"JDC" (space) message & send to 7575

دائروں میں سفر

گزشتہ ستر برس میں پاکستان ایک لیبارٹری کی طرح مختلف تجربات دیکھ چکا ہے۔ یوں تو پاکستان پر کئے گئے تجربے بہت سے ہیں‘ لیکن اس کالم میں چند ایسے اقدام زیر بحث آئیں گے جنہیں بعد میں ختم کرنا پڑا یا ریورس کرنے کی نوبت آئی۔ شنید ہے کہ یو ایس ایڈ کے کسی آفیشل نے کہا تھا Pakistanis take decisions in hurry and repent at leisure یعنی پاکستانی جلد بازی میں فیصلے کرتے ہیں اور پھر آرام سے بیٹھ کر پچھتاتے ہیں۔ اپنے ملک کی مختصر سی تاریخ کو دیکھیں تو یہ قول خاص حد تک درست لگتا ہے۔
ایوب خان کے بنیادی جمہوریت اور صدارتی نظام سے شروع کرتے ہیں۔ بنیادی جمہوریت کا مقصد جمہوریت کو گائوں اور گلی محلوں تک لانا تھا۔ آئیڈیا اچھا تھا کہ عوام اپنے نمائندوں کی یونین کونسلیں بنائیں‘ ہر یونین کونسل پانچ سے آٹھ دیہات پر مشتمل تھی‘ ہر یونین کونسل کا منتخب چیئرمین تھا‘ جو لوکل ترقیاتی کاموں کا ذمہ دار تھا‘ یونین کونسلز کے تمام چیئرمین تحصیل کونسل کے بھی ممبر تھے‘ البتہ تحصیل کونسل کا چیئرمین اسسٹنٹ کمشنر ہوتا تھا۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر ہوا کرتا تھا۔ بنیادی جمہوریت کا نظام کنٹرول کردہ ڈیموکریسی کا تجربہ تھا کیونکہ ایوب خان کے خیال میں پاکستانی عوام مکمل جمہوری نظام چلانے کی صلاحیت ابھی نہیں رکھتے تھے۔اس نظام کے متعدد محاسن سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘ لیکن خرابی تب شروع ہوئی جب یونین کونسلوں کے اسی ہزار چیئرمین اس الیکٹورل کالج میں بلاشرکت غیرے شامل کر دیئے گئے‘ جسے نیشنل اسمبلی‘ صوبائی اسمبلی اور صدر مملکت کا منتخب کرنے کا حق حاصل تھا۔ اس وقت پاکستان کے دو صوبے تھے ایک مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان اور ہر صوبے کے پاس مساوی یعنی چالیس ہزار ووٹ تھے۔ اس نظام نے الیکشن دھاندلی کو آسان تر کر دیا۔ یونین کونسل کے چیئرمین پر تحصیل دار‘ تھانیدار اور ڈپٹی کمشنر کے ذریعے اثر انداز ہونا آسان ہوتا۔ ادھر 1962ء کے آئین نے صدر مملکت کو بہت زیادہ اختیارات دے دیئے تھے‘ بقول شخصے 1962ء کا آئین فیصل آباد کے آٹھ بازاروں کی مانند تھا اور ہر بازار سے صدر مملکت گھنٹہ گھر کی طرح دور سے نظر آتا تھا۔ 1965ء کے آغاز میں ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین صدارتی الیکشن ہوا۔ مشرقی پاکستان میں مادر ملت کو زیادہ ووٹ ملے‘ مگر مغربی پاکستان میں دھاندلی سے ایوب خان جیت گئے۔ یہ الیکشن دونوں صوبوں کے درمیان خلیج کو وسیع تر کر گیا۔ ایوب خان کے جانے کے بعد بنیادی جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی اور 1973ء میں ہم دوبارہ پارلیمانی نظام کی طرف آگئے۔
بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو ان کے تین نعروں میں سے ایک نعرہ سوشلزم کا تھا۔ اس سوشلزم کا نفاذ نیشنلائزیشن کے ذریعہ کیا گیا۔ کئی صنعتی یونٹ پبلک سیکٹر میں آگئے‘ لاہور میں بیکو کا یونٹ پیکو بن گیا‘ اتفاق فائونڈری بھی قومیا لی گئی۔ میاں نواز شریف اپنی مظلومی کی داستان یہیں سے شروع کرتے ہیں۔ نیشنلائزیشن کے اس عمل سے بینک بھی نہ بچ پائے‘ بلکہ کئی فلور ملیں اور چاول چھڑنے کے کارخانے بھی پبلک سیکٹر میں آگئے۔ اس عمل سے صنعتی پیداوار سست روی کا شکار ہوئی۔ جہاں جہاں سرکار نے کارخانے چلانے کا تجربہ کیا ‘ منفی نتائج ہی سامنے آئے ۔ بھٹو صاحب کا دور ختم ہوا تو ضیاء الحق کے زمانے سے نج کاری کا عمل شروع ہوا اور نج کاری کا یہ عمل محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں بھی جاری رہا‘ گویا اب پیپلزپارٹی بھی اپنے لیڈر کی جلد بازی اور غلطی کا اقرار کر رہی تھی۔ بھٹو صاحب کے زمانے سے سرمایہ کار پاکستان سے بھاگنا شروع ہوئے اور یہ عمل آج تک جاری ہے‘ اسی وجہ سے 1990ء کی دہائی میں ہماری شرح ترقی بہت کم رہی۔ ہمسایہ ملک ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اقتصادی پالیسی کی وجہ سے تیزی سے ترقی کرنے لگا اور پاکستان کی ترقی جو 1960ء کی دہائی میں شاندار تھی اب ماند پڑ چکی تھی۔
جنرل ضیاء الحق نے 1981ء میں اعلان کیا کہ 1991ء میں ہونے والے میٹرک کے امتحانات صرف اُردو میں ہوں گے‘ یعنی کسی سٹوڈنٹ کو انگریزی زبان میں جواب لکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پاکستان کی اشرافیہ اور ابھرتی ہوئی مڈل کلاس نے اس حکومتی فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ سرکاری سکول سب کے سب اُردو میڈیم بن گئے۔ اشرافیہ کے بچوں کے لئے پرائیویٹ سیکٹر میں انگلش میڈیم سکول کھلنے لگے‘ انگلش میڈیم تعلیم اب بڑا کاروبار بن گیا۔ مڈل کلاس کو اس بات کا خوب ادراک تھا کہ پاکستان میں اچھی جاب اور اعلیٰ رتبہ انگلش کی بدولت ہی ملتا ہے۔ ابھرتی ہوئی مڈل کلاس سماجی سیڑھی پر اوپر جانا چاہتی تھی‘ وہ کسی صورت اُردو میڈیم کے ذریعے عوام کا حصہ بننے کو تیار نہ تھی۔
جب صدر ضیاء الحق کا فیصلہ متنازع ہوگیا تو چند خواتین نے جنرل صاحب سے درخواست کی کہ ہم آپ کو ملنا چاہتی ہیں‘ آپ متعلقہ وزراء اور فیڈرل سیکرٹری بھی بلا لیں۔ میٹنگ شروع ہوئی تو جنرل صاحب نے اُردو زبان کے محاسن گنوائے۔ خواتین خاموشی سے سنتی رہیں پھر ایک خاتون بولیں کہ یہاں حکومت کے بڑے سینئر لوگ تشریف فرماہیں‘ آپ لوگ یہ فرمائیں کہ کس کس کے بچے اُردو میڈیم سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں۔ میز کی دوسری جانب اب مکمل خاموشی تھی۔ ایک اور خاتون گویا ہوئیں کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں بھیج کر کل کے حاکم بنا رہے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اُردو میڈیم میں پڑھ کر ان کے محکوم رہیں؛ چنانچہ جنرل صاحب نے بادل نخواستہ اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس ساری کہانی سے سبق یہ ملتا ہے کہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد جلد بازی میں کئے گئے فیصلے دیرپا نہیں ہوتے۔
2001ء میں جنرل پرویز مشرف نے مجسٹریٹی سسٹم ختم کر دیا۔ انگریز کے وضع کردہ نظام میں مجسٹریٹ فوجداری مقدمات کے فیصلے بھی کرتا تھا اور پر تشدد اور بڑے مظاہروں کو کنٹرول بھی کرتا تھا۔ پولیس براہ راست مظاہرین سے ڈیل نہیں کرسکتی تھی‘ مظاہرین کو بات چیت کے ذریعے منتشر کرنا مجسٹریٹ کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ جنرل مشرف کے زمانے میں مجسٹریٹ کے فوجداری مقدمات سننے کے اختیارات سول جج کو دے دیئے گئے۔ پولیس اب براہ راست ضلعی ناظم کے ماتحت تھی۔ یہ فیصلہ بھی ضروری سوچ بچار کے بغیر کیاگیا۔ مجسٹریٹ بطور سرکاری افسر لوکل جھگڑوں میں نیوٹرل ہوتا تھا‘ ضلعی ناظم ووٹ لے کر آتا تھا اور لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش حالت میں بھی اس کے لئے پولیس کو حکم دینا تقریباً ناممکن تھا ‘مشرف کے جاتے ہی ضلعی ناظم بھی گئے۔ اب مظاہرین کے سامنے پولیس براہ راست ہوتی تھی نہ مجسٹریٹ کا بفر Buffer تھا اور نہ ہی ناظم کا؛ چنانچہ جنرل مشرف کا مجسٹریسی ختم کرنے کا فیصلہ بھی ریورس ہوگیا ہے‘ یعنی ہم واپس وہیں پر ہیں جہاں 2001ء سے پہلے تھے۔
2008ء میں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو صوبائی خود مختاری کا نعرہ زوروں پر تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ صوبوں کو مزید اختیارات دیئے جائیں مزید وزارتیں دی جائیں۔ ستم ظریفی یہ کہ صوبے بھی مضبوط نہ ہوسکے۔رضا ربانی کی سربراہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس میں مسلم لیگ (ن) کے ممبر بھی شامل تھے۔ کمیٹی کے متعدد اجلاس ہوئے اور تمام معاملات صیغۂ راز میں رکھے گئے۔ میاں نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دیا گیا اور اس طرح مسلم لیگ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے لئے تیار ہوگئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل مشرف کے دور میں کی گئی آئینی ترمیم کے تحت کوئی شخص دوسے زائد مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکتا تھا۔ اس ترمیم کی بدولت فیڈرل حکومت کی سترہ وزارتیں صوبوں کو گئیں۔ یہ کام بھی عجلت میں ہوا۔ صوبے اتنی زیادہ ذمہ داریاں اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اس ترمیم کے بعد سمندری حدود کی سکیورٹی اوردفاع سنٹرل حکومت کے پاس تھا ‘مگر سمندر میں ماہی گیری صوبائی حکومتوں کے پاس۔ عجب کنفیوژن تھا نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت 58 فیصد وسائل فیڈرل پُول سے صوبوں کو دے دیئے گئے‘ صوبائی بیورو کریسی اتنا زیادہ پیسہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ فیڈریشن کے وسائل کم ہوگئے۔ جلد بازی کے اس فیصلے نے سنٹرل حکومت کو کمزور کیا اور ستم ظریفی یہ کہ صوبے بھی مضبوط نہ ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں