"JDC" (space) message & send to 7575

جناب وزیرِ اعظم کے لئے چند مشورے

مجھے پی ٹی آئی کی نووارد حکومت کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے۔ پچھلی حکومت نے معیشت کے حوالے سے وہ حالات چھوڑے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہ تھا‘ لیکن آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان 8 اکتوبر کو کیا گیا یعنی بڑی تاخیر کے بعد۔ اس چند ہفتوں پر محیط تاخیر نے بے یقینی کی صورت حال پیدا کی۔ سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی پیدا ہوئی۔ ڈالر کو پَر لگ گئے؛ چنانچہ اس نئی حکومت کے لئے پہلا سبق تو یہ ہے کہ اہم فیصلے بروقت ہونے چاہئیں۔
وزیر اعظم عمران خان میاں نواز شریف کے مقابلے میں کہیں زیادہ متحرک ہیں اور یہ خوش آئند بات ہے۔ وہ ایک دن کوئٹہ ہوتے ہیں تو دوسرے دن لاہور۔ میاں صاحب تو لگتا ہے فروخت شدہ بھینسوں کی لسی پی کر سوئے رہتے تھے۔ نئی حکومت کی آمد اور وزیر اعظم کے متحرک ہونے کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ سرکاری محکموں میں بھی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ سرکاری اہل کار ہمہ وقت اپنی سیٹ پر ضرور نظر آتے ہیں۔ میں نے یہ تبدیلی خود اپنی نظروں سے دیکھی ہے۔ ڈسپلن اور کرپشن کے اعتبار سے سی ڈی اے پچھلے دو عشروں میں خاصا بدنام ادارہ بن گیا تھا۔ رہی سہی کسر یونین بازی نے پوری کر دی تھی۔ 2014ء میں پراپرٹی ٹیکس دینے گیا تو متعلقہ اہل کار سے ملنے میں دو تین روز لگے۔ وہ اپنی سیٹ پر موجود ہی نہیں ہوتا تھا۔ پچھلے ماہ پھر پراپرٹی ٹیکس دینے گیا تو ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا ہر کارندہ ہمہ وقت اپنی سیٹ پر موجود تھا۔ اور ہر کوئی اپنا اپنا کام کر رہا تھا۔ یہ ہے وہ خاموش تبدیلی جو پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد آئی ہے۔
پی ٹی آئی میں مشاورت اور سوچ بچار کی شروع سے کمی دیکھنے میں آئی۔ یہاں ایک آدمی کی بات حرف آخر ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بحیثیت مجموعی آصف علی زرداری کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے یا مسلم لیگ نون والے میاں نواز شریف کی جنبشِ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ ہمارے رویّے مجموعی طور پر غیر جمہوری رہے ہیں۔ یہاں بیٹے کے پروفیشن کا فیصلہ باپ کرتا ہے۔ بیٹی کی شادی کہاں ہو گی اس کا فیصلہ بھی والدین کرتے آئے ہیں۔ لیکن آج یہ روایات بدل رہی ہیں۔ آج نوجوانوں سے اُن کی زندگی کے متعلق فیصلوں پر رائے لی جاتی ہے۔ پڑھے لکھے طبقے میں یہ رجحان عام ہے۔
قوم کا خیال تھا کہ زرداری اور میاں نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان صاحب زیادہ پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں؛ چنانچہ دوسروں کی بات زیادہ غور سے سنیں گے لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کپتان کے مینار پاکستان لاہور والے جلسے کے بعد ان کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا تھا۔ انہی دنوں میرے تین دوست پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ تینوں گریڈ بائیس سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ایمانداری اور قابلیت کے لحاظ سے تینوں کی شہرت بہت اچھی تھی۔ تینوں نے اپنے اپنے اختصاص کے حوالے سے کپتان کو بڑی صائب تجاویز دیں مگر پی ٹی آئی کی طرف سے نہ کوئی جواب آیا‘ نہ ہی مشورے کیلئے بُلایا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تینوں نے بد دل ہو کر پی ٹی آئی کو جلد ہی چھوڑ دیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ میرے دوست اور بیچ میٹ Batch mate گلزار خان کے ساتھ ہوا۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2013ء میں کے پی سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ جلد ہی اُن کا شمار باغی ارکان میں ہونے لگا۔ میں نے ایک دن مرحوم سے پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟ کہنے لگے: میں آٹو کریسی Auto Cracy کا مخالف ہوں۔
تو مشورہ یہ ہے کہ مخالف رائے کو تحمل اور بردباری سے سنیں‘ فیصلے سوچ سمجھ کر اور مکمل مشاورت سے کریں۔ جلد بازی سے پرہیز کریں۔ عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا تھا اور پھر یو ٹرن بھی فوراً ہی لے لیا گیا۔ اسی قسم کا معاملہ پنجاب کے آئی جی محمد طاہر خان کے پانچ ہفتے بعد تبادلے سے ہوا ہے۔ اگر یہ فیصلہ ناگزیر ہی تھا تو ضمنی الیکشن کے فوراً بعد بھی ہو سکتا تھا اور فیصلہ اناؤنس کرنے سے پہلے پبلک کو بتا دیتے کہ کن وجوہ کی بنا پر آئی جی صاحب کو تین سال سے پہلے ہٹایا جا رہا ہے۔ معاف کیجئے‘ فیصلے سوچ سمجھ کر اور سلیقے سے نہیں ہو رہے۔
کوئی دو ہفتے پہلے جب کشمیر روڈ پر تجاوزات کے خلاف بڑا آپریشن ہوا تو یار لوگ دو حوالوں سے بڑے خوش ہوئے۔ ایک تو کیپیٹل میں حکومت اپنی رٹ بحال کر رہی تھی۔ دوسرے ان شادی ہالوں کے مالک بڑے اثر و رسوخ والے لوگ تھے۔ جب یہ سارے شادی ہال اور پٹرول پمپ کے ساتھ والا ایک غیر قانونی فرنچائز ‘ توڑے گئے تو ڈھارس بندھی کہ اب پاکستان میں قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ کا بنی گالہ والا گھر تجاوزات میں نہیں آتا کیونکہ یہ سرکاری زمین پر نہیں بنا لیکن اسے Regularise تو بہرصورت ہونا ہے اور عدالت کے احکامات بھی یہی ہیں۔ اور ہاں شارع دستور پر کنونشن سنٹر کے ساتھ بنائے گئے دو ٹاور بھی پچاس فیصد چائنا کٹنگ کا نتیجہ ہیں اور یہاں آپ کا اپارٹمنٹ بھی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ ان عمارتوں میں اوپر کے سو فلیٹ اوپن آکشن میں بیچ دیئے جائیں۔ اصل مالکان کو ان کا اصل زر یعنی قیمت خرید لوٹا دی جائے اور جو منافع حاصل ہو وہ ڈیم فنڈ میں جمع ہو جائے۔ جناب وزیر اعظم صاحب آپ کیلئے سب سے بڑا محاذ اکانومی ہونا چاہئے مگر آپ کی توجہ ٹوائلٹ صفائی پر مبذول ہے۔ کرکٹ ٹیم کا کپتان گرائونڈ کی صفائی نہیں کرواتا۔ آپ ہر کام خود کرنے کی کوشش نہ کریں‘ ورنہ آپ کا فوکس بڑے کاموں سے ہٹ جائے گا‘ اور بڑے کام ہیں‘ اکانومی میں مضبوطی، کرپشن میں کمی اور آبادی کے سیلاب کو روکنا۔ آبادی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کیلئے ہمیں علما اور فیملی پلاننگ والے ماہرین کو بنگلہ دیش اور ایران بھیجنا چاہئے۔
اکانومی کو ٹھیک کرنے کے لئے پہلا قدم ڈائریکٹ ٹیکس بڑھانا اور ان ڈائریکٹ ٹیکس Indirect Taxes مثلاً ایکسائز ڈیوٹی کو کم کرنا ہو گا‘ بالواسطہ ٹیکس ہماری برآمدات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل جیسے سفید ہاتھیوں کی یا اصلاح کرنا ہوگی یا انہیں بیچنا پڑے گا۔ یہ دونوں ادارے قوم پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ آئی ایم ایف پیکیج معاشی بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرے گا۔ ہماری اکانومی میں ڈسپلن لائے گا‘ لیکن شرح سود بڑھنے سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھیں گے تو مہنگائی بھی بڑھے گی اور سب سے منفی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے والے لوگ اپنے اقتصادی فیصلوں کا حق بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ مثلاً ہمارے بیرونی تجارتی خسارے کو کم کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ہم بیش قیمت کاریں امپورٹ کرنا بند کر دیتے‘ چائے کم پیتے‘ باہر سے سامانِ آرائش مع لپ سٹک نہ منگواتے لیکن اب آئی ایم ایف آپ کو یہ بھی اجازت نہیں دے گا‘ کیونکہ فری ٹریڈ آئی ایم ایف کی پالیسی کا حصہ ہے۔ آپ کی اصل کامیابی ہم تب مانیں گے جب 2023ء میں آنے والی حکومت آئی ایم ایف کے ہاں کشکول لے کر نہیں جائے گی۔ تب یقین آئے گا کہ آپ زرداری اور نواز شریف سے بہتر لیڈر ہیں۔
آئی ایم ایف سے آزادی حاصل کرنے کیلئے آئندہ پانچ سال میں ہمیں اپنی برآمدات کو پینتالیس ارب ڈالر تک لے جانا ہوگا۔ آپ بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے ڈالر، یورو اور پاؤنڈ سٹرلنگ کے بانڈ ایشو کریں اچھی خاصی مقدار میں زرمبادلہ پاکستان آئے گا۔ ہمیں آزاد عدلیہ کے علاوہ اچھی‘ قابل اور آزاد انتظامیہ کی بھی اشد ضرورت ہے تو آپ بسم اللہ کریں اور بھٹو کی واپس لی ہوئی دستوری گارنٹی بحال کر دیں۔ غلام بیوروکریسی یا نکمے افسر پیدا کرتی ہے یا کرپٹ۔ اور ہاں ایک وقت میں بہت سارے محاذ نہ کھولیں۔ ایک ٹیم بیک وقت دو تین میچ نہیں کھیل سکتی۔ بیک وقت زیادہ لڑائیاں لڑنے سے آپ کو نقصان ہوگا کیونکہ آپ کولیشن گورنمنٹ کے سربراہ ہیں اور ہاں اپنے وزراء کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ صرف اپنی وزارت کے بارے میں بیان دیں اور وہ بھی سوچ سمجھ کر۔ لوگوں کی توقعات آسمان کو چھو رہی ہیں اور وسائل محدود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کا ایک سبب یہی تھا۔ لہٰذا توقعات کو حقیقت پسندانہ ہونا چاہئے۔ اللہ آپ کو کامیاب کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں