"JDC" (space) message & send to 7575

چین کا سفر

میں نے حال ہی میں چین کا ایک ہفتے کا دورہ کیا ہے۔ یہ میرا ملک چین کا تیسرا سفر تھا اور مجھے اس ملک نے ایک مرتبہ پھر امپریس کیا ہے۔ تازہ ترین وزٹ میں ہمارا وفد چین کے تین بڑے شہروں میں گیا اور یہ تھے بیجنگ، شنگھائی اور چینڈو۔ آبادی کے لحاظ سے بیجنگ اور شنگھائی دونوں کراچی سے بڑے ہیں اور چینڈو ذرا ہی چھوٹا ہے۔ مجھے ان تینوں شہروں میں کچہرے کا ایک ڈھیر بھی نظر نہیں آیا۔ مجھے وہاں ایک بھی بھکاری نہیں ملا۔ سڑکیں کھلی کھلی ہیں اور درخت بے شمار۔ ٹریفک جیم ضرور ہوتے ہیں لیکن ٹریفک ایک ڈسپلن سے چلتی ہے۔ ملک اور قوم ایک فوکس کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ نصب العین واضح لگتا ہے، اور وہ ہے دنیا کی نمبر ایک قوم بننا۔ لیکن یہ بات کوئی چینی لیڈر کھل کر شاذ و نادر ہی کہتا ہے۔ اس قوم کے لیڈر بڑھکیں نہیں مارتے ۔ شاندار اقتصادی ترقی کے باوجود چین نے لو پروفائل Low Profile فارن پالیسی رکھی ہے۔ اس پالیسی کے باوجود چین پُر اعتماد ہے۔ وہ امریکہ سے آنکھ ملا کر بات کرتا ہے۔
اسلام آباد کونسل فار ورلڈ افیئرز ICWA پاکستانی تھنک ٹینک ہے، جس کی بنیاد جناب آغا شاہی نے رکھی تھی۔ اسی طرح چین میں چائنیز پیپلز انسٹیٹیوٹ فار فارن افیئرز CPIFA ہے جسے وزیراعظم جو این لائی نے قائم کیا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب دنیا میں اکثر ممالک چینی حکومت سے بات چیت کرنے سے گریزاں تھے۔ چین نے CPIFA کا تھنک ٹینک اسی لئے بنایا تھا کہ دیگر ممالک سے گفتگو کا کوئی راستہ نکلے۔ ICWA اور CPIFA باری باری ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ اس سال ہماری باری تھی اور اگلے سال CPIFA کے لوگ پاکستان آئیں گے۔ ان دوروں میں سنجیدہ بات چیت اور سیر سپاٹا ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
13 ستمبر کو پی کے 852 سے ہماری اسلام آباد سے بیجنگ روانگی تھی۔ رات پونے گیارہ بجے ٹیک آف کا ٹائم تھا۔ ایئر پورٹ پہنچے تو معلوم ہوا کہ جہاز ایک گھنٹہ لیٹ پرواز کرے گا۔ کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ حیرانی تب ہوتی اگر قومی ایئر لائن کی فلائٹ عین وقت پر محو پرواز ہو جاتی۔ لیکن ایک زمانے میں ایسا ہوتا تھا۔ تب ہماری پی آئی اے دنیا کی صف اوّل کی ایئر لائنز میں شامل تھی۔ چونکہ ملک میں وی آئی پی کلچر ختم ہو رہا ہے۔ لہٰذا سب محمود و ایاز چیک ان کے لیے لائن میں کھڑے تھے اور لائن تھی کہ چل ہی نہیں رہی تھی۔ پہلے یہ عذر پیش کیا گیا کہ سوفٹ ویئر دو دن پہلے بدلا گیا ہے، نئے سوفٹ ویئر کو چلانے میں دقت پیش آ رہی ہے۔ پھر پتہ چلا کہ محترمہ جو چیک ان کی کرسی پر براجمان ہیں مسافروں سے پہلے جہاز کے عملے کو سوار کرانے میں مصروف ہیں۔ یہ بات ٹھیک بھی ہے، کیونکہ عملہ جہاز میں جائے گا تو ایئر کرافٹ اڑنے کے قابل ہوگا۔ لیکن سوال یہ بھی تھا کہ صرف ایک خاتون کو ہی عملے کے تمام بورڈنگ پاس ایشو کرنے کا کام کیوں دیا گیا۔ باقی لائنیں آہستہ آہستہ چل رہی تھیں جبکہ ہماری لائن کو مکمل بریک لگی ہوئی تھی۔ بزرگ شہریوں کے لیے علیحدہ کائونٹر بھی نہیں تھا۔ خیر میں تو ابھی زیادہ بزرگ نہیں ہوں یا کم از کم زعم یہی ہے۔ لیکن ہمارے وفد کے تین لوگ اسّی سال کے ہونے والے ہیں، وہ مع بیگمات ڈیڑھ گھنٹہ بورڈنگ پاس کے انتظار میں لائن میں کھڑے رہے۔ اسی دوران طوفان باد و باراں آیا اور فلائٹ مزید لیٹ ہو گئی۔ آدھی رات کے بعد جہاز میں سوار ہوئے تو دیکھا کہ فضائی میزبان خواتین بھی ہماری ہم عمر ہیں۔ جہاز کا کیبن یخ بستہ تھا۔ 777 جمبو جیٹ بھرا ہوا تھا۔ تین سو سے زیادہ مسافر رہے ہوں گے۔ سردی لگی تو ایئر ہوسٹس سے کمبل مانگا، جواب ملا کہ جہاز میں صرف تیس کمبل ہیں جو میں تقسیم کر چکی ہوں۔ ہم سردی سے کانپتے محو پرواز ہوئے۔ خیر عملے کو ذرا ترس آیا تو جہاز کے درجۂ حرارت کو بڑھا دیا گیا۔
14 ستمبر کو جہاز معمول سے تین گھنٹے لیٹ بیجنگ پہنچا۔ ایئر پورٹ پر سپیفا کی جانب سے مادام ڈو مِن Du Min اپنے ساتھیوں کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھیں۔ ہمارا وفد گیارہ لوگوں پر مشتمل تھا۔ ایمبیسیڈر خالد محمود ہمارے قائد تھے۔ سات سابق سفیر ایک سابق فیڈرل سیکرٹری، ایک قائداعظم یونیورسٹی کے سابق ڈین اور ایک ایڈووکیٹ جو اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے ہیں، وفد میں شامل تھے۔ اس طرح سے یہ خاصا نمائندہ وفد تھا۔ ایمبیسیڈر خالد محمود 1990ء کی دہائی میں چین میں پاکستان کے سفیر تھے اور اس وجہ سے چین میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔
جہاز چونکہ تین گھنٹے لیٹ تھا، لہٰذا ہم ساڑھے سات کی بجائے ساڑھے دس بجے پہنچے۔ سامان حاصل کرنے تک اور امیگریشن کے مرحلے تک گیارہ بج چکے تھے۔ چین میں لنچ کا وقت 12 بجے شروع ہوتا ہے۔ اس روز سپیفا کی وائس پریذیڈنٹ کی طرف سے ہمارا Welcome Lunch تھا۔ مادام ڈو مِن کا اصرار تھا کہ ہم ایئر پورٹ سے سیدھے سپیفا کے دفتر پہنچیں‘ جہاں لنچ کا اہتمام تھا۔ چین میں وقت کی پابندی پر بہت زور ہے؛ چنانچہ ہم بڑھی ہوئی شیو اور بغیر نکٹائی کے سپیفا پہنچے۔ یہاں مادام او بوقیان Ou Boqian، جو چینی فارن سروس میں سفیر کا درجہ رکھتی ہیں، ہماری منتظر تھیں۔ وہ سپیفا کی وائس پریذیڈنٹ ہیں اور لنچ کے لیے ہماری میزبان تھیں۔
خالد محمود صاحب نے تمہیدی جملوں میں میزبان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 1971ء اور 1972ء کے سال پاک چین دوستی کے سفر میں انتہائی اہم ہیں۔ 1971ء تک اقوام متحدہ میں چین کی نمائندگی تائیوان کے پاس تھی۔ پاکستان نے One China یعنی ایک چین کی پالیسی کی سرگرم حمایت کی اور کہا کہ تائیوان کو چین کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔ پاکستان اور دیگر دوست ممالک کی مدد سے چین نے یو این میں اپنی نشست تائیوان سے واگزار کرا لی اور اس طرح چین سکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر بھی بن گیا۔ 1971ء کی پاک ہند جنگ کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا۔ 1972ء کے آغاز میں بنگلہ دیش کی یو این ممبر شپ کے لیے انڈیا اور چند اور ممالک نے بھرپور کوشش شروع کر دی۔ چین کے پاس سکیورٹی کونسل میں ویٹو کا اختیار تھا۔ چین کا مؤقف تھا کہ جب تک انڈیا پاکستان کے جنگی قیدی واپس نہیں کرتا، ہم بنگلہ دیش کو یو این کا ممبر نہیں بننے دیں گے۔ اس طرح فوراً ہی چین نے پاکستان کے احسان کا بدلہ چکا دیا۔
ایمبیسیڈر خالد محمود کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک (CPEC) سے پہلے پاک چین تعلقات کی نوعیت سیاسی اور عسکری تھی یعنی دنیا کے مختلف بڑے بڑے مسائل پر دونوں ممالک ہم خیال تھے۔ دفاعی شعبے میں تعاون بڑھ رہا تھا، مگر اقتصادی تعلقات خاصے کمزور تھے۔ عوام میں رابطہ بھی برائے نام تھا۔ سی پیک شروع ہونے کے بعد تعلقات کی نوعیت زیادہ جامع ہو گئی ہے۔ ہماری میزبان نے جوابی جملوں میں کہا کہ پاکستان اور چین All Weather Friends یعنی اچھے بُرے ہر وقت کے دوست ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے لیے Iron Friend یعنی پکّے دوست کی اصطلاح بھی استعمال کی۔ شام کو سفیرِ پاکستان مسعود خالد نے کھانے پر پورے وفد کو بلایا ہوا تھا۔ مسعود خالد کا شمار فارن سروس کے اچھے افسروں میں ہوتا ہے اور وہ دسمبر میں ایک لمبی اور شاندار اننگ کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں۔
اگلے روز ہفتہ تھا ،دفاتر بند تھے ،چنانچہ ہمیں Confucius Temple کی سیر کرائی گئی۔ کنفیوشس آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے کا فلاسفر ہے جو بلند اخلاقیات کا داعی تھا۔وہ معاشرے اور حکومت کے ایوانوں میں اعلیٰ اقدار کی ترویج کا حامی تھا۔ وہ اخلاص اور انصاف کا سپورٹر تھا۔ کنفیوشس نے چینی زبان کی پانچ کلاسک تصانیف کو ایڈیٹ) EDIT (کیا۔ اسی زمانے میں چینی زبان کے سمبل (Symbol) لکھے گئے۔ مقابلے کے امتحان شروع ہوئے۔ یعنی سرکاری عہدوں پر وہی فائز ہوگا جو لائق فائق ہو گا۔ کنفیوشس کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی چین کے لوگوں نے اُسے احترام دیا۔ اس کے خیالات کی قدر کی کنفیوشس Harmony یعنی توازن اور شانتی کا داعی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے رحم کے جذبات کا بھی پرچار کرتا ہے، البتہ اسے مذہبی راہنما نہیں کہا جا سکتا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں