"JDC" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش پاکستان سے آگے؟

1967ء کی بات ہے میں ایم اے اقتصادیات کا سٹوڈنٹ تھا۔ دنیا کے کئی معروف ماہرینِ اقتصادیات کہہ رہے تھے کہ پاکستان معاشی طور پر ٹیک آف کرنے ہی والا ہے۔ ٹیک آف کا مطلب یہ ہے کہ اکانومی میں اتنی سکت آ جائے کہ وہ غیر ملکی امداد کے بغیر ترقی کرنے لگے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہوائی جہاز رن وے پر تیزی سے دوڑتا ہے اس کے انجن بہت شور مچاتے ہیں پھر جب یہ ٹیک آف کر لیتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جہاز نے سکون کا سانس لیا ہو اور یہ آسانی سے اڑ رہا ہوتا ہے۔ یہی صورت اکانومی کی ہوتی ہے اسے ٹیک آف سے پہلے بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ گروتھ ریٹ کئی سال تک سات آٹھ فیصد تک رکھنا ہوتا ہے۔ قومی بچت کی شرح بڑھانا پڑتی ہے۔ صنعتوں کو چلانے کے لئے جدید تربیت یافتہ لیبر تیار کرنا ضروری ہے۔ پھر جب اکانومی کا ہوائی جہاز محو پرواز ہو جائے تو اسے زیادہ زور نہیں لگانا پڑتا بالکل اس طرح جیسے چوتھے اور پانچویں گیئر میں گاڑی بڑے سکون سے چلتی ہے۔
مگر پاکستان باوجود تمام آثار (Conditions) کے ٹیک آف نہ کر سکا۔ 1970ء کے بعد سیاسی صورت غیر مستحکم اور غیر یقینی تھی۔ پھر ہمیں جنگ لڑنا پڑی۔ پاکستان دو لخت ہوا۔ باقی ماندہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی قیادت تو اچھی فراہم کی لیکن ان کا نیشنلائزیشن یعنی انڈسٹری اور بینکوں کو قومیانے کا فیصلہ اتنا غلط تھا کہ آج بھی اس کے منفی اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ملک سے سرمائے کی پرواز 1972ء میں شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔
ہم نے دنیا کے کئی ممالک کو اقتصادی طور پر ٹیک آف کرتے دیکھا ہے۔ سب سے بڑی مثال تو چین کی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جنوبی کوریا‘ سنگاپور اور ملائیشیا ایشین ٹائیگر بن گئے لیکن جنوبی ایشیا کا ہمارا خطہ مختلف تنازعات اور عسکری اخراجات کی وجہ سے مجموعی طور پر اقتصادی دوڑ میں پیچھے رہا اور آج صورت حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور انڈیا دونوں کی شرح نمو پاکستان سے زیادہ ہے‘ اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ پاکستان کی اکانومی اگر پانچ فیصد سالانہ کے ریٹ سے ذرا زیادہ ترقی کر رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ سی پیک کے ذریعے ہونے والی سرمایہ کاری ہے۔ 
1971ء تک یہ کہا جاتا تھا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان پر اقتصادی بوجھ ہے۔ مشرقی پاکستان صرف پٹ سن (Jute) اور چائے ایکسپورٹ کرتا تھا۔ بنگالی بھائی کہتے تھے کہ انہیں اسلام آباد کی عمارتوں اور سڑکوں میں پٹ سن سے کمایا ہوا پیسہ نظر آتا ہے یعنی بقول ان کے مغربی پاکستان مشرقی حصے کا معاشی استحصال کر رہا تھا۔ 1971ء کے بعد بھی دو عشروں تک بنگلہ دیش کی اقتصادی حالت زیادہ امید افزا نہیں تھی۔ ملک کا رقبہ بہت محدود تھا اور آبادی بہت زیادہ۔ قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور سائیکلون آتے رہتے تھے۔ مگر آج صورتحال خاصی مختلف ہے۔ معروف بنگلہ دیشی ماہر معاشیات وحیدالدین محمود نے حال ہی میں کہا کہ ان کا ملک بہت جلد ایشین ٹائیگر بننے والا ہے۔ جو سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کب اقتصادی طور پر ٹیک آف کرے گا‘ پاکستان کب ایشین ٹائیگر بنے گا۔
آئیے بنگلہ دیش کے میکرو اکنامک Macro Economic اشاریے غور سے دیکھتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی مجموعی قومی آمدنی تقریباً 265 ارب ڈالر ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 1550 ڈالر ہے۔ معیشت کا سالانہ گروتھ ریٹ 2017ء میں سات اعشاریہ تین فیصد تھا جو کہ انڈیا سے بھی زیادہ تھا۔ ایک امریکن ڈالر 85 ٹکہ کے برابر ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت کے ٹوٹل قرضے مجموعی قومی آمدنی کا پینتیس فیصد ہیں جو پاکستان کے مقابلے میں خاصی بہتر پوزیشن ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات تیس بلین ڈالر سے زائد ہیں‘ یعنی پاکستان سے کہیں زیادہ۔ بنگلہ دیش کی آبادی 1972ء میں پاکستان سے زیادہ تھی مگر آج صرف ساڑھے سولہ کروڑ ہے۔ بنگلہ دیش کا انتہائی کامیاب فیملی پلاننگ پروگرام وہاں خوشحالی لایا ہے۔ 
آپ یہ پڑھ کر شاید حیران ہوں کہ 2012ء میں پاکستان کے کئی ٹیکسٹائل یونٹ بنگلہ دیش شفٹ ہو گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ پاور لومز پاکستان سے منتقل کر کی گئی تھیں۔ اندازہ لگائیں کہ صرف 2012ء میں پاکستان میں کتنی جابز ختم ہوئیں اور بنگلہ دیش میں کتنے کام کرنے کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ دراصل 2011ء میں بنگلہ دیش حکومت نے اپنے ملک میں کئی ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنائے اور 37 ممالک کو وہاں انڈسٹری لگانے کی اجازت دی‘ پاکستان ان ممالک میں شامل تھا۔ اس زمانے میں پاکستان میں بجلی کا بحران بہت شدید تھا‘ جبکہ بنگلہ دیش میں بجلی وافر تھی۔ یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ بنگلہ دیش میں شرح تعلیم باسٹھ فیصد ہے۔
اور اب پاکستان کے اقتصادی اشاریے غور سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 284 ارب ڈالر ہے جو بنگلہ دیش کے جی ڈی پی سے قدرے زیادہ ہے۔ البتہ آبادی کم ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش فی کس سالانہ آمدنی میں پاکستان کو کراس کر گیا ہے۔ پاکستان کی فی کس جی ڈی پی اس وقت تقریباً ایک ہزار چار سو ڈالر ہے۔ پاکستان کی برآمدات بائیس ارب سالانہ ہیں جو بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ سے 8 ارب ڈالر کم ہیں۔ پاکستانی روپیہ اس وقت بی ڈی ٹکہ کے مقابلے میں کمزور ہے۔ ایک ڈالر 117 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ پاکستان کا پاپولیشن گروتھ ریٹ 2.1 فیصد ہے جو بنگلہ دیش کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔ پاکستان کا ڈیفنس بجٹ 9.6 ارب ڈالر ہے جو بنگلہ دیش سے چھ ارب ڈالر زیادہ ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے پاکستان کا ٹوٹل قرضہ بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا قومی قرضہ قومی پیداوار کا ستر فیصد ہے۔
سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش جو ہم سے کہیں پیچھے تھا‘ اب ہمیں کراس کیسے کر رہا ہے تو میرا جواب یہ ہو گا کہ بنگلہ دیشی قیادت اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اپنے عوام کے ساتھ ہماری قیادت سے زیادہ مخلص ہے۔ شیخ حسینہ واجد انڈیا کی پٹھو ضرور ہیں لیکن ان کے اثاثے بنگلہ دیش سے باہر نہیں ہیں۔ پاکستانی قیادت کے بارے میں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ بنگلہ دیش نے اپنے Least Developed Country ہونے کو عشروں تک خوب استعمال کیا ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی کامیاب سفارتکاری کا نتیجہ ہے کہ لمبے عرصے سے وہاں کے بنے ہوئے ٹیکسٹائل آئٹم یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں ترجیحی طور پر داخل ہوتے ہیں یعنی ان پر کسٹم ڈیوٹی بہت کم ہے۔ بنگلہ دیشی برآمدات کے زیادہ ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے۔
بنگالی بھائی ذہین لوگ ہیں۔ پرانا مقولہ ہے What Bengal thinks today India thinks tomorrow یعنی جو سوچ آج بنگال کی ہے کل کو پورے انڈیا کی ہو گی۔ بنگلہ دیش میں شرح خواندگی پاکستان سے زیادہ ہے۔ وہاں کے علما فیملی پلاننگ پروگرام کی کامیابی میں کلیدی رول ادا کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ کی بنیاد بھی ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی۔ بنگالی بھائی ہمیشہ دور کا سوچتے ہیں۔ 1972ء کے فوراً بعد حکومت نے مکتی باہنی سے تمام ہتھیار واپس لے لئے تھے۔ 1971ء سے پہلے ہماری کرکٹ ٹیم میں مشرقی پاکستان سے ایک کھلاڑی بھی نہیں ہوتا تھا‘ آج ہم شکیب الحسن اور تمیم اقبال کو بڑے شوق سے پی ایس ایل میں بلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں 1990ء کے بعد کوئی مارشل لاء نہیں لگا۔ وہاں مائیکرو فنانس پروگرام کامیابی سے چلا۔ ڈاکٹر یونس اس کے بانی تھے۔ اسی کامیابی کی وجہ سے انہیں نوبل پرائز بھی ملا۔ چھوٹے قرضے عمومی طور پر دیہی خواتین کو دیئے گئے۔ اس سے خواتین کی مالی حالت بہتر ہوئی۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مصروف خواتین چھوٹے سائز کی فیملی کو ترجیح دیتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے کامیابی فیملی پلاننگ پروگرام میں Women Empowerment کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کمائو خاتون خاوند سے پورے اعتماد کے ساتھ بات کر سکتی ہے۔
اپنے رقبے‘ وسائل اور امکانات کی وجہ سے پاکستان بہت زیادہ ترقی کرنے کے قابل ہے‘ لیکن ہمارے ترقی کے عمل کو بریک لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں لوڈ شیڈنگ کے مسئلہ کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔ تبھی باہر سے سرمایہ کاری ہو گی۔ ہماری جاب مارکیٹ میں ہر سال بیس لاکھ نوجوان داخل ہو رہے ہیں۔ انہیں جاب دینے کیلئے ہمیں آٹھ فیصد سالانہ کے ریٹ سے گرو کرنا ہو گا اور کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی آبادی کے جن کو بنگلہ دیش کی طرح بوتل میں بند کر لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں