"JDC" (space) message & send to 7575

غلط فیصلہ

حکومت پاکستان نے وزیر اعظم کی منظوری سے علی جہانگیر صدیقی کو واشنگٹن میں سفیر نامزد کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موصوف کی عمر صرف 36 سال ہے وہ گزشتہ اگست سے وزیر اعظم کے مشیر برائے اقتصادی امور اور سرمایہ کاری ہیں گویا ان کا حکومت کے کسی عہدے کا تجربہ صرف چھ ماہ ہے البتہ وہ ایئر بلیو اور لکی سیمنٹ جیسی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی رہے ہیں۔ قارئین بتا رہے ہیں کہ ان کمپنیوں کے ڈائریکٹر وہ اپنی قابلیت کے زور پر نہیں بلکہ اپنے والد صحب کی بزنس ایمپائر کی وجہ سے بنے۔ یہ خبر آتے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ قومی اسمبلی میں اس تقریر پر گرما گرم بحث ہوئی۔ مجھے چار فون آئے کہ کیا فارن آفس کے پاس ایک بھی ایسا افسر نہیں جو واشنگٹن کی سفارت کے معیار پر پورا اتر سکے۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جہانگیر صدیقی کے اور وزیر اعظم عباسی کے بزنس مفادات متشابہہ ہیں۔ ٹویٹر پر ایک صاحب نے یہ بھی لکھا کہ جہانگیر صدیقی نے ایئر بلیو کے حصص بڑی تعداد میں خریدے تو ان کے بیٹے کو اگست 2017 میں مشیر لگا دیا گیا۔ کہنے کا مطلب غالباً یہ تھا کہ یہاں پیسہ بول رہا ہے میرٹ نہیں۔ 
دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہانگیر صدیقی اور ان کے صاحبزادے نے امریکہ میں پاکستان کیلئے سرمایہ کاری کو مرعوب کرنے کیلئے بہت بڑا شو کیا تھا لہٰذا وزیر اعظم عباسی ان کی صلاحیت سے بڑے متاثر ہوئے 1960 کے آس پاس پاکستان کے مشہور بزنس مین اور لاجواب کرکٹر کمنٹیٹر جناب جمشید مارکر کو صدر ایوب خان نے بیرون ملک سفیر لگانے کا فیصلہ کیا۔ انہیں سب سے پہلے گھانا میں سفیر متعین کیا گیا وہاں سے وہ رومانیہ گئے گویا سفارت کاری کی ٹریننگ ان کی افریقہ اور مشرقی یورپ میں ہوئی بعد میں وہ اپنے تیس سالہ سفارتی کیریئر کے اختتام پر واشنگٹن میں سفیر رہے اور انہوں نے پاکستان کی شاندار نمائندگی کی۔ سفارتکاری بچوں کا کھیل نہیں کہ پلک جھپکنے میں آ جائے۔
میں چھ ملکوں میں پاکستان کا سفیر رہا ہوں لہٰذا میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک نو آموز شخص جسے پاکستان میں کوئی جانتا بھی نہیں ایک سپر پاور میں بطور سفیر تعین خود امریکی حکومت کو کوئی زیادہ پسند نہیں آئے گے۔ سفارتکاری نازک اور حساس گیم ہے۔ ایک پیغام جو اسلام آباد سے واشنگٹن اس تقرری کی بدولت گیا ہے وہ یہ ہے کہ اب پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو پہلے جیسی اہمیت نہیں دیتا حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں امریکہ کی اور امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے ہارے دوطرفہ تعلقات میں ایک واضح خلیج پیدا ہو گئی ہے لیکن اس خلیج کو مزید وسعت دینا نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ امریکہ کے۔ اس وقت ہمیں واشنگٹن میں زیرک اور تجربہ کار سفار تکار کی ضرورت ہے جو ملکی مفادات کا موثر دفاع کر سکے۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارا انتہائی قابل اعتماد دوست یعنی چین بھی کبھی اشاروں میں اور کبھی کھل کر یہ کہتا ہوا سنا گیا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں بگاڑ کو روکنا چاہئے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مشکل سے دو ماہ رہ گئے ہیں وہ لیم ڈک Lame Duck وزیر اعظم ہو چکے ہیں انہیں اب اہم اور حساس فیصلے نہیں کرنا چاہئیں۔
امریکہ کا صدر دنیا کا طاقت ور ترین لیڈر تصور ہوتا ہے لیکن امریکہ کے صدر کے قلم میں بھی اتنی طاقت نہیں کہ بذات خود کسی کو سفیر مقرر کر سکے۔ وہاں ہر سفیر کو کانگریس یعنی پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ سینیٹ کی منظوری کے بعد وزارت خارجہ تقرری کا نوٹیفکیشن ایشو کرتی ہے۔ سینیٹ بعض اوقات گھنٹوں تک نامزد سفرا سے سوال جواب کرتی ہے کہ کسی اناڑی یا نااہل شخص کے ہاتھ میں ملک کا پرچم نہیں دیا جا سکتا۔
واشنگٹن میں پاکستانی ایمبیسی کو گونا گوں مسائل کا سامنا ہے۔ انڈین لابی کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے ہر اہم تھنک ٹینک ہر اعلیٰ یونیورسٹی ، ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں آپکو انڈین اوریجن کے لوگ مختلف پوزیشن میں نظر آئیں گے۔ یو این میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ نکی ہیلی کا تعلق ایسٹ پنجاب کے ایک سکھ گھرانے سے ہے امریکی میڈیا اسرائیلی لابی کے زیر اثر ہے اور وہ لوگ بھی پاکستان کیلئے زیادہ نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ پیرس میں ہونے والے FATF یعنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ انٹرنیشنل بیانیہ ہمارے خلاف جا رہا ہے اور ہم ایک نوجوان کو کہہ رہے ہیں کہ واشنگٹن میں پاکستانی مفادات کا دفاع کرو ، صاف لفظوں میں کہوں تو مجھے یہ فیصلہ احمقانہ لگا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ماضی میں کون کون پاکستان کی امریکہ میں نمائندگی کر چکا ہے ہمارے پہلے سفیر ابو الحسن اصفہانی تھے جو تحریک آزادی اور پاکستان موومنٹ کے دنوں سے قائد اعظم کے معتمد تھے۔ پھر وہاں محمد علی بوگرا گئے جو بعد میں وزیر اعظم بنے مشہور آئی سی ایس افسر جی احمد وہاں سفیر رہے، جناب سلطان محمد خان ، جمشید مارکر، عابدہ حسین ، ملیحہ لودھی، شیری رحمن، اکرم ذکی ، صاحبزادہ یعقوب خان، نجم الدین شیخ ، ریاض کھوکھر، جنرل جہانگیر، کرامت جلیل، عباس جیلانی یعنی ایک سے بڑھ کر ایک تجربہ کار اور قابل۔ سب کے سب پڑھے لکھے اور سفارتکاری کے آداب سے خوب شناسا۔ سب کی شخصیت میں ٹھہرائو اور جیو پولیٹیکل شطرنج سے خوب آگاہی ہمیں نظر آتے ہیں اور اب ہم علی جہانگیر صدیقی کو وہاں بھیج رہے ہیں تاکہ واشنگٹن جا کر سفارتکاری کی تربیت لے۔ آپ بوجھ سکتے ہیں کہ میں نے واشنگٹن میں پاکستان کے سابقہ سفیروں میں حسین حقانی کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ مجھے اس شخص کی قابلیت کا اعتراف ہے لیکن یہ آج کل امریکہ میں انڈین لوبی کے بہت قریب ہے حالانکہ نمک اس نے ساری عمر پاکستان کا کھایا ہے بلکہ خوب کھایا ہے۔
ہمیں پیرس میں جس سبکی مخالف اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑا کیا اس سے ہم کوئی سبق نہیں سیکھیں گے۔ کیا اب بھی کمزور سفیر باہر بھیجتے رہیں گے۔ کیا ہمارے پاس وزیر خارجہ کیلئے خواجہ آصف سے بہتر کوئی شخص نہ تھا۔ وزیر خارجہ پڑھا لکھا ہونا چاہئے اور اس کی طبیعت میں ٹھہرائو ہونا چاہئے، وزیر خارجہ کیلئے ضروری ہے کہ پہلے تولے پھر بولے۔ اگر کسی ۔۔۔ کی سمجھ نہ آئے تو وزارت خارجہ کے افسروں سے پوچھنے میں عار محسوس نہ کرے۔ جناب شاہ محمود قریشی اور محترمہ حنا ربانی کھر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں یہ دونوں سفارتکاری کے میدان میں نو وارد تھے لیکن محنت کی اور سیکھ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ شاہ محمود قریشی سابق فارن سیکرٹریز کو فارن آفس باقاعدگی سے مشورے کی غرض سے مدعو کرتے رہتے تھے۔ ہمارے موجودہ فارن منسٹر نے پیرس میں قبل از وقت فتح کا اعلان نہ کیا ہوتا تو ملک کیلئے بہتر ہوتا لیکن موصوف کالج کے زمانے سے بڑبولے ہیں اور عمر عزیز کے آخری حصے میں بدلنے سے رہے۔
ہمارے وزرائے اعظم فارن آفس اور سفارت خانوں کو اس حلوائی کی دکان کیوں سمجھتے ہیں جہاں عفت میں خالہ جی کی فاتحہ اور قل کرائے جائیں یا اپنے بزنس پارٹنرز کو اعلیٰ قسم کی جلیبیاں کھلائی جائیں۔ کیا پیپلز پارٹی اور کیا ن لیگ دونوں نے اپنے چہیتوں میں سفارت کی ریوڑیاں بانٹی ہیں۔ ٹیکس دہندگان کے پیسے پر یہ لوگ خود مزے کرتے ہیں اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ میری وزیر اعظم سے التماس ہے کہ کسی تجربہ کار اور زیرک سفارتکار کو امریکہ روانہ کریں جو واشنگٹن میں کارکرردگی دکھائے۔ پاکستان کے مفادات کا خوب دفاع کر سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں