"JDC" (space) message & send to 7575

واہ ہماری جمہوریت

شفافیت اور احتساب جمہوریت کی روح ہیں۔ شفافیت سے مراد یہ ہے کہ عوام کو اپنے نمائندوں کے بارے میں تمام معلومات ہوں مثلاً یہ کہ ان کے پاس الیکشن سے پہلے کتنے اثاثے تھے اور اب کتنے ہیں۔ احتساب کا مطلب یہ ہے کہ عوام‘ ان کے نمائندے اور عدالتیں اپنے وزیروں اور سرکاری افسران کا ہر وقت محاسبہ کرتے رہیں کہ وہ اپنے فرائض میں مستعد ہیں یا نہیں۔ چودہ سو سال پہلے مسجد نبوی میں ایک شخص نے سیدنا عمر فاروقؓ سے پوچھا کہ آپ کے پاس یہ کرتا کیسے آیا ''من این لک ہذا یا امیرالمومنین‘‘؟ آج ہمارے حکمرانوں سے ان کے اثاثوں کا پوچھا جائے تو وہ سخت جھنجھلاہٹ میں جواب دیتے ہیں کہ اگر میرے پاس بے شمار مال و دولت ہے تو تمہیں اس سے کیا غرض۔ گویا معکوس ترقی ہوئی ہے۔ صدیوں کی غلامی کی وجہ سے ہم اپنا حقِ استفسار بھی بہت کم استعمال کرتے ہیں۔
اکتوبر 2017ء میں ہماری پارلیمنٹ نے الیکشن سے متعلق بل پاس کیا۔ اس میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مزید انتظامی اور مالی اختیارات دیئے گئے لیکن اس مثبت قدم کے ساتھ ساتھ الیکشن لڑنے کے فارم میں ڈیڑھ درجن سے زائد بیانات حلفی حذف کر دیئے گئے ‘ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ہماری پارلیمنٹ عوام کو دودھ دیتی مگر مینگنیاں نہ ڈالتی۔ کیا ایسا کسی خالص جمہوری ملک میں ہو سکتا تھا۔ 
ہمارے یہ عوامی نمائندے اپنے گھر کو بہت سیانے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اپنی تنخواہیں اور الائونس بڑھانے کا بل عوامی نمائندوں نے چند منٹ میں پاس کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ممبر اس روز یک جان اور یک قالب تھے مگر صغریٰ امام کا سرکاری افسروں کی دہری شہریت کا بل کئی سال تک اسمبلی کے سردخانے میں پڑا رہا۔ کچھ ایسا ہی فریڈم آف انفارمیشن بل کے ساتھ ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ کس قدر مہارت اور تیزی کے ساتھ سزا یافتہ نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ جب پارلیمنٹ نے تساہل سے کام لیا تو اعلیٰ عدلیہ کو سرکاری افسران کی دُہری شہریت کے معاملے کا نوٹس لینا پڑا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سابق وزیراعظم نوازشریف پارلیمنٹ کو لفٹ ہی نہیں کراتے تھے‘ ہفتوں تک اپنا چہرہ مبارک ہی نہیں دکھاتے تھے مگر نون لیگی ممبران آج بھی ان کے صدقے واری جاتے ہیں۔ جناب یہ نوازشریف سے والہانہ محبت نہیں بلکہ مشترکہ مفادات کا شاخسانہ ہے۔
اور اب واپس آتے ہیں الیکشن قانون کی طرف جس کا ذکر کالم کے شروع میں آیا ہے اور دیکھتے ہیں کہ کون سے بیانات حلفی حذف کر دیئے گئے۔ باقی ماندہ بیانات حلفی کو الیکشن ایکٹ کا حصہ بنا دیا گیا ہے تاکہ صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی انہیں تبدیل کرنے کی مجاز ہو۔ہمارے سیاسی لیڈروں کو بااختیار اور نیوٹرل بیورو کریسی سوٹ ہی نہیں کرتی۔ قدیم الیکشن فارم میں امیدوار کے لئے اپنے بینک کے ادا ناکردہ قرضوں کا لکھ کر ذکر کرنا ضروری تھا۔ پھر امیدواروں کو اس قسم کی ڈیکلیریشن سے استثنیٰ مل گیا۔یہ بھی ضروری نہ رہا کہ امیدوار ادا نہ کئے گئے بجلی‘ پانی‘ گیس کے بلوں کا ذکر کرے‘ اپنی کمپنیوں کی تفاصیل دے یا بیرون ملک سفر کے بارے میں معلومات دے۔امیدوار کے لیے لازمی نہیں رہا کہ اپنی تعلیم یا پیشے کے بارے میں بتائے اور نہ ہی اس بات کی حاجت کہ امیدوار کسی فوجداری کیس میں ملوث ہونے کا بتائے۔ سینیٹ کے الیکشن کے لئے حکمرانوں نے جس قسم کے لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں ان کے نام پڑھ کر عام شریف آدمی کو خوشی یا اطمینان نہیں ہوتا۔ سنا تھا کہ جمہوریت جمہور یا عوام کی حکومت ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ اشرافیہ کی حکومت ہے۔
پہلے والے الیکشن فارم میں امیدوار کو بتانا پڑتا تھا کہ پچھلے تین سال میں اس نے کتنا انکم ٹیکس دیا ہے اور کتنا زرعی ٹیکس‘ اب انہیں یہ زحمت نہیں دی جائے گی۔ اس طرح اگر آپ کی اگلی اسمبلی ٹیکس نادہندگان سے بھرپور ہو تو چنداں حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ چور اچکوں کو اقتدار میں لانے کے لیے راہ مزید ہموار کر دی گئی ہے بلکہ ان کے لیے موٹروے بنا دی گئی ہے جو سیدھی شارع دستور کو جائے گی۔ پہلے فارم میں ہر امیدوار کو حلفاً لکھنا ہوتا تھا کہ نہ اس کے پاس کسی اور ملک کی شہریت ہے اور نہ ہی اس نے کسی اور شہریت کے لیے اپلائی کیا ہے۔ اب اس تکلف سے بھی جان چھڑا لی گئی ہے۔ نون لیگیوں کو دہری شہریت والوں سے خاص محبت ہے تبھی تو کینیڈا اور قطر میں دہری شہریت رکھنے والے سفیر لگائے گئے۔
آپ بتائیے کہ پاکستان میں کتنی سیاسی جماعتوں میں الیکشن ہوتے ہیں؟ میں آپ کو اس سوال کا جواب بتاتا ہوں ہمارے ہاں باقاعدگی سے شفاف الیکشن صرف جماعت اسلامی میں ہوتے ہیں‘ تو اگر جمہوریت آپ کے اپنے گھر میں ہی نہیں ہے تو آپ ملک میں خاک ڈیمو کریسی لائیں گے۔
ہمارے ہاں حکمرانوں سے سوال کرنے کا رواج بہت کم ہے۔ ظاہر ہے کہ ظل الٰہی سے سوال جواب کی ہمارے ہاں روایت صدیوں سے عنقا ہے۔ یہ تو بھلا ہو انگریزوں کا کہ ہمیں ڈیمو کریسی سے روشناس کر گئے۔ 1998ء میں میاں نوازشریف نے بحرین‘ برما اور کینیا میں ایک سے ایک بڑھ کر نالائق سفیر لگائے۔ ان میں سے دو ان کے عزیز تھے‘ ایک کا تعلق بدنام زمانہ مہران بینک سے تھا۔ کیا کسی نے مغل اعظم سے پوچھا کہ حکومتی عہدوں کو ریوڑیوں کی طرح کیوں بانٹ رہے تھے اور ہاں اس مرتبہ تو میاں صاحب نے کمال ہی کر دیا۔ پی آئی اے کا سربراہ ایک جرمن کو لگایا‘ جو جاتے جاتے ایک ہوائی جہاز بھی لے گیا۔ کیا کسی نے نوازشریف سے پوچھا کہ یہ نابغۂ روزگار جرمن آپ نے کیسے تلاش کیا۔ اس شخص نے پی آئی اے کو جو نقصان پہنچایا ہے کیا اس کی تلافی نوازشریف کو خود نہیں کرنی چاہیے ؟ صدر آصف علی زرداری نے ننگِ وطن حسین حقانی کو امریکہ میں سفیر لگایا۔ یہ شخص جو جماعت اسلامی‘ پیپلز پارٹی اور نون لیگ‘ سب سے بے شمار فائدے اٹھا چکا ہے، جو دو مرتبہ سفیر بنا فیڈرل سیکرٹری بنا، یہ احسان فراموش سانپ جو پاکستان کے دودھ پر پلا‘ آج کل واشنگٹن میں انڈین لابی کی آنکھوں کا تارہ ہے۔ پاکستان کو جی بھر کے گالیاں نکالتا ہے، انٹرپول کو اس کی پاکستان واپسی کے لیے کہا گیا ہے کہ یہ بھگوڑا ہے، پاکستان کی عدلیہ کو مطلوب ہے۔ کیا کبھی کسی نے زرداری صاحب سے استفسار کیا کہ اس شخص کو امریکہ میں سفیر کیوں لگایا گیا؟
چند سال پہلے ایئرمارشل اصغر خان مرحوم کو انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں تقریر کی دعوت دی گئی تھی وہاں جملہ دیگر باتوں کے‘ موصوف نے عام مجمع کے سامنے کہا کہ ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ملاقات میں مجھے سیاسی گٹھ جوڑ کی دعوت دی اور کہا کہ ہم دونوں مل کر بیس سال اس ملک پر حکومت کر سکتے ہیں‘ عوام کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔
جمہوریت کے فروغ کے لیے اعلیٰ شرح تعلیم‘ آزاد عدلیہ اور فری مگر ذمہ دار میڈیا لازمی ہیں۔ اسی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی غربت جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے کہ غریب آدمی کا ووٹ آسانی سے خریدا جا سکتا ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر ہمارے عوامی نمائندوں کا لیول واجبی سا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں ریسرچ اور ٹریننگ کا کوئی کلچر نہیں‘ چند شخصیات ضرورت سے زیادہ اہم ہیں۔
کالم لکھ رہا تھا کہ میاں نوازشریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کا فیصلہ آ گیا، میری میاں صاحب سے یہی درخواست ہو گی کہ ملک کے مفاد کو ذاتی انا سے برتر جانیں ۔ یہاں میں یہ بھی کہتا چلوں کہ ہماری یہ لنگڑی لولی جمہوریت فوجی آمریت سے بہتر ہے ، الیکشن ہوں گے تو ووٹر کی مزید تربیت ہو گی، جمہوری عمل بہتر ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں