"JDC" (space) message & send to 7575

امن کے لئے شاندار اقدامات

پاکستان نے امن کی جنگ کا پہلا راؤنڈ جیت لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی 27 فروری کی تقریر ایک ماسٹر سٹروک تھا۔ اس تقریر میں وزیر اعظم نے تین باتیں بڑی وضاحت اور صراحت سے بیان کر دیں۔ اول یہ کہ ہم پلوامہ کے افسوس ناک واقعے کے بعد روز اوّل سے کہہ رہے تھے کہ ہم واقعے کی تحقیقات کے لئے تیار ہیں اور اگر اس حملے میں پاکستان کے کسی گروپ کا رول ثابت ہو گیا تو ہم اُسے سزا دیں گے۔ دوئم‘ ہم نے اپنی جنگی صلاحیت ثابت کر دی ہے‘ اس سے زیادہ بات بڑھانا نہیں چاہتے۔ سوئم‘ جنگ شروع کرنا آسان ہے مگر اسے ختم کرنا متحارب قوموں کے بس میں نہیں ہوتا اور جس قسم کے ہتھیار اب انڈیا اور پاکستان کے پاس ہیں ان ہتھیاروں کی وجہ سے اب امن لازمی ہو گیا ہے۔
27 فروری کے واقعات نے نریندر مودی کو خاصا پریشان کیا۔ کہا: ابھی تک تو پریکٹس کی ہے‘ اصل میچ ابھی ہونا ہے۔ یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہے۔ بالا کوٹ کے انڈین حملے اور کشمیر میں دو انڈین جہاز گرائے جانے کے بعد مجھے متعدد عربی چینلز نے تبصرے کے لئے بلایا۔ کچھ میں جا سکا اور چند ایک سے معذرت کرنا پڑی۔ مشکل یہ ہے کہ مڈل ایسٹ کا پرائم ٹائم ہمارے وقت کے مطابق رات گیارہ بجے شروع ہوتا ہے اور وہی میرا سونے کا وقت ہوتا ہے۔ میں نے مصر، سعودی عرب، ترکی کے عربی چینلز کے علاوہ بی بی سی کی عربی سروس پر پاکستان کی پوزیشن کا دفاع کیا‘ اور سوالوں کی ہیئت سے پتہ چلا کہ انڈیا کا پوری دنیا میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا بہت موثر ہے۔ یاد رہے کہ عرب میڈیا پر مغربی میڈیا کے اثرات گہرے ہیں۔ انڈیا ترقی یافتہ دنیا کو باور کرانے میں بڑی حد تک کامیاب ہے کہ انڈیا میں دہشت گردی کے سب بڑے واقعات میں پاکستان کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہر پاکستانی حکومت دہشت گرد تنظیموں پر دستِ شفقت رکھتی ہے؛ البتہ ترکی چینل کے سوالوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہاں پاکستان کی امن پسندی کو تحسین کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی چھ منٹ کی نپی تُلی تقریر نے انڈیا کے جارحانہ عزائم کے غبارے سے خاصی ہوا نکال دی۔ اس تقریر میں وزیراعظم ایک مدّبر سٹیٹس مین لگے۔ میر واعظ عمر فاروق اور محبوبہ مفتی نے پاکستان کے امن کے لئے اقدامات کی تعریف کی ہے۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی پاکستانی پیش کش کی داد بھی ہر امن پسند دے رہا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں بھی وزیراعظم کی تقریر موثر تھی۔ انڈین پائلٹ کو رہا کرنے کے فیصلے پر پورے ایوان نے ڈیسک بجا کر خراج تحسین پیش کیا۔ اپوزیشن کے قائد شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کی تقاریر بھی برمحل تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے امن کے لئے فیصلوں کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ انڈین وزیراعظم الیکشن میں کسی نہ کسی طرح کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پائلٹ ابھی نندن کی فوری رہائی بھارت کی طرف سے ڈلوائے گئے پریشر کا نتیجہ ہے۔
دو ایٹمی قوتوں کے مابین اس قدر ٹینشن کوئی معمولی بات نہیں۔ دنیا میں کئی مقامات پر سٹاک ایکسچینج پر منفی اثر پڑا؛ چنانچہ امریکہ‘ چین، سعودی عرب، ترکی اور عرب امارات نے اپنی سفارت کاری امن کے لئے متحرک کر دی۔ ا قوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہم ثالثی کے لئے تیار ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خاصے فعال نظر آئے۔
سوال یہ ہے کہ امن کیوں ضروری ہے۔ امن پاک و ہند کے عوام کی بہتری کے لئے لازمی ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں سے دونوں ممالک کا بے حد اقتصادی نقصان ہوا تھا۔ اگر یہ جنگیں نہ ہوتیں تو دونوں ممالک معاشی طور پر بہت آگے ہوتے۔ اور آج تو دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور ایٹمی ہتھیار انتہائی مہلک ہیں۔ 
بھارت میںعام خیال یہ ہے کہ انڈیا میں جنگ لڑنے کا دم خم (Stamina) پاکستان سے زیادہ ہے ‘ کیونکہ پاکستان کی معاشی حالت ٹھیک نہیں‘لیکن ایسی صورت حال میں بیرونی سرمایہ کار انڈیا سے بھی بھاگ جائے گا اور معاشی ترقی کی رفتاروہاں بھی خاصی سست پڑ جائے گی۔ انڈیا کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ کئی لحاظ سے پاکستان کی جنگی استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاک فوج پندرہ سال سے حالتِ جنگ میں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری فوج نے کامیابی سے لڑی ہے۔ ہمارے ہر سپاہی اور ہر افسر کو جنگ کا ذاتی اور اجتماعی تجربہ ہے۔ ان لوگوں کے دل و دماغ سے موت کا خوف نکل چکا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلی جنگوں میں پاک فضائیہ کے طیارے پٹھان کوٹ، جام نگر اور ہلواڑہ کے اڈوں پر حملے کر کے واپس آ جاتے تھے۔ دہلی شہر میں بلیک آؤٹ نہیں ہوتا تھا کیونکہ پاکستانی سیبر طیارے وہاں تک پرواز نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے پاس لمبی پرواز کے لئے تیل نہیں ہوتا تھا۔ آج پاکستانی میزائل کی رینج کلکتہ تک ہے۔ اللہ کرے کہ کلکتہ شہر ہمیشہ آباد رہے لیکن جنگی جنون میں گھری ہوئی بھارت قیادت کو سوچنا پڑے گا کہ بھارتی عوام کو تباہی سے بچانا بھی اس کا اولین فرض ہے۔ پاکستان کے صبر کا امتحان نہ ہی لیا جائے تو خطے کے لئے اچھا ہوگا۔
امریکی قیادت تو حالات خراب ہوتے ہی امن کے لئے متحرک ہو گئی تھی۔ امریکہ نے دونوں ممالک کو واضح پیغام دیا کہ ٹینشن کو کم کیا جائے۔ درجہ حرارت اس قدر بڑھنے نہ پائے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں اور پھر ویت نام سے صدر ٹرمپ کا بیان آیا کہ برصغیر میں حالات جلدی بہتری کی طرف آنے والے ہیں۔ روس کے صدر پوٹن بھی امن کے لئے خاصے متحرک ہو گئے ہیں۔ روس نے بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ ہم دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے لئے میزبان کا رول ادا کرنے کو تیار ہیں۔ امریکہ افغانستان سے جلد فراغت چاہتا ہے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں پاکستان کا رول اہم ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں امن ‘ بلکہ دیرپا امن آئے۔ 
انڈین میڈیا کا رول شروع میں بہت ہی منفی رہا۔ ایک انڈین چینل نے چار پانچ ریٹائرڈ جرنیل ڈسکشن کے لئے بلائے۔ یہاں تک تو بات درست تھی کیونکہ حالت جنگ میں تجربہ کار سابق فوجیوں کی رائے صائب ہوتی ہے لیکن حماقت یہ تھی کہ اینکر پرسن نے فوجی یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ کئی اینکرز کے منہ سے آگ نکل رہی تھی۔
27 فروری کو میں نے انٹرنیٹ پر انڈیا کا معتبر اخبار' دی ہندو‘ پڑھا تو وہاں بالا کوٹ کے حملے کو عجیب طریقے سے جائز قرار دیا گیا تھا۔ اخبار نے لکھا کہ آزاد کشمیر میں ایک تنظیم کے کئی ٹریننگ کیمپ ہیں۔ پلوامہ کے بعد پاکستان کو معلوم تھا کہ انڈیا یہ سارے کیمپ تباہ کر دے گا۔ لہٰذا ان سب لوگوں کو بالا کوٹ کے پاس ایک فائیو سٹار ہل ریزارٹ میں منتقل کیا گیا جو پہاڑ کی چوٹی پر گھنے جنگل میں واقع ہے۔ انڈین انٹیلی جنس کو لمحہ بہ لمحہ خبر مل رہی تھی لہٰذا 26 فروری کو علی الصبح انڈین جیٹ طیارے آئے اور نہ صرف ہل ریزارٹ کو مکمل طور پر تباہ کر گئے بلکہ تین سو سے زائد ''دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک بھی کر دیا۔ یہ سب فضول باتیں ہیں۔ سچ کو چھپانے کی بھونڈی کوشش۔ مقامی لوگ اور کیمرہ فوٹیج بتا رہی ہے کہ انڈین پائلٹ گھبراہٹ میں چند بم پھینک کر بھاگ گئے کہ فائٹر جیٹ ہلکا ہو تو بھاگنا آسان ہوتا ہے۔ اب انڈین میڈیا کے لوگ ا پنی فوجی اور سویلین قیادت سے مشکل سوال پوچھ رہے ہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو سے لے کر برکھا دت تک سب نے عمران خان کے امن اقدامات کی تعریف کی ہے۔ پاکستان نے اپنے اعمال اور اقدامات سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان نے امن کی جنگ کا پہلا راؤنڈ جیت لیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں