"JDC" (space) message & send to 7575

سمندر کی وسعت

 

پچھلے دنوں بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر شی نے کہا کہ سمندر اس لئے وسیع ہوتا ہے کہ وہ کسی دریا کا پانی قبول کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ بڑی خوب صورت بات ہے۔ ندی نالے اور چھوٹے دریا بڑے دریا میں گرتے ہیں اور بڑا دریا سمندر میں اتر جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی اکائیاں مل کر ایک بڑی اکائی کو جنم دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں محاورہ ہے کہ ایک ایک ہوتا ہے اور دو گیارہ۔ صدر شی کا واضح اشارہ تھا کہ باہمی تعاون اور تجارت کا فروغ قوموں کو خوش حال بناتے ہیں۔
اسلام کے پھیلاؤ میں اسی سوچ کا عکس نظر آتا ہے۔ مسلمان تاجر جزیرہ نمائے عرب سے بحری جہازوں میں سامان لے کر نکلتے تھے تو انڈونیشیا اور چین تک جاتے تھے۔ معروف صحابی حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ تین مرتبہ چین گئے اور وہیں مدفون ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اخلاق اور حُسنِ سلوک سے اسلام پھیلایا۔ چین میں اسلام خلیفہ سوئم حضرت عثمان بن عفانؓ کے عہد میں پہنچا۔ یہ وہ لوگ تھے جو دوسری اقوام سے رشتے استوار کرنے کا سوچتے تھے‘ توڑنے کا نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی دنیا میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ پیدا کئے ہیں۔ یہ لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ دنیا کی اقوام مختلف افکار کی حامل ہیں۔ خالق کائنات نے اسی تنوع کو سورۃ الروم میں اپنی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے متنوع ہونے پر فخر ہے تو پھر ہمارے ہاں کی دوسری برادری اور دوسرے قبیلے کو کم تر سمجھنے کی روایت باطل ہے کیونکہ اللہ کی نظر میں رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی ایک قبیلے یا برادری کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں۔ انسانیت ایک سمندر ہے اور قومیں وہ دریا ہیں جو اسی سمندر میں گرتی ہیں اور اسے وسعت دیتی ہیں۔
تاریخ انسانی میں بڑی بڑی ایجادات ہمارا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ تاریخ میں سب سے پہلے زبان کو تحریری شکل جنوبی عراق میں ملی اور یہ پانچ ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ کاغذ کی دریافت کا دعویٰ چینی اور مصری دونوں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں کی بات میں صداقت ہو۔ پرنٹنگ پریس پندرہویں صدی میں جرمنی میں ایجاد ہوا اور اُس کے نتیجہ میں اخبار چھپنے لگے یعنی میڈیا نے جنم لیا۔ انیسویں صدی میں پہلا برقی تار یعنی ٹیلی گرام بھیجا گیا۔ وجہء دریافت تجارت تھی کہ مانچسٹر کے روئی کے تاجر جاننا چاہتے تھے کہ انڈیا میں روئی کی تازہ ترین قیمت کیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ ایجادات پر کسی قوم کی اجارہ داری ہے اور نہ عقل پر۔ یہ ساری ایجادات انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہیں اور ان سے ہم سب مستفید ہوئے ہیں۔ مشہور عالم طب بو علی سینا کی مثال یاد آ رہی ہے۔ وہ روشنی کا ایسا بلند و بالا مینار ہے کہ جس نے ایک عالم کو منور کیا اور صدیوں تک یورپ کے طبیب ان کی کتابوں سے فیض حاصل کرتے رہے۔ بو علی سینا کی پیدائش آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے بخارا کے قریب ایک گاؤں میں ہوئی۔ وہ غریب والدین کا بیٹا تھا لیکن اپنی محنت سے اوجِ ثریا تک پہنچا۔ ایرانی اُسے اپنا سپوت کہتے ہیں کہ اُس دور میں بخارا سلطنت فارس کا حصہ تھا۔ عرب بو علی سینا کی پانچ جلدوں پر مشتمل کتاب القانون فی طب پر فخر کرتے ہیں کہ یہ عربی میں لکھی گئی اور عربوں کے ذریعے سپین پہنچی۔ دس لاکھ حروف پر مشتمل اس کتاب کا سپین میں لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا اور پھر یہ چھ صدیوں تک یورپ میں ٹیکسٹ بک کے طور پر استعمال ہوئی۔ 1973 میں اس کتاب کو نیو یارک میں پھر سے لاطینی زبان میں پرنٹ کیا گیا۔ یو این نے 1980 کو بو علی سینا کے سال کے طور پر منایا اور اسے بجا طور سے Universal Scientist یعنی عالمی سائنس دان کا خطاب دیا۔ جب علم ایک قوم سے دوسری اقوام تک منتقل ہوتا ہے تو سب اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ تو بو علی سینا، نیوٹن اور مادام کیوری انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہیں یہ ساری انسانیت کے ہیرو ہیں۔
پچھلے دنوں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک سیمینار ہوا۔ یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف درویش مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار کا موضوع تھا ''کثیراللسانی دنیا میں کلچرل مفاہمت کا فروغ‘‘۔ اس تقریب کے میزبان ڈاکٹر انعام الحق غازی صدر شعبہ ترجمہ اور نوری ترجمانی تھے۔ ڈاکٹر صاحب بہت متحرک شخص ہیں اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کو بھی متحرک رکھتے ہیں۔ سیمینار میں دو سپیکر تھے ایک جرمن سفارت خانے کے ایجوکیشن آفس کی ہیڈ مسز اِنگا اقبال اور دوسرا راقم الحروف۔ میں نے اپنے ایڈریس میںکہا کہ قوموں کا باہمی تعامل یعنی انٹرایکشن اکثر مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس سے اقوام میں مفاہمت بڑھتی ہے۔ تجارت اور تعلیم سے خوشحالی آتی ہے۔ سلطنت پیریڈ میں جب دہلی میں افغان، ترک، ایرانی اور انڈین فوجی سپاہی ایک فوج کا حصہ بنے تو ایک نئی زبان نے جنم لیا جو آج پاکستان کی قومی زبان ہے۔
چونکہ ہماری دنیا میں مختلف زبانیں بولی لکھی اور پڑھی جاتی ہیں لہٰذا ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ترجمے سے نئے افکار کی ترویج ہوتی ہے۔ ہم تک میکسم گورکی اور ٹالسٹائی کے افکار اردو تراجم کے ذریعہ آئے۔ اسلام، مسیحیت اور دیگر ادیان کی ترویج میں تراجم کا بڑا رول ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ ترجمہ ہونے والی کتاب بائیبل ہے۔ یورپ میں برپا ہونے والی تحریک احیائے علوم میں بغداد کے دارالحکمۃ کا بڑا حصہ تھا کہ یہیں سے علم کے خزانے سپین منتقل ہوئے۔ مسز اِنگا اقبال اردو جانتی ہیں۔ ان کے شوہر پاکستانی ہیں۔ وہ جرمنی اور پاکستان کے مابین تعلیمی روابط کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جرمنی کی سرکاری جامعات میں تعلیم مفت ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
مستقبل قریب میں پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے تجارت بڑھے گی۔ فری زون بنیں گے۔ پاکستان انٹرنیشنل تجارت کا کوریڈور بنے گا۔ پاکستانی نوجوانوں میں چینی زبان سیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ مختلف رنگ نسل کے لوگ تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے آئیں گے ٹور ازم کو فروغ ملے گا۔ اس سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان اور شمالی علاقوں کو ہو گا لیکن آہستہ آہستہ یہ خوشحالی سارے ملک میں پھیلے گی۔
تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جو ملک بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور جو قومیں تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگوں کو اپنا ویزہ اور شہریت آسانی سے دیتی ہیں‘ وہ ترقی کرتی ہیں۔ چین کی ترقی میں اس کے اپنے بیرون ملک بسنے والے شہریوں کی سرمایہ کاری کا بڑا ہاتھ ہے۔ امریکہ کے ایسٹ کوسٹ اور مغربی ساحل پر نظر دوڑائیے۔ نیو یارک، میری لینڈ‘ ورجینیا اور کیلی فورنیا میں فی کس آمدنی خاصی زیادہ ہے کیونکہ دونوں ساحلوں پر باہر سے آئے ہوئے لوگ خاصی تعداد میں آباد ہیں اور انہیں مکمل شہری حقوق بھی حاصل ہیں۔ 
گھر کے سارے دروازے اورکھڑکیاں بند کر دیں تو حبس ہو جاتا ہے۔ ملک کے تمام لسانی گروپ اور اقلیتیں ترقی کے لئے تب کام کرتی ہیں جب انہیں سیاسی اور اقتصادی تحفظ حاصل ہو‘ انصاف ملے اور جب یہ دریا پورا پانی لے کر سمندر میں گرتے ہیں تو سمندر کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مستقبل قریب میں پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے تجارت بڑھے گی۔ فری زون بنیں گے۔ پاکستان انٹرنیشنل تجارت کا کوریڈور بنے گا۔ پاکستانی نوجوانوں میں چینی زبان سیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ مختلف رنگ نسل کے لوگ تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے آئیں گے ٹور ازم کو فروغ ملے گا۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں