کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں اور پھر 27 بندے بھی کابل حکومت کو دے دیئے۔ پیرس میں ہونے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی میٹنگ کا دبائو آیا تو ہم خواب غفلت سے بیدار ہوئے۔ صدر ممنون حسین سے جلدی جلدی آرڈیننس پر دستخط کرائے گئے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے بیانیے میں سقم ضرور ہے۔ ایک کنفیوژن ہے جو چاروں طرف نظر آ رہی ہے۔
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
میرے خیال میں اب ہمیں فیصلہ کر ہی لینا چاہیے کہ پاکستان کو انٹرنیشنل برادری کے ذمہ دار پارٹنر کے طور پر رہنا ہے یا اپنے ہاں کی انتہا پسند جماعتوں اور نان سٹیٹ ایکٹرز سے مرعوب رہنا ہے۔ ملک پر بے شمار اندرونی اور بیرونی خطرات منڈلا رہے ہیں اور ہم مہینوں سے 'مجھے کیوں نکالا؟‘ کی لا یعنی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریوں کا امریکی ادارے ایف بی آئی نے بتایا‘ گویا ہمارے ادارے بھنگ پی کر سوئے ہوئے تھے۔ ہم فنانشل ٹاسک فورس کی واچ لسٹ میں 2012 سے 2015 تک رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا نام ایک مسلمان ملک نے تجویز کیا تھا۔ واچ لسٹ میں دوبارہ آنا ہماری شہرت کے لیے اچھا نہیں ہو گا‘ یہ سب جانتے ہیں لیکن اس ممکنہ امر کی وقت پر پیش بندی کیوں نہ ہوئی؟۔ ہماری وزارت خارجہ‘ وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ لمبی تان کر کیوں سوئی رہیں۔ واشنگٹن‘ لندن‘ پیرس اور برلن میں ہمارے سفارت خانے کیا کر رہے تھے؟ کیا ان لوگوں کا کام صرف دعوتیں اڑانا رہ گیا ہے؟
ایک وزیر فرماتے ہیں کہ ہم اپنے گھر کی بہت صفائی کر چکے‘ اب انٹرنیشنل پریشر میں ہم مزید نہیں کر سکتے۔ پھر وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ گھر کی کچھ صفائی ہنوز باقی ہے۔ کوئی ہفتہ پہلے کی بات ہے ہمارے وزیر اعظم نے ایک بین الاقوامی طور پر ممنوعہ جماعت کے لیڈر کی تعریف کی اور چند روز بعد پنجاب حکومت نے اُسی فلاحی تنظیم کی ڈسپنسریاں بھی اپنی تحویل میں لے لیں۔ ہمارے تضادات بہت واضح اور مہلک ہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انٹرنیشنل برادری ہمارا بیانیہ خریدنے کو تیار نہیں۔
فارسی کا مقولہ ہے حاجتِ مشاطہ نیست روئے دل آرام را یعنی خوب صورت چہرے کو بیوٹیشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہمارے اندرونی حالات نارمل ہو جائیں۔ ملک میں ہر طرف امن ہو۔ قانون کی بالا دستی ہو۔ جمہوریت کا پہیہ کبھی جام نہ ہو۔ ہمارے حکومتی ادارے بشمول نیب اور ایف آئی اے اپنے فرائض مستعدی سے سرانجام دیں۔ میرٹ کی بنیاد پر جابز ملیں۔ ایوب خان کے دور والی اقتصادی ترقی کی رفتار لوٹ آئے۔ شریف آدمی کو تھانے کچہری جاتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہ ہو۔ عدالتوں میں انصاف ملے اور وقت پر ملے۔ چور اچکوں پر زمین تنگ ہو جائے تو ہمارا امیج بیرون ملک خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں روزگار کے اتنے مواقع ہوں گے کہ غیر قانونی ہجرت اور ہیومن سمگلنگ بند ہو جائے گی۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہماری قومی ایئر لائن پی آئی اے کا کلچرل ٹروپے یعنی ثقافتی طائفہ ہوتا تھا۔ یہ لوگ بیرون ملک پاکستانی کلچر کی پروجیکشن کرتے تھے۔ دنیا کو بتاتے تھے کہ پاکستان میں صدیوں پرانا فوک لور (Folk Lore) ہے۔ ہیر رانجھا‘ سوہنی مہینوال اور سسی پنوں کی رومانوی داستانوں نے ہمارے وطن میں جنم لیا تھا۔ پاکستانی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے ہر ریجن میں فوک ڈانس ہیں۔ ہمارا خٹک ڈانس آج بھی دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے۔
عسکری اور اقتصادی طاقت کی اہمیت گو کہ مسلمہ ہے لیکن دنیا کے اکثر ممالک اپنا سوفٹ یا مخملی امیج بھی اجاگر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کوئی پانچ عشرے پہلے برطانیہ کے بیٹلز پوری دنیا میں مشہور ہوئے تھے۔ Beatles کی وجہ سے برطانیہ کی خوب پروجیکشن ہوئی۔ ملکہ برطانیہ نے بیٹلز کو ممبر آف برٹش ایمپائر (MBE) کے خطابات سے نوازا۔ ایک زمانے میں پنڈت روی شنکر انڈیا کا سوفٹ چہرہ تھے۔ پھر یہ اعزاز سچن ٹنڈولکر کے پاس آیا۔ نصرت فتح علی خان پاکستان کی شاندار پہچان ہے۔ فضل محمود‘ عمران خان اور شاہد آفریدی کی وجہ سے ایک عالم تک پاکستان کا اچھا امیج پہنچا۔ فیض احمد فیض کی خوبصورت شاعری نے ہمارے امیج کو تقویت بخشی۔ صادقین اور چغتائی کے شاہکار پاکستان کا چہرہ نکھار گئے۔ ہمارا خوبصورت تعارف بن گئے۔
بطور سفیر میری پہلی پوسٹنگ دوشنبے میں تھی۔ تاجکستان کے لوگ اقبال کی فارسی شاعری کے بڑے مداح ہیں۔ وہاں دو سال نومبر کے مہینے میں یوم اقبال شایان شان طریقے سے منایا گیا۔ ایک سال پاکستان سے مشہور فارسی دان ڈاکٹر صدیق خان شبلی کو مدعو کیا گیا اور اگلے سال محترمہ ڈاکٹر شمیم زیدی تشریف لائیں۔ اس وقت وہ لوک ورثہ اسلام آباد کی ڈی جی تھیں۔ تہران یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر چکی تھیں۔ فارسی خوب روانی سے بولتی تھیں۔ تاجکستان کے عوام میں سوویت زمانے سے پاکستان کے بارے میں بہت ہی منفی تصورات تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی خواتین گھروں میں قید رہتی ہیں۔ انہیں تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عمومی طور پر مردوں کا راج ہے۔ ڈاکٹر شمیم زیدی نے ایک ہفتہ دوشنبے میں گزارا۔ اس دوران ان کی ملاقاتیں تاجک شاعروں اور ادیبوں سے ہوئیں۔ وہ صحافیوں سے ملیں۔ تاجک دانشور اُن سے مل کر خوشگوار حیرت کی کیفیت میں تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ پاکستانی معاشرے کے بارے میں بالعموم اور پاکستانی صنفِ نازک کے بارے میں ان کے تصورات کتنے غلط تھے۔
اسی طرح ایتھنز میں میری پوسٹنگ کے دوران پاکستانی مصنوعات کی تین روزہ نمائش ہلٹن ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی پینٹنگز بھی رکھی گئیں۔ پاکستانی ملبوسات کی تشہیر کے لیے کیٹ واک کا بندوبست کیا گیا۔ پاکستانی ماڈلز اور یونانی ماڈلز‘ دونوں نے حصہ لیا۔ اسی اثناء میں تقریباً دو سو یونانی امپورٹرز کو پاکستانی کھانا کھلایا گیا‘ جس کے لیے شیف پی آئی اے نے خاص طور پر کراچی سے بھیجا۔ ونیزہ احمد نے پاکستانی ماڈلز کو لیڈ کیا۔ نتیجہ خاصا مثبت نکلا۔ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوا اور ہمارا امیج کافی بہتر ہوا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے گھر کو بہتر کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ پچھلے تین چار سال میں سکیورٹی بہتر ہوئی ہے اور بیرون ملک سوفٹ امیج کی تشہیر بھی ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔ (ختم)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں