"JDC" (space) message & send to 7575

دوحہ میں دو روز

قطر خلیج کا چھوٹا مگر اہم ملک ہے۔ گیس کے ذخائر کے حساب سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ آبادی چونکہ بہت کم ہے ‘لہٰذا فی کس آمدنی خاصی زیادہ ہے۔ صرف دوحہ میں پورے پاکستان سے زیادہ فائیو سٹار ہوٹل ہیں۔ شارع کورنیش سے شہر میں داخل ہوں ‘تو بے شمار فلک بوس عمارتیں نظر آتی ہیں‘ یہ بڑی بڑی کمپنیوںکے دفاتر ہیں یا فائیو سٹار ہوٹل۔ کچھ عرصہ پہلے جی سی سی کے چند ممالک نے قطر پر اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں۔ قطر اکثر فوڈ آئٹم خلیجی ممالک سے امپورٹ کرتا تھا؛چنانچہ عام خیال تھاکہ یہ ملک اقتصادی پابندیوں کا زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ لیکن قطر اپنے مؤقف پر قائم رہا۔ دوحہ میں جگہ جگہ عمارتوں پر ملک کے حاکم شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے سکیچ بنے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی امیر کی جرأت اور وژن کی تعریف و توصیف کے الفاظ درج ہیں۔تقریباً دو سال پہلے قطر نے الجزیرہ کے مقابلے کا ایک اور ٹی وی چینل لانچ کیا تھا‘ اس چینل کا نام العربی ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر لندن میں ہے۔ پاکستان میں الیکشن سے ایک روز قبل العربی چینل نے مجھے لندن سے بذریعہ سیٹیلائٹ انٹرویو کیا یہ پانچ منٹ کا مختصر سا انٹرویو تھا اور سوال تھے کہ عوام کی توقعات کیا ہیں‘ عمومی ماحول کیسا ہے؟ الیکشن کے بعد چینل نے پھر رابطہ کیا کہ ہم دوحہ میں الیکشن کے بعد کی پاکستانی سیاست اور فارن پالیسی کے بارے میں ایک گھنٹے کا پروگرام کرنا چاہتے ہیں ‘جس میں تین تجزیہ کار ہوں گے‘ ہم آپ کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں۔ کیا آپ دو دن کے لیے دوحہ آ سکتے ہیں؟ اور میں نے وہاں جانے کی حامی بھر لی۔ 
9 اگست کو علیٰ الصبح میں نے اسلام آباد سے دوحہ کی فلائٹ پکڑی۔ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے قطر ایئر لائن کی پروازیں اکثر خلیجی ممالک نہیں جا سکتیں۔ یہ کمی ایئر لائن والے دوسرے سیکٹرز سے پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاز نسبتاً نئے ہیں‘ عملہ بہت ہی خوش اخلاق ہے‘ پائلٹ زیادہ تر یورپی ممالک سے ہیں۔ وقت کی پابندی کا گراف خاصا بلند ہے۔ میں تقریباً گیارہ بجے دوحہ پہنچا تو جہاز سے نکلتے ہی ایک لڑکی نے میرا نام پوچھا‘ وہ چینل کی طرف سے میرے استقبال کے لیے مامور تھی۔ دوحہ کا نیا ایئرپورٹ چار سال پہلے بنا تھا۔ یہ اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ سے بڑا ہے۔ ایئر کنڈیشنڈ ایئر پورٹ سے باہر نکلے ‘تو یک دم سخت گرمی کا احساس ہوا۔ آناً فاناً عینک کے سرد شیشوں پر آبی بخارات جمع ہوئے‘ تو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ استقبال کرنے والی لڑکی نے بتایا آج دوحہ میں رطوبت کی مقدار‘ یعنی Humidity Level پچانوے فیصد ہے۔مجھے ہوٹل لیکر جانے والا ڈرائیور انڈین مسلمان تھا۔ تعلق اس کا کیرالہ سے تھا‘ لہٰذا اس کی اُردو بھی ٹوٹی پھوٹی سی تھی۔ ایئر پورٹ سے لے کر شہر تک گرد و غبار کا غلاف تھا‘ میں نے وجہ پوچھی تو محمد فیصل ڈرائیور نے بتایا کہ کنسٹرکشن بہت ہو رہی ہے ‘اسی وجہ سے ڈسٹ بہت ہے۔ کوئی بیس منٹ میں ہم ہوٹل پہنچ گئے‘ جہاں ٹی وی چینل والوں نے قیام کا بندوبست کیا تھا۔ یہ چھبیس منزلہ ہوٹل انٹرنیشنل معیار کا ہے۔ قطر نے 2022ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرنی ہے‘ لہٰذاان دنوںکنسٹرکشن زور و شور سے ہو رہی ہے۔ 
ٹی وی پروگرام شام کو سات بجے ریکارڈ ہونا تھا؛ چنانچہ وقت گزارنے کے لیے لوکل ٹی وی چینلز کو دیکھنا شروع کیا۔ قطر ٹی وی کہہ رہا تھا: قطری حاجی اس مرتبہ اراضِ مقدسہ نہیں جا سکیں گے‘ پھر اس نے یہ کہا کہ ایران کے ساتھ بھی سعودی عرب کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں‘ لیکن ایران کا حج مشن موجود ہے۔ ایرانی حاجی بھی جا رہے ہیں‘ تو پھر قطری کیوں نہیں جا ر ہے‘ پھر قطری اینکر نے کہا کہ حج کا انتظام مسلم ممالک کو مل جل کر چلانا چاہیے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ سعودی میڈیا کے مطابق قطری حجاج پر کوئی پابندی نہیں۔شام کو انٹرویو ریکارڈ کرانے العربی چینل کے سٹوڈیو گئے۔ میرے ساتھ ڈاکٹر دائل عواد تھے‘ جو اصل میں شامی ہیں اور چالیس سال سے نیو دہلی میں عرب میڈیا کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہنس کر کہنے لگے کہ لوگ مجھے عربی النسل مارک ٹلی Mark Tulli کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ الجزیرہ کے ہوتے ہوئے قطر کو ایک اور بڑے چینل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جواب ملا کہ الجزیرہ چینل گزشتہ چند سال سے اخوان المسلمین اور حماس کے نقطۂ نظر کو شد و مد سے بیان کر رہا تھا۔ قطر پر بھی عرب انتہا پسندوں کی حمایت کے الزام لگ رہے تھے‘ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ قطر کا ماڈرن امیج اجاگر کرنے کے لیے ایک اور چینل لانچ کیا جائے۔ پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہوئی ‘تو میرے علاوہ ڈاکٹر دائل عواد اور مردان قسام شریک ہوئے۔ پہلا سوال اینکر پرسن خاتون لیلیٰ نے مجھ سے کیا کہ الیکشن کیسا رہا؟ کیا واقعی لوگوں نے اتنے سارے ووٹ عمران خان کو دیئے ہیں اور اگر دیئے ہیں‘ تو وجہ کیا تھی؟ میں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کرپشن‘ موروثی سیاست اور غیر منصفانہ نظام سے تنگ آئے ہوئے تھے‘ لہٰذا عوام نے عمومی اور نوجوانوں نے خصوصی طور پر تحریک انصاف کو ووٹ دیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پاکستان کے لوگ اب خوش اور پر اعتماد نظر آتے ہیں۔اس کے بعد سوال ہوا کہ انٹرنیشنل میڈیا نے دھاندلی کا ذکر کیا ہے‘ نواز شریف اور اس کے کئی ساتھی الیکشن سے چند روز پہلے گرفتار ہوئے۔ عمران خان کی پارٹی خود جیتی ہے یا اسے جتوایا گیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ عمران خان‘ اگر کسی فوجی آمر کے کندھوں پر چڑھ کر وزیراعظم بننا چاہتے تو بہت مدت پہلے انہیں اس عہدے کی آفر ہوئی تھی‘ مگر وہ خود چاہتے تھے کہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل کریں ‘دوسری بات یہ کہ نواز شریف کو سزا فوج نے نہیں دی‘ انہیں جیل ایک عدالت نے بھیجا ہے‘پھر سوال ہوا کہ پنجاب‘ جو پاکستان کا اہم ترین صوبہ ہے‘ وہاں مسلم لیگ زیادہ نشستیں جیتی ہے‘ لیکن پاکستان تحریک انصاف لاہور میں حکومت بنانے پر مصر ہے۔ میں نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کے لیے 29 آزاد ارکان منتخب ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثریت تحریک انصاف کا ساتھ دے گی ‘لہٰذا پنجاب میں بھی مسلم لیگ کی حکومت نہیں ہوگی۔
ڈاکٹر وائل عواد کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست میں فوج اور دینی جماعتوں کے رول سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں قوتوں کا کردار کافی عرصہ اور چلے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ اس الیکشن میں عوام نے ایک مرتبہ پھر مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیا۔ اس پر اینکر پرسن خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ مذہبی جماعتوں کو کم ووٹ کیوں ملے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ پاکستان کے عوام اسلام سے محبت ضرورت کرتے ہیں‘ مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ علمائے دین ملک کے امور چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ اس بات پر ہم تینوں متفق تھے کہ اسلام آباد میں نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اقتصاد ہو گا۔شاید میرا دل رکھنے کے لیے دونوں ایکسپرٹس کہنے لگے کہ پاکستان بڑا ملک ہے ‘ایٹمی طاقت ہے‘ وہاں استحکام ضروری ہے‘ مگر تحریک انصاف کی حکومت انڈیا کے ساتھ تعلقات درست نہیں کر پائے گی اور اسی وجہ سے نان سٹیٹ ایکٹرز بھی پاکستان میں موجود رہیں گے۔ ڈاکٹر مروان کا کہنا تھا کہ عمران خان اب القاعدہ جیسی تنظیموں کے بارے میں کیا نقطۂ نظر رکھتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ پاکستان نے القاعدہ کی کمر توڑ کر رکھی دی ہے اور ٹی ٹی پی بھی قصۂ پارینہ ہو چکی ہے۔ انٹرویو کے بعد مجھے پھر سے یقین ہو گیا کہ باہر کی دنیا میں ہمارا امیج خراب ہے‘ ہمارے عرب بھائی بھی پاکستان کو مغرب اور انڈیا کی عینکوں سے دیکھتے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں