"JDC" (space) message & send to 7575

مہاتیر‘ اردوان‘ مودی اور نواز شریف

ہمارے میاں نواز شریف ہمیشہ یہ ظاہر کرتے آئے ہیں کہ وہ پاکستان کے مختلف ترین اور محبِ وطن لیڈر ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ رہا ہے کہ کشکول توڑ کر دم لیں گے۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا دیں گے۔ قوم سے قرض اتارنے کی اپیل کی تاکہ ملک کی قسمت سنور جائے۔ لوگوں نے خوب پیسے دیئے تاکہ پاکستان کے قرضوں کا بوجھ ہلکا ہو‘ لیکن اپنے آخری عہدِ حکومت میں موصوف نے ریکارڈ قرضے لئے‘ مگر نہ تو لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو سکی‘ نہ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل میں کوئی بہتری آئی اور نہ ہی اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بڑھ سکا۔ اس کے برعکس مبینہ طور پر شریف خاندان کے اثاثوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔
قارئین جانتے ہوں گے کہ میاں صاحب دو ایشیائی لیڈروں سے بہت متاثر رہے ہیں۔ ایک تھے سنگاپور کے یی کوان یو اور دوسرے ملائیشیا کے مہاتیر محمد۔ یی کوان یوکو میں نے اس لئے موضوع میں شامل نہیں کیا کہ اس سے کالم کا دائرہ بہت پھیل جاتا اور دوسرے سنگاپور کے عظیم لیڈر وفات پا چکے ہیں‘ لہٰذا مندرجہ بالا تین لیڈروں تک اکتفا مناسب سمجھا کہ تینوں اس وقت بھی حکومت کر رہے ہیں‘ اور ان میں سے نریندر مودی اور طیب رجب اردوان کے ساتھ میاں صاحب کے دوستانہ تعلقات بھی ہیں۔ چاروں لیڈروں میں ایک مشترکہ قدر یہ بھی ہے کہ اقتصادی ترقی کو اپنی حکمتِ عملی کا محور سمجھتے ہیں۔
مہاتیر محمد بلا شبہ ایشیا کے بڑے قد کے لیڈر ہیں۔ پندرہ سال سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ اب بانوے سال کی عمر میں عوام کے اصرار پر پھر سے سیاست میں آئے ہیں۔ مہاتیر کا پہلا عہدِ حکومت بائیس سال پر محیط تھا۔ جب موصوف نے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تو ملائیشیا ایک پسماندہ ملک تھا۔ ربڑ پیدا کرنے والے جنگلات اور TIN دھات پر معیشت کا انحصار تھا۔ اکثریتی آبادی ملائے (Malay) مسلمانوں کی تھی جو پسماندہ اور غریب تھے۔ ملائے کمیونٹی تعلیم میں پیچھے تھی اور اسے عمومی طور پر کاہل اور سست ہونے کا طعنہ ملتا تھا۔ 
مہاتیر محمد ملائے کمیونٹی کے ایک عام سے گھر میں پیدا ہوئے‘ دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا‘ لیکن والدین کے وسائل محدود تھے۔ اپنی فیس کے پیسے پورے کرنے کے لئے مہاتیر اپنے قصبے کی لوکل مارکیٹ میں کیلوں کی چھابڑی لگایا کرتے تھے۔ اس سیلف میڈ انسان نے میڈیکل کی ڈگری لی اور چند سال بطور طبیب پریکٹس بھی کی۔ مہاتیر کو سب سے پہلے کابینہ میں تعلیم کا قلمدان ملا۔ اس حیثیت کو موصوف نے ملائے قوم کی تعلیمی ترقی کے لئے استعمال کیا۔ مہاتیر کو سکول کے زمانے سے انگریزی زبان پر خوب عبور حاصل تھا لیکن انہیں یقین تھا کہ ابتدائی تعلیم کے لئے ماں بولی سب سے اچھی ہوتی ہے؛ چنانچہ ملائے زبان کو میڈیم بنا کر تعلیم کو عام کیا گیا۔ 
اس کے برعکس نواز شریف نے ہوش سنبھالا تو گھر میں خوش حالی دیکھی۔ لاہور میں ان دنوں دو تین ہی انگلش میڈیم سکول ہوتے تھے۔ بڑے میاں صاحب نے انہیں سینٹ انتھونی St. Anthony سکول میں داخل کرایا۔ میٹرک میں مارکس واجبی سے تھے لہٰذا کرکٹ کے کھلاڑی کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے‘ لیکن کالج کی ٹیم کا حصہ نہ بن سکے۔ ان کے چند کلاس فیلوز کو میں جانتا ہوں۔ اکثر کی رائے ہے کہ موصوف تعلیم میں بھی خاصے ماٹھے تھے۔ پھر وہ لا کالج گئے۔ پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم بنے مگر بارک اوباما سے ملاقات ہوئی تو جیب سے پرچیاں نکال کر پڑھنے لگے۔ مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو ایک پسماندہ ملک سے ایشین ٹائیگر بنایا۔ آج ملائیشیا کی فی کس جی ڈی پی چار ہزار ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ مہاتیر نے بھی اپنے دارالحکومت میں بلند ترین عمارت تعلیم کی لیکن تعلیم کی اہمیت کو نہ بھولے۔ اس کے برعکس ہمارے نواز شریف کی سوچ موٹر وے، میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے چمکدار Glamourous منصوبوں میں پھنسی رہی۔ مہاتیر نے ملائیشیا کو اقوام عالم میں عزت دلائی لیکن نواز شریف ایسا نہ کر سکے۔ مہاتیر کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ایئر پورٹ پر ہوتے تو اچانک واش روم کی انسپیکشن کے لئے چل پڑتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ قوموں کے واش روم صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ مہاتیر کے مقابلے میں نواز شریف ذہنی اور جسمانی طور پر خاصے سست نکلے۔ سرکاری حلقوں میں مشہور ہے کہ موصوف نہ فائل کو زیادہ غور سے پڑھتے ہیں نہ کوئی لمبا چوڑا نوٹ لکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے تو خاصے غائب رہے۔ کابینہ کے اجلاس بھی کم کم ہی ہوئے۔
اور اب آتے ہیں طیب رجب اردوان کی جانب۔ موصوف پندرہ سال سے ترکی کے حکمران ہیں۔ جب اقتدار سنبھالا تو ترکی کو کئی اقتصادی پرابلم درپیش تھے۔ اردوان نے اقتصادی اصلاحات کے ذریعے اکانومی کی حالت درست کی۔ ان کے پہلے دس سال شاندار ترقی کا زمانہ تھا۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اردوان کے اقتدار میں آنے سے پہلے استوار ہو چکے تھے۔ اردوان کی سوچ اسلامی ہے‘ مگر اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات اب بھی قائم ہیں۔ لیکن پہلے والی گرمجوشی اب ختم ہو چکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اردوان فلسطینی حقوق کے پُرجوش حامی ہیں۔ 2016ء میں اردوان حکومت کیخلاف ناکام بغاوت ہوئی تو عوام اپنے لیڈر کی حمایت میں فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ دو سو کے قریب لوگ جان سے گئے۔ ہزاروں گرفتار ہوئے۔ ابھی پچھلے ہفتے ایک عدالت نے سو سے زائد فوجی افسروں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ 2016ء میں فوجی بغاوت کی وجہ سے اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو گئی تھی۔ لیکن 2017ء میں پھر سے شاندار گروتھ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پچھلے سال ترکی کی شرح نمو سات اعشاریہ چار (7.4) فیصد تھی۔ اردوان کی وجہ سے ترکی کا اقوام عالم میں رتبہ بلند ہوا ہے۔ اردوان کو بھی امسال الیکشن کا سامنا ہے۔ ہمسایہ ملک شام میں حالات ابھی تک نارمل نہیں۔ کرد علاقے میں ترکی فوج کے کچھ دستے موجود ہیں۔ ادھر یورپی یونین نے 2016ء میں انسانی حقوق کی پامالی کا بہانہ بنا کر ترکی کے ساتھ ممبرشپ کی بات چیت معطل کی ہوئی ہے۔ لیکن ان تمام مسائل کے باوجود اردوان پورے اعتماد کے ساتھ قیادت کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عوام انہیں چاہتے ہیں۔ وہ اپنے لیڈر کی خاطر جان دینے کو تیار ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1999ء میں جب جنرل مشرف نے میاں صاحب کو اقتدار سے فارغ کیا تھا تو عوام ان کی حمایت میں نہیں نکلے تھے بلکہ بعض ستم ظریفوں نے تو مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ اور اب بات کرتے ہیں نریندر مودی کی۔ یقین مانئیے مجھے بھی مودی اتنا ہی برا لگتا ہے جتنا آپ کو کہ آئے روز لائن آف کنٹرول کے پار سے معصوم پاکستانیوں پر گولیاں چلانا مودی سرکار کی پالیسی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان گھٹنے ٹیک دے۔ سی پیک کے منصوبے روک دے۔ لیکن ہم نے ٹھنڈے دل سے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ مودی نے انڈیا کیلئے کیا کیا۔ کیا اس پر بھی میاں صاحب کی طرح کرپشن کے الزامات لگے اور ہندوستان کی پوزیشن آج اقوام عالم میں کیا ہے؟مہاتیر محمد کی طرح مودی کا تعلق بھی عام سے خاندان سے ہے۔ ان کا فیملی بزنس تیل نکالنا اور بیچنا تھا۔ یہ گانچی ذات کے لوئر کاسٹ ہندو شمار ہوتے ہیں‘ لیکن شودر نہیں۔ مودی نے اپنے دور حکومت میں گجرات کے صوبے کو شاندار اقتصادی ترقی دلائی اور اب وہ گجرات ماڈل پورے انڈیا پر لاگو کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آیا ہے کہ مودی کے پاس کوئی ذاتی کار نہیں۔ امرت بھائی مودی انڈین وزیر اعظم کا بڑا بھائی ہے۔ وہ ایک کمپنی سے بطور فٹر Fitter ریٹائر ہوا۔ پنشن دس ہزار روپیہ ماہانہ ہے۔ امرت بھائی مودی کے پاس کوئی کار نہیں البتہ ایک سکوٹر ضرور ہے۔ پنکج بھائی مودی انڈین وزیر اعظم کا چھوٹا بھائی ہے اور ریاست گجرات کے ایک سرکاری دفتر میں کلرک ہے۔ اشوک بھائی مودی وزیر اعظم کا فرسٹ کزن ہے اور ایک چھوٹی سی دکان میں کھلونے اور پتنگ بیچتا ہے۔ مودی کے زمانے میں انڈیا کا انٹرنیشنل برادری میں قد کاٹھ بڑھا ہے۔ اکنامک گروتھ سات فیصد ہے۔ امریکہ، جاپان، متحدہ عرب امارات، اسرائیل، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے۔ آپ ذرا مودی خاندان کی دولت کا شریف فیملی کے اثاثوں سے موازنہ کریں۔ آپ کو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ انڈیا پاکستان سے آگے کیوں جا رہا ہے۔ کرپشن کا الزام مہاتیر محمد پر کبھی نہیں لگا۔ اردوان کے بھی بیرون ملک اثاثے نہیں۔ آپ یقینا پاکستان کی زبوں حالی کی وجوہات سمجھ گئے ہوں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں