"JDC" (space) message & send to 7575

مڈل ایسٹ اور مغربی مہم جوئی

عہد حاضر میں مغربی طاقتوں اور عرب دنیا کا ڈائریکٹ تعلق واسطہ پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے مڈل ایسٹ کے متعدد ممالک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ برٹش ایمپائر نے لارنس آف عریبیا جیسے شاطر لوگوں کے ذریعے عربوں کو ترکی کے خلاف بھڑکایا۔ کرنل لارنس برٹش انٹیلی جنس کا افسر تھا جو اکثر عربی لباس بھی پہنتا اور عربی زبان بھی فرفر بولتا تھا۔ اُس کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ حجاز ریلوے پر زیادہ سے زیادہ تخریب کاری کرائے تاکہ ترکوں کی سپلائی لائن غیر مؤثر ہو کر رہ جائے۔ حجاز ریلوے دمشق سے براستہ اردن مدینہ منورہ جاتی تھی۔
کرنل لارنس نے اپنا کام کر دکھایا مگر یہ کام عرب قبائل کے تعاون کے بغیر ناممکن تھا۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کر سلطنتِ برطانیہ نے عربوں کو وفاداری کا کوئی اچھا صلہ دینے کی بجائے فوراً ہی اسرائیل کا بیج بو دیا۔ 1917ء میں برطانیہ کے فارن سیکرٹری مسٹر بیلفور (Balfour) نے مقامی یہودی تنظیم کے سربراہ کو مختصر سا خط لکھا جو ایک اہم تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس خط کا ایک حصہ ملاحظہ ہو ''برطانیہ کی شاہی حکومت اس امر کو اچھی نظر سے دیکھتی ہے کہ فلسطین میں یہودی لوگوں کا قومی گھر (یعنی ریاست) بنایا جائے۔ برطانوی حکومت اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے گی۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس اقدام سے فلسطین میں آباد غیر یہودی اقوام کے مذہبی اور سول حقوق متاثر نہیں ہوں گے‘‘۔
سول حقوق میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں بنیادی حق اپنے وطن میں باعزت زندگی گزارنے کا ہے۔ آج لاکھوں فلسطینی بیروت، دمشق اور عمان کے نواحی مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ان مہاجرین کی تیسری نسل خیمہ بستیوں میں جوان ہو رہی ہے۔ اسرائیل انہیں اپنے ہی وطن میں واپس آنے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ اس کے برعکس دنیا کے کسی کونے سے بھی یہودی اسرائیل شفٹ ہو کر مکمل حقوق کے ساتھ بطور اسرائیلی شہری رہ سکتے ہیں اور لاکھوں فلسطینی وہ بدقسمت لوگ ہیں کہ جن کا وطن بھی چھوٹ گیا اور غربت بھی راس نہ آئی۔ لبنان شام اور اردن نے فلسطینی مہاجرین کو عارضی سٹیٹس دیا ہوا ہے۔
اسرائیل کو معرض وجود میں آئے ہوئے ابھی آٹھ سال ہوئے تھے کہ دو مغربی ممالک یعنی برطانیہ اور فرانس نے مصر پر فضائی حملے کر دیئے۔ جی ہاں یہ واقعہ 1956ء کا ہے۔ مصر کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُس نے اپنے ہی ملک میں واقع ایک بڑی نہر کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت جمال عبدالناصر مصر کے صدر تھے اور وہ عرب نیشنلسٹ کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ سویز کینال کا بندوبست اس سے پہلے ایک برطانوی کمپنی کے پاس تھا۔ مصر پر فضائی بمباری میں اسرائیل بھی دونوں مغربی ممالک کے ساتھ شریک تھا۔ عرب اس واقعے کو عدوان ثلاثی یعنی تہری جارحیت کہتے ہیں۔ اس جارحیت کے خلاف پوری دنیا میں آوازیں اٹھیں‘ مظاہرے ہوئے۔ امریکہ نے بھی مذمت کی اور جارحیت رک گئی۔
1967 کی عرب اسرائیلی جنگ میں عربوں کو شکست فاش ہوئی۔ یہ جنگ عربوں نے 1948ء میں ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لئے لڑی تھی لیکن وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ شام کا ایک اہم علاقہ‘ یعنی جولان کی پہاڑیاں (Golan Heights)‘ ہاتھ سے نکل گیا۔ غزہ کی پٹی اور سینائی پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم اردن کے ہاتھ سے جاتے رہے۔ عربوں کے لئے اس جنگ کے نتائج ایک سانحے سے کم نہ تھے۔ 1967ء کی جنگ کا ایک اور منفی نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے اپنا وزن مکمل طور پر اور ہمیشہ کے لئے اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا۔ عربوں نے اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے 1973ء ایک اور جنگ لڑی۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ برابر رہی۔ اس جنگ کے دو سال بعد میری پوسٹنگ دمشق میں ہوئی۔ وہاں ایک مرتبہ ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر سے گفت گو ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ مصر اور شام مل کر بھی اسرائیل کو شکست نہیں دے سکے۔ جواب ملا کہ امریکہ نے اسرائیل تک اسلحہ کی سپلائی کے لئے ایک فضائی پُل بنا دیا تھا۔ یعنی بے شمار ہوائی جہاز اسرائیل کے لئے امریکی اسلحہ اور گولہ بارود لا رہے تھے جبکہ ہمارا اسلحہ محدود تھا۔
اور اب واپس چلتے ہیں 1948 کی جانب جب مشرق وسطیٰ میں مغربی مہم جوئی اسرائیل کی شکل میں نمودار ہوئی۔ 1948 میں اسرائیل کی سرحدیں متعین کرنے سے پہلے اقوام متحدہ نے فلسطین کے لئے اپنے پلان کا اعلان کیا۔ یہ دراصل دو ریاستی فارمولا تھا جس کے تحت فلسطین کا 43 فیصد ایریا فلسطینی ریاست کے لئے آفر کیا گیا جبکہ 56 فیصد علاقہ اسرائیل کے لئے مختص کیا گیا۔ یاد رہے کہ اُس وقت یہودیوں کی فلسطین میں آبادی مسلمان اور کرسچین آبادی سے خاصی کم تھی۔ یہودیوں کو زیادہ علاقہ دینے کی دو تاویلیں پیش کی گئیں۔ کہا یہ گیا کہ یہودیوں کے لئے مختص کئے گئے علاقے میں صحرا بھی ہے اور دوسرے‘ بہت سارے یہودیوں نے مستقبل میں ہجرت کر کے اسرائیل آنا ہے۔ عربوں نے اس پلان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جنگ شروع ہوئی۔ فلسطینیوں کی بستیاں تباہ کر دی گئیں۔ لاکھوں لوگ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ وہ وطن تھا جہاں وہ ہزاروں سال سے آباد تھے۔ ان کی جگہ روس‘ پولینڈ اور جرمنی وغیرہ سے لوگ آ کر اسرائیل کو آباد کرنے لگے۔ مقبوضہ علاقے میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر آج بھی جاری ہے۔ بچے کھچے فلسطینی اپنے ہی وطن میں اجنبی لگتے ہیں۔ 1948ء کے یو این پلان کے مطابق یروشلم پر انٹرنیشنل عملداری ہونا تھی۔ تینوں ادیان کا یہ مقدس شہر بھی آج اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔
2003 میں امریکہ نے ایٹمی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر عراق پر حملہ کیا۔ برطانیہ نے امریکہ کا مکمل ساتھ دیا۔ ایٹمی ہتھیار تو کہیں نہ ملے البتہ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کا ہدف پورا ہو گیا۔ 2005 میں جارج بش کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ وسیع تر مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ کے ممالک میں جمہوری نظام کی حامی ہے۔ یاد رہے کہ وسیع تر مڈل ایسٹ میں پاکستان اور افغانستان بھی شامل تھے۔ یہ دراصل عرب سپرنگ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔
عرب سپرنگ کے ظاہری مقاصد مثلاً جمہوریت‘ آزادیٔ رائے اور اقتصادی اصلاحات بہت اچھے لگتے تھے۔ لیکن مغربی اقوام کے درپردہ عزائم میں معمر قذافی اور بشار الاسد جیسے عرب حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا بھی شامل تھا۔ صدام حسین کا تخت 2003ء میں ہی الٹا جا چکا تھا‘معمر قذافی کو بعد میں قتل کیا گیا؛ البتہ بشار الاسد کا معاملہ مختلف نکلا۔ اُس کی حمایت کے لئے روس اور ایران آ گئے۔ مصر میں جمہوریت لاتے لاتے اخوان کی حکومت آ گئی۔ شام اور عراق میں اسلامک سٹیٹ والے آ گئے۔ تیل کی دولت سے مالا مال وسیع و عریض علاقہ بھی ان کے کنٹرول میں تھا۔ دراصل اسلامک سٹیٹ میں وہ عناصر بھی شامل تھے جو ایک زمانے میں بشار الاسد کے خلاف تھے اور امریکہ کے حمایت یافتہ تھے اور پھر چار سال تک امریکہ کو ان کے خلاف لڑنا پڑا۔ دراصل جمہوریت راتوں رات نہیں آ سکتی اور نہ ہی یہ زبردستی مڈل ایسٹ پر مسلط کی جا سکتی ہے۔ عسکری مداخلت سے حکومتیں بدلنے سے حکومتی رٹ کمزور ہو جاتی ہے اور نان سٹیٹ ایکٹرز کو نشوونما کے لئے آئیڈیل ماحول مل جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں یہی کچھ ہوا۔ شام‘ عراق اور لیبیا کی تباہی کا مگر سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ اس کا تفصیل سے ذکر پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں