"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستانی الیکشن اورغیرملکی میڈیا

وطنِ عزیز میں ایک اور الیکشن ہو چکا ہے ۔مسلم لیگ نون کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے ہیں اور یوں دوسری مرتبہ مسلسل دستوری مدت پوری کرنے کے بعد حکومت ووٹ کے ذریعہ بدل رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کو مد نظر رکھیں تو یہ نیک شگون ہے کہ جمہوریت ہماری سر زمین میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ میں نے 2013ء میں بھی ووٹ دیا تھا اور 2018ء میں بھی۔ میرے اندازے کے مطابق ہمارے حالیہ انتخابات 2013ء کے مقابلے میں بہتر تھے۔ اس دفعہ وہ خوف و ہراس کی فضا نہ تھی جو 2013ء میں دہشت گردوں نے قائم کر رکھی تھی۔ البتہ فارن میڈیا نے اس الیکشن میں بھی نقائص نکالے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ فارن میڈیا نے کیا کہا ہے اور ان کی تنقید کہاں تک جائز ہے۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے بدترین الیکشن تھے۔ آزادیٔ اظہار پر قدغنیں لگیں، کچھ ٹی وی چینلز اور اخباروں کو کھل کر بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ لیڈروں کو اپنی وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیاگیا۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ رپورٹ کافی حد تک مبالغہ آمیز ہے۔ پاکستان میں بدترین الیکشن 1977ء میں ہوا تھا۔ اس کے مقابلے میں موجودہ الیکشن آزادانہ اور شفاف تھا۔ ٹیکنالوجی کے استعمال اور شناختی کارڈ کی ترقی یافتہ خصوصیات نے دھاندلی کو بہت کم کر دیا ہے۔ الیکشن کے دن مکمل امن و امان تھا۔ 52 فیصد لوگ سخت گرمی میں ووٹ دینے نکلے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں آنے کے لئے تیار ہیں۔ 1977ء میں اپوزیشن جماعتوں کے کامیاب امیدوار بھی حلف لینے کو تیار نہ تھے۔ بی بی سی کو چاہئے کہ اگلے یعنی 2023ء کے الیکشن کے لئے بہتر مبصر بھیجے۔
حسب توقع فارن میڈیا میں پاکستانی الیکشن کی بات چلی تو کپتان کی جوانی تک ضرور پہنچی۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ''عمران خان نے اپنی سحر انگیز شخصیت اور پیسے کو کرپشن کے خلاف مہم میں استعمال کیا۔ کرپشن ایک ایسا موضوع ہے جو غریب ملک کے منقسم معاشرے کو بھی متحد کرسکتا ہے۔ گذشتہ سالوں میں عمران خان میں بنیادی تبدیلی آئی ہے۔ وہ انٹرنیشنل گلیمر سے نکل کر دین داری کی طرف راغب ہوگیا ہے‘‘ اسی طرح امریکہ کے ٹائم میگزین کو اس الیکشن میں یہ مثبت چیز نظر آئی کہ اسلام آباد کے حلقہ این اے 53 میں عمران خان اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں ایک مخنث(Transgender) بھی بطور امیدوار سامنے آئی۔ اس امیدوار کا نام کشش تھا۔
مغربی میڈیا پاکستان کی ذاتی زندگی کے تضاد بھی ڈھونڈتا رہا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس Associated press یعنی AP نامی معروف نیوز ایجنسی نے لکھا کہ ''وہ تین مرتبہ شادیاں کرنے والا پلے بوائے ہے جو مشہور سنگر مک جیگر Mick Jagger کے ساتھ نظر آتا ہے لیکن وہ ایک اسلام پسند بھی ہے اور ایک ایسے ملا کے ساتھ بھی ملتا جلتا رہا ہے جسے افغان طالبان موومنٹ اپنا روحانی مشیر تسلیم کرتی ہے‘‘۔ نیو یارک ٹائمز نے عمران خان کے بارے میں ایک اور جگہ لکھا کہ ''اس نے کرکٹ کے میدانوں اور لندن کے نائٹ کلبوں دونوں جگہ شہرت کمائی ہے لیکن پچھلے دو عشروں میں، جب سے عمران خان نے پاکستان کے اعلیٰ عہدوں کے لئے کوشش شروع کی ہے، اس کی شخصیت میں بڑی پیچیدہ قسم کی تبدیلی آئی ہے‘‘۔
مجھے الیکشن کی کوریج میں برطانوی میڈیا زیادہ متعصب نظر آیا۔ بی بی سی نے تو یہاں تک کہا کہ پاکستان میں جمہوری طریقے سے حکومت کا تختہ الٹا جا رہا ہے اور اس ضمن میں بی بی سی نے تین دلائل دیئے ہیں۔ پہلی دلیل الیکشن سے بارہ روز قبل نواز شریف کی گرفتاری ہے۔ دوسری دلیل انتہا پسند جماعتوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہے اور تیسرا استدلال الیکشن کے عمل کی قریب سے نگرانی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ دلائل بالکل بے بنیاد ہیں۔ میاں نواز شریف کی 13 جولائی کو گرفتاری احتساب عدالت کے فیصلے کے مطابق ہوئی۔ اس گرفتاری کا فوج سے دور دور تک کا تعلق نہیں۔ انتہا پسند جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں تھی البتہ دینی جماعتوں کے اتحاد نے الیکشن میں ضرور حصہ لیا اور حسب سابق انہیں کم ووٹ ملے۔ الیکشن میں حصہ لینا ہر جماعت کا حق ہے، بشمول دینی جماعتوں کے، بلکہ پاکستان کی اس پالیسی سے دینی جماعتیں قومی دھارے میں آئی ہیں ،ورنہ ہمارے ہاں بھی الجزائر اور مصر والی کیفیت ہوتی۔ 
ایک برطانوی اخبار Obvserver کے مطابق ضرورت سے تین گنا فوجی پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کئے گئے تا کہ الیکشن نتائج کی نگرانی کی جائے۔ اس سے بڑا سفید جھوٹ بولا ہی نہیں جا سکتا۔ یورپی یونین کا سو سے زائد مبصرین کا گروپ پاکستان میں کئی روز رہا۔ الیکشن مکمل ہوا تو یورپی یونین کے مبصرین کے ہیڈ، جو جرمن نژاد تھے ،نے اس بات کا اقرار کیا کہ الیکشن میں فوج کا کردار صرف سکیورٹی ڈیوٹی تک محدود تھا اور یہ پاک فوج کا امتیاز ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے تقریباً پچاسی ہزار پولنگ سٹیشنوں پر امن رہا اور یہ کہ فوج کو سکیورٹی ڈیوٹی کے لیے سویلین حکومت نے بلایا تھا۔
مگر مغربی میڈیا سے بھی بھونڈا کردار انڈین میڈیا کا تھا۔ ایک انڈین چینل نیوز 18 نے تفصیل سے بتایا کہ ''طالبان خان‘‘ کی اصطلاح کیسے بنی گویا انڈین میڈیا پوری دنیا کو بتا رہا تھا کہ ہوشیار رہیں پاکستان میں انتہا پسند حکومت آ رہی ہے۔ ایک انڈین اخبار نے عمران خان کو فوج کے ہاتھ میں کٹھ پتلی قرار دیا۔ The Times Now نے سرخی لگائیIndia's Enemy Imran To Be P.M.۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد عمران خان نے قوم سے خطاب کیا تو انڈین میڈیا پھر سیخ پا تھا۔ اب انڈین چینلز کا کہنا تھا کہ عمران خان نے چین کی اتنی زیادہ تعریف کیوں کی۔ انڈیا کا ذکر آخر میں کیوں ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسئلہ کشمیر کو کیوں اجاگر کیا گیا۔ گویا آئندہ عمران خان پاکستانی قوم سے خطاب انڈیا سرکار سے پوچھ کر کیا کریں‘ ان کے مشورے سے بولیں؟
یورپی یونین کا مبصر مشن الیکشن سے دو ہفتے پہلے اسلام آباد آگیا تھا۔ سرینا ہوٹل میں قیام کیا۔ ہر جگہ آنے جانے اورملنے ملانے کی انہیں سہولت تھی۔ یورپی مبصرین بلوچستان کے علاوہ ہر اس جگہ گئے جہاں الیکشن ہو رہے تھے۔ اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور سندھ میں خوب گھومے۔ اس گروپ کے ہیڈ نے الیکشن کے روز سکیورٹی انتظامات اور الیکشن کنڈکٹ کی تعریف کی البتہ اس بات پر ضرور اعتراض کیا کہ الیکشن کا ماحول اتنا اچھا نہیں تھا۔ تنائو زیادہ تھا اور ایک سیاسی پارٹی دبائو کا شکار تھی لیکن مبصرین کو یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ اس سیاسی جماعت نے بہت سی سیٹیں بھی جیت لیں۔ دراصل نتائج توقعات کے مطابق آئے ہیں سروے بھی یہی کہہ رہے تھے۔
کامن ویلتھ کے مبصرین بھی آئے ۔ان کی قیادت نائیجریا کے ایک ریٹائرڈ جنرل کر رہے تھے۔ کامن ویلتھ کے آبزرور مشن نے بھی الیکشن میں مثبت پوائنٹ زیادہ دیکھے۔ ''ہم پاکستان کے عوام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے اپنے ووٹ کے حق کو سنجیدگی سے استعمال کیا‘‘ جنرل عبدالسلام ابوبکر نے کہا۔ الیکشن کے اگلے روز میں یورپین یونین کے ایک اہم ممبر ملک کے سفیر کے ہاں لنچ پر مدعو تھا۔ الیکشن کے بارے میں ان کے خیالات بھی مثبت تھے۔ دراصل امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا میڈیا اب پاکستان کو انڈین میڈیا کی آنکھ سے دیکھنے لگا ہے۔ ورنہ ایسے متعصب تجزیئے کوئی غیر جانبدار میڈیا نہ کرتا۔ نیا پرعزم اور پروقار پاکستان انڈیا کو ظاہر ہے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ 2013ء کی نسبت بہتر الیکشن کرا کے پاکستان خوش اور بااعتماد نظر آرہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں