"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ ایران تعلقات خطرناک موڑ پر

آپ کو یاد ہوگا کہ انقلاب سے پہلے ایران امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ امریکہ‘ ایران کو خلیج کا پولیس مین کہتا تھا اور یہ اختیار اس نے خود ایران کو تفویض کیا تھا۔ ایران کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے اور شاہ آف ایران کو خطے میں امریکی مفادات کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ اور پھر 1979ء میں یہ سب تبدیل ہو گیا۔
ایران میں انقلاب آیا تو شاہ نے علاج کی غرض سے امریکہ میں پناہ لی۔ ادھر تہران میں ایرانی طلبا نے امریکی سفارت خانے پر چڑھائی کر دی۔ پچاس سے زیادہ سفارت کار ایمبیسی میں محصور ہو کر رہ گئے۔ سفارت کار ایک سال سے زائد عرصہ یعنی چار سو چوالیس دن محصور رہے۔ ایرانی حکومت کا مطالبہ تھا کہ شاہ کو ان کے حوالے کیا جائے۔ امریکہ اس بات سے انکاری تھا۔ مگر خطرناک بیماری سے دوچار رضا شاہ پہلوی اب امریکہ پر بوجھ بن چکا تھا۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں ‘ والا معاملہ تھا۔ امریکہ نے کئی دوست ممالک سے رابطہ کیا کہ وہ شاہ ایران کو اپنی پناہ میں لے لیں لیکن مصر کے علاوہ کوئی ملک اس کام کے لئے تیار نہ تھا۔ تلک الایّام نداولھا بین النّاس والی آیتِ مبارکہ یاد آتی ہے کہ ہم لوگوں کے دن بدلتے رہتے ہیں۔ وہ شہنشاہ جسے غرور تھا کہ اس کے پہلوی خاندان نے ہزاروں سال ایران پر حکمرانی کی ہے‘ اُسے پوری دنیا میں سر چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔
پچھلے چالیس سال سے ایران اور امریکہ کے تعلقات ابتری کا شکار ہیں لیکن صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد صورت حال بہت خراب ہوئی ہے۔ وہ ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے سے منحرف ہوئے‘ پھر امریکہ کا سفارت خانہ تل ابیب سے القدس الشریف منتقل ہو گیا۔ انقلاب کے بعد ایران نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے تھے۔ اب وہ فلسطین اور فلسطین کے دل یعنی القدس الشریف کی اسرائیل سے آزادی کا بہت بڑا داعی ہے‘ جبکہ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے‘ لہٰذا ایران نے کبھی مرگ بر امریکہ کے نعرے لگائے تو کبھی امریکہ کو ''شیطان بزرگ‘‘ کہا۔ ادھر صدر جارج بش نے ایران کو Axis of evil یعنی شر کے محور میں شامل کیا۔ اس محور میں دوسرے ممالک شمالی کوریا اور عراق تھے۔ ایک لمبے عرصے سے ایران امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے۔ ایران ایک عرصے سے اپنا ایٹمی پروگرام چلا رہا تھا‘ لیکن ماہرین کا اندازہ تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار کئی سال تک نہیں بنا سکے گا۔ دوسری جانب ایران کا کہنا تھا کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ صدر اوباما اور کئی اور عالمی لیول کے لیڈروں کا خیال تھا کہ ایران اگر انٹرنیشنل مین سٹریم میں آ جائے تو خطے میں استحکام آ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی طاقتوں کو یہ خطرہ بھی لاحق رہتا تھا کہ ناراض ایران نے اگر آبنائے ہرمز محدود عرصے کے لئے بھی بند کر دی تو تیل کی قیمت بہت بڑھ جائیں گی؛ چنانچہ بیس ماہ کے لمبے مذاکرات کے بعد 2015ء میں ایران اور چھ ممالک کے مابین معاہدہ ہوا۔ ان چھ ممالک میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی شامل تھے۔
اس معاہدے کے مطابق ؛ایران کی یورینیم افزودگی کی شرح 98 فیصدکم کر دی گئی۔ سینٹری فیوج جو کسی بھی ایٹمی پروگرام کے کلیدی پارٹ ہوتے ہیں دو ہزار سے کم کر کے چھ سو کر دیئے گئے۔ بھاری پانی اور پلوٹونیم کے نیو کلیئر سٹیشن پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ایران کے لئے لازمی کر دیا گیا کہ وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے انسپکٹرز کو اپنے پروگرام کے تمام حصے دکھائے۔ اس طرح ایران کے ایٹمی پروگرام کے پَر بہت حد تک کاٹ دیئے گئے لیکن اسرائیل اب بھی خوش نہیں تھا کیونکہ اس معاہدے کی میعاد پندرہ سال تھی۔ اسرائیل اور صدر ٹرمپ نہیں چاہتے تھے کہ مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں پر اسرائیل کی اجارہ داری کبھی ختم ہو؛ چنانچہ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے سے منحرف ہو گئے۔ یورپی ممالک نے اس بات کو سخت ناپسند کیا۔ یہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی بڑی کامیابی تھی لیکن گولان کی پہاڑیوں کے مقبوضہ علاقے کو اسرائیل کا حصہ ماننے کا ٹرمپ کا فیصلہ تو ایک دنیا کو حیران کر گیا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں اس علاقے پر قبضہ کیا اور پھر 1981ء میں اعلان کیا کہ گولان کی پہاڑیاں اب ہمارے ملک کا حصہ شمار کی جائیں گی۔ اس کے بعد ہر اسرائیلی حکومت نے امریکہ سے کہا کہ وہ اس کے فیصلے کی تائید کرے‘ لیکن ہر امریکی حکومت نے اس غیر قانونی قدم کی تائید سے انکار کیا۔
اب اس قبیح جرم کی تائید صدر ٹرمپ کے حصے میں آئی ہے عام خیال یہ ہے کہ فیصلے کی ٹائمنگ بہت اہم تھی کہ اسرائیلی الیکشن ہونے والے تھے۔ صدر ٹرمپ کے اس اعلان کا یقینا اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو بہت فائدہ ہوا ہے اور وہ پانچویں مرتبہ منتخب ہو گئے ہیں۔ اب موصوف فرماتے ہیں کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر بنی ہوئی یہودی بستیاں بھی اسرائیل کا حصہ ہے۔ اس الیکشن کے نتائج اسرائیلی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کو مزید فروغ دیں گے اور امریکہ ایران کے تعلقات میں بہتری کے امکانات اور کم ہو جائیں گے۔ لیکن ایرانی پاسداران کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے امریکی فیصلے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ پاسداران ایک پیراملٹری فورس ہے جو انقلاب کے بعد وجود میں آئی تھی۔ مڈل ایسٹ کے ممالک میں دو متوازی فوجیں رکھنے کی روایت رہی ہے۔ عراق کی پیراملٹری فورس کو صدارتی گارڈز کہا جاتا تھا۔ شام میں اس فورس کا نام سرایا الدفاع تھا۔ ایرانی پاسداران انقلاب میں فوجیوں کی کل تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ماضی قریب میں پاسداران نے شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے دفاع میں فعال کردار ادا کیا ہے۔
پاسداران کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا بھی اپنی نوع کا پہلا فیصلہ ہے‘ اس لئے کہ پاسداران ایرانی حکومت کے احکام کے تحت کام کرنے والی عسکری تنظیم ہے۔ اس سے پہلے کسی حکومتی فوج کو اس لقب سے نہیں نوازا گیا اب یہ ایک خطرناک نظیر بنے گی۔ پوری کی پوری ڈیڑھ لاکھ فوجی بمع افسران یکدم دہشت گرد قرار دے دی گئی‘ یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔یہ فیصلہ بھی اسرائیل کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ نو اپریل کو ہونے والے اسرائیلی انتخابات سے دو تین روز پہلے ہی یہ اعلان کیا گیا تھا۔ پاسداران نے ایرانی معیشت میں کئی طرح کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اب ان پر امریکی اقتصادی پابندیاں لگیں گی۔ اسرائیل کو یہ بھی ڈر تھا کہ غزہ میں حماس‘ لبنان میں حزب اللہ اور گولان کے پاس ایرانی پاسداران تینوں مل کر اُس کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا ہے لہٰذا اسرائیل کے تحفظ کے لئے ضروری تھا کہ اس مثلث کو کمزور کیا جائے۔ پاسداران کی خیراتی سرگرمیاں بھی خاصی وسیع ہیں اس کی ایک شاخ بسیج( Basij) غریب ایرانی نوجوانوں کو ووکیشنل تعلیم مفت دیتی ہے ۔امریکہ کے اس غلط فیصلے کا اثر پوری ایرانی سوسائٹی پر ہوگا۔ بعض مبصرین تو یہ کہتے ہیں کہ اگلے سال کے امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے ایران پر حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ مودی‘ ٹرمپ اور نیتن یاہو میں بہت سی اقدار مشترک ہیں۔
چالیس سال سے ایران اور امریکہ کے تعلقات ابتری کا شکار ہیں لیکن صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد صورت حال بہت خراب ہوئی ہے۔ وہ ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے سے منحرف ہوئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں