"JDC" (space) message & send to 7575

بدلتا ہوا مڈل ایسٹ اور پاکستان

مڈل ایسٹ بدل رہا ہے۔ آپ کہیں گے کہ وہ کیسے؟ وہی بادشاہتیں ہیں اور وہی کفیل کا نظام۔ عرب سپرنگ بھی کچھ خاص نہیں کر پایا۔ میں اس کا جواب یوں دوں گا کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دو ملک شام اور لیبیا بہت کمزور ہوگئے‘ مصر میں بھی وہ پہلے والا طمطراق نہیں رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ خلیجی ممالک کو کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی سپورٹ کھینچ لیں تو آپ دو ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکتے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے حال ہی میں سلطنت عمان کا دورہ کیا ہے۔ جمال خاشقجی کے بعد آنے والا بھونچال ابھی تک محسوس ہو رہا ہے۔ پاکستان کو یمن میں ثالث کا کردار ملنے کی توقع ہے۔
برادر ملک سعودی عرب نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کا مشکل وقت میں کام آنے والا دوست ہے‘ لیکن دوست ممالک کے پاس بار بار مالی امداد کے لئے جانا دانشمندی نہیں۔ ہمیں قرض کی ایسی عادت چھوڑنا ہوگی اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے محصولات بڑھائیں‘ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں‘ بڑے زمینداروں پر انکم ٹیکس لگائیں اور ساتھ ہی اخراجات کو کم کرتے جائیں۔ مجھے یاد ہے ایک زمانے میں ڈاکٹر شیریں مزاری ایٹمی طاقت بننے کے حق میں یہ دلیل دیتی تھیں کہ اس طرح ہم اپنے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کو کنٹرول میں لاسکیں گے۔ پھر یہ ہوا کہ الحمدللہ ہمارے پاس ایٹمی اثاثے آگئے‘ مگر ڈیفنس بجٹ بھی بڑھتا رہا۔ یہ تضاد میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا تو میں نے ایک زیرک اور باخبر جنرل صاحب سے یہی سوال کیا۔ وہ نیشنل ڈیفنس کورس میں میرے استاد رہے تھے۔ ان کا جواب تھا کہ اگر روایتی ہتھیاروں (Conventional weapons)کی تیاری یا خریداری سے ہاتھ کھینچ لیا جائے اور اپنی روایتی جنگ کی صلاحیت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ نہ کیا جائے تو ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
معاف کیجئے بات موضوع سے ہٹ گئی‘ لہٰذا مڈل ایسٹ کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ سعودی عرب اور عرب امارات میں اس وقت ہمارے تقریباً پینتیس لاکھ لوگ کام کر رہے ہیں‘ اگر بیرون ملک سے آنے والی زرمبادلہ کی ترسیلات کو دیکھا جائے تو نصف سے کچھ زیادہ حصہ ان دو ممالک سے آتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں انفراسٹرکچر کے منصوبے کافی حد تک مکمل ہو چکے ہیں‘ آئندہ آنے والے منصوبوں کا انحصار بڑی حد تک تیل کی عالمی قیمتوں پر ہے۔ پچھلے چار سال میں مڈل ایسٹ سے کافی پاکستانی ورکر واپس آئے ہیں اور ابھی مزید واپس آئیں گے‘ کیونکہ اپنے بے روزگار لوگوں کو جاب فراہم کرنا اب تمام خلیجی ممالک کی پالیسی ہے۔ اتنے زیادہ لوگوں کے واپس آنے سے ہمارے ہاں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں‘ دوسری جانب یہ ہمارے لئے مثبت تبدیلی بھی ہوسکتی ہے‘ کہ یہ لوگ اپنے ساتھ سرمایہ بھی لائیں گے اور مہارت بھی۔ اگر ہم انہیں صحیح اور محفوظ سرمایہ کاری کے راستے بتائیں تو یہ ہماری معیشت کا سہارا بن سکتے ہیں۔
اب آتے ہیں یمن میں پاکستان کی ممکنہ ثالثی کی جانب۔ سچ پوچھئے تو مجھے اس کوشش کی کامیابی کے فوری امکانات بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ یہ لڑائی بظاہر تو حوثی باغیوں اور صنعا کی معزول حکومت کے درمیان نظر آتی ہے‘ لیکن اصل میں یہ ثالثی ایران اور دو بڑے خلیجی ممالک کے درمیان صلح کا عمل ہوگا۔ ثالثی کے عمل کے لئے ثالث کا نیوٹرل ہونا بے حد مددگار ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایران پاکستان کو غیر جانبدار سمجھتا ہے؟ لیکن نتائج کی پروا کئے بغیر پاکستان کو یہ سعی ضرور کرنی چاہئے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ متحارب اسلامی ممالک میں صلح کرانا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے‘ اس کی ایک مثال 1980 ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ بند کرانے کے لئے پاکستان کی مساعی تھیں‘ جو بوجوہ کامیاب نہ ہو سکیں لیکن اس کے بعد پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کرانے میں نمایاں اور کامیاب کردار ادا کیا۔ امن کے لئے ثالثی کا کردار پاکستان کے عالمی امیج کو بھی بہتر کرنے میں مددگار ہوگا۔معلوم ہوتا ہے کہ خلیجی ممالک میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ یمن کی لامتناہی جنگ سب کے لئے نقصان دہ ہے۔ گلف ریجن میں شدید تنائو کی وجہ سے مغربی اقوام کو یہاں فوجی اڈے بنانے کا جواز ملا ہے۔ بحرین میں امریکی نیوی کا بیس ہے تو قطر میں امریکی ایئر فورس کا اڈہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے صدر ٹرمپ کو یہ کہنے کی جسارت ہوئی کہ ہماری سپورٹ نہ ہو تو آپ کی حکومت دو ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکتی۔
پاکستان کے دو برادر ممالک یعنی ترکی اور سعودی عرب میں تنائو شامی کرد آبادی کے بارے میں مختلف آراء سے شروع ہوا تھا۔ پھر قطر کے بارے میں پچھلے سال اختلافات مزید وسیع ہوئے اور اب جمال خاشقجی کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ترکی نے سلطنت عثمانیہ کے ذریعے مڈل ایسٹ پر صدیوں حکومت کی ہے‘ اس کی سرزمین پر یہ جرم ترک اقتدارِ اعلیٰ کی انا کا مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ مرحوم صحافی ترک صدر طیب اردوان کے دوست تھے اور وہ ترک خاتون سے شادی کر کے وہاں مستقل سکونت بھی اختیار کرنا چاہئے تھے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حال ہی میں سلطنت عمان کا دورہ کیا۔ پہلے اس دورے کو خفیہ رکھا گیا‘ لیکن اسرائیلی وزیراعظم اس قدر خوش ہوئے کہ اپنی ٹویٹ کے ذریعے تمام دنیا کو بتا دیا۔ میرا گمان ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے سلطان آف عمان سے اجازت ضرور لی گئی ہوگی۔
عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی سے جب اس دورے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ہمارے خطے کا ایک ملک ہے اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تو مجھے اس وزٹ سے کوئی حیرانی نہیں ہوئی‘ البتہ کچھ پاکستانی دوست اس سلسلے میں خاصے پریشان اور جذباتی نظر آئے۔ ایک نے مجھے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ ایسی صورت میں عربوں کو اس ظالم ریاست سے تعلقات قائم کرنے میں کیا جلدی ہے؟ میرا جواب تھا کہ انڈیا اپنے مسلمانوں پر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بے پناہ ظلم کر رہا ہے مگر انڈیا اور پاکستان کے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ ایک کالم نگار نے پوچھا کہ اسرائیل کے عمان میں آنے سے پاکستانی سلامتی کو خطرات تو نہیں لاحق ہو جائیں گے؟ میرا جواب تھا کہ خطرات اس صورت میں لاحق ہوں گے اگر عمان اسرائیل کو فوجی بیس بنانے کی اجازت دے اور ایسا فی الحال ممکن نہیں۔ ایک اور گہری سوچ والے دوست نے سوال کیا: سلطنتِ عمان نے اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دی ہے‘ اس سے خلیجی ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟ میں نے کہا: عمان کی لیڈر شپ بہت سمجھ دار اور دور اندیش ہے۔ انہیں مصالحت کاری اور ثالثی کا لمبا تجربہ حاصل ہے وہ خطے میں تنائو کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ آج نہیں توکل اسرائیل اور ایران کے درمیان مصالحت کی کوشش کریں گے۔
ثالثی ایک صبر آزما کام ہے۔ مڈل ایسٹ کے آج کے حالات بہت پیچیدہ ہیں۔ مصر میں عرب سپرنگ کو سختی سے دبا دیا گیا‘ لیکن وہاں اندرونی حالات نارمل نہیں ہیں۔ عرب سپرنگ کے محرکات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ آج عرب دنیا بری طرح منقسم ہے۔ عرب لیگ اور خلیجی تعاون کونسل عملی طور پر مفلوج ہیں۔
1990ء میں جب پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کرائے تھے‘ تب صورتحال نسبتاً بہتر تھی۔ ایران عراق جنگ ختم ہوچکی تھی۔ میں اس وقت ریاض میں متعین تھا‘ مجھے یاد ہے ہمارے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان مرحوم نے ریاض اور تہران کے متعدد دورے کئے۔ ابتدائی ناکامیوں کے باوجود وہ پورے انہماک سے اس نیک کام میں لگے رہے۔ وہ فارسی جانتے تھے اور تھوڑی بہت عربی بھی‘ ان کی طویل کوشش بالآخر رنگ لائی۔
میرا اندازہ ہے کہ یمن میں ثالثی کا عمل زیادہ صبر آزما ہوگا۔ کیا سعودی عرب جنگ بندی اور اس کے بعد یمن کی تعمیر نو کے لمبے اور مہنگے عمل کے لئے تیار ہے؟ نئے یمن کے سیاسی نظام میں حوثی بھی اپنا حصہ مانگیں گے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ یمن مڈل ایسٹ کا افغانستان ہے‘ جب تک سعودی عرب اور ایران سو فیصد تعاون نہ کریں‘ یمن میں امن نہیں آئے گا۔ پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنا ہوم ورک آج سے شروع کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں