"JDC" (space) message & send to 7575

میاں صاحب کی جیل واپسی

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عدالتِ عالیہ نے طبی بنیادوں پر چھ ہفتے کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا مناسب علاج کرا سکیں۔ جب ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست دی گئی تو سپریم کورٹ نے اسے ریجیکٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو آپ کو یہ رعایت علاج کے لئے دی تھی مگر آپ نے چند ٹیسٹ کرانے میں چھ ہفتے لگا دیئے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے عوام کو اچھا تاثر ملا ہے ورنہ وہ سمجھنے لگے تھے کہ اس ملک میں دو قوانین ہیں ایک امیر کے لئے اور ایک غریب کے لئے۔ اب یہ تاثر خاص حد تک زائل ہو گیا ہے۔
میاں صاحب کو ان کے سپورٹرز نے یکم رمضان کو ایک جلوس کی شکل میں جاتی عمرہ سے کوٹ لکھپت جیل روانہ کیا۔ جلوس محدود تعداد میں تھا اچھا ہوا کہ کوئی لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ میاں صاحب اور مریم بی بی نے راستے میں کوئی تقریر نہیں کی۔ چار گھنٹے کے سفر کے بعد یہ قافلہ تقریباً نصف شب کو کوٹ لکھپت کے زندان خانے پہنچا۔ حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ متعدد امراض میں گرفتار میاں صاحب چار گھنٹے ہشاش بشاش رہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے امراض اتنے خطرناک نہیں جتنا کہ بتائے جاتے ہیں۔
اس واقعے کے ایک روز بعد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک ٹی وی چینل پر کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب اپنے بیانیے پر قائم ہیں ان کے ووٹرز ان کے بیانیے کی مکمل حمایت کرتے ہیں جب اُن سے پوچھا گیا کہ نون لیگ کا بیانیہ ہے کیا تو جواب ملا کہ آئین و قانون کی بالادستی۔ ساتھ ہی موصوف نے فرمایا کہ نواز لیگ نے ووٹر نے عدالت عالیہ کا فیصلہ قبول نہیں کیا۔ کتنا بڑا تضاد ہے اس بیان میں اعلیٰ عدلیہ آئین کے مطابق ہی تشکیل پاتی ہے۔ اس میں تجربہ کار اور لائق جج موجود ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے چند لوگوں کو حالیہ فیصلے سے پانامہ لیکس کے جولائی 2017 کے فیصلے سے اختلاف ہے تو یہ ان کا مسئلہ ہے یہ قومی ایشو نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اپنے فیصلے لکھنے سے پہلے سیاسی ورکرز سے مشاورت کرے۔ اس قسم کی باتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ہم ابھی سیاسی بلوغت سے بہت دور ہیں۔
مجھے سن 2000کے امریکی الیکشن یاد آ رہے ہیں۔ جارج بش ری پبلکن پارٹی کے امیدوار تھے اور ال گور Al Gore ڈیمو کریٹک پارٹی کے۔ دونوں میں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ فلوریڈا کی ریاست میں دو بار ووٹوں کی گنتی ہوئی۔ نتائج واضح نہیں تھے۔ معاملہ امریکہ کی سپریم کورٹ تک گیا۔ عام خیال یہ تھا کہ ال گور کا کیس مضبوط ہے لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ جورج بش کے حق میں آیا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی نے یہ فیصلہ خوش دلی سے قبول کیا نہ کوئی احتجاج ہوا نہ کوئی جلوس نکلا۔ یہ امریکی عوام کی سیاسی بلوغت کی نشانی تھی۔
جب شاہد خاقان عباسی یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے ووٹر نے عدالتی فیصلہ قبول نہیں کیا تو اس قسم کے متنازعہ فیصلے پاکستان میں اور دیگر ممالک میں آتے رہتے ہیں مگر بالآخر اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے کیونکہ عدلیہ اپنے فیصلے شواہد کی روشنی میں سوچ سمجھ کر دیتی ہے۔
مسلم لیگ کا دوسرا نعرہ ہے ووٹ کو عزت دو۔ تو جناب ووٹ تو تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کو آپ سے زیادہ پڑے ہیں انہیں بھی عزت ملنی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ووٹر آپ کو ووٹ دیکر تین مرتبہ اقتدار میں لایا لیکن اس کے ووٹ میں کرپشن کرنے کی اجازت شامل نہیں ہے۔ احتساب جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ امریکہ کے کئی صدر احتساب کے عمل سے گزرے ہیں۔ منتخب شدہ لیڈر مادر پدر آزاد نہیں ہوتا۔
کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ کی مزاحمتی پالیسی نے پارٹی کو تازہ روح بخشی ہے نیا حوصلہ مسلم لیگ میں مزاحمت کی روایت ہمیں دور دورتک نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر خان صاحب کا دور ہو تو یہ راتوں رات ری پبلکن پارٹی بن جاتی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان آتے ہیں تہ یۃ کنونشن لیگ کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ جنرل مشرف اقتدار سنبھالتے ہیں تو یہی پارٹی بے شمار فصلی بٹیروں سے محروم ہو جاتی ہے۔
نہ مسلم لیگ مزاحمتی پارٹی ہے اور نہ ہی میاں صاحب نیلسن منڈیلا ہیں۔ میاں صاحب کے تیسرے عہد اقتدار میں ان کی گورنمنٹ کو ٹھیکیدار فرینڈلی حکومت کہا گیا۔ قبضہ مافیا کو ہر بڑے شہر میں کھلی چھٹی تھی۔ اسلام آباد میں چند ماہ پہلے کشمیر ہائی وے پر درجنوں غیر قانونی شادی گھر اور ریسٹورنٹ گرائے گئے کہا جاتا ہے کہ ان میں سے اکثر مسلم لیگ (نون) کے سپورٹرز کے تھے۔ یہ پارٹی دراصل مفاد پرستوں کا ٹولہ بن گئی تھی۔ دوسری کولیشن جماعتوں میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بھی اقتدار میں شریک رہی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس اس پارٹی کی محبوب وزارت رہی میں نے ایک دفعہ ایک سینئر انجینئر سے اس کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں پاک پی ڈبلیو ڈی اسی وزارت کا حصّہ ہے۔ اکرم درانی کو یہ وزارت ملی تو فیڈرل ہاؤسنگ فاؤنڈیشن میں ان کے ضلع کے لوگ ہر سیٹ پر نظر آنے لگے یہی وہ ادارہ ہے جس کے پاس اسلام آباد کے دو عدد سیکٹروں کا مکمل کنٹرول تھا۔ میاں صاحب کے عدد میں ان سیکٹرز کا جو حشر ہوا اُس سے یہاں رہنے والے خوب واقف ہیں باقی اسلام آباد کے ساتھ میاں صاحب کے لائے ہوئے میئر نے جو ''حُسن سلوک‘‘ کیا وہ بھی سب پر عیاں ہے۔
میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں بھی خاصے کنفیوزڈ نظر آئے۔ ڈان لیکس کے معاملے کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ اب انہیں احساس ہوا ہے کہ اُس واقعے کے فوراً بعد جن لوگوںکو قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا وہ بھی غلط تھا۔ اس طرح سے عدلیہ کے لئے بھی میاں صاحب کی سوچ بھی خلط ملط ہے۔ اگر عدلیہ آزاد فیصلے کرنے لگتی ہے تو ان کی پارٹی سپریم کورٹ پر دھاوا بولتی ہے اور اگر مخالف پارٹی کا کیس چل رہا ہو تو میاں صاحب پورے جوش و خروش سے کالا کوٹ پہن کر عدالت چلے جاتے ہیں جیسا کہ ہم نے میمو گیٹ کیس میں دیکھا۔
پانامہ لیکس کے فیصلے کے بعد میاں صاحب نے بیان دیا کہ وہ نظریاتی ہو گئے ہیں اور یہ بذات خود لطیفہ تھا۔ تین سال پہلے جب چند فوجی افسروں نے طیب اردوان کے خلاف بغاوت کی تھی تو استنابول میں عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سزا ہوئی تو کئی جیالوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ نہ طیب ارزدوان نے لندن میں جائیدادیں بنائی تھیں اور نہ ذوالفقار علی بھٹو نے۔ میاں صاحب کے حق میں ہلکے پھلکے احتجاج ہوئے اور بس اس لئے کہ میاں صاحب پارٹ ٹائم نظریاتی ہیں یعنی ان کی مزاحمت نظریہء ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں صاحب کے دور میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے بجلی کا بحران بڑی حد تک ختم ہوا۔ موٹرویز پر بہت کام ہوا لیکن عوام کو وہ نہ اچھے ہسپتال دے سکے اور نہ سکول۔ عوام سے ان کا رابطہ برائے نام تھا۔ میں نے خود پارٹی کے سینئر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد کسی ایم این اے یا سینیٹر کو بھی میاں صاحب سے ملنے نہیں دیتے۔
میاں صاحب میں پنجابیت ضرور سے زائد ہے اور پاکستانیت قدرے کم۔ میں ان کی پاکستان سے محبت کو چیلنج نہیں کر رہا۔ لیکن کلچرل اعتبار سے عمران خان اور بلاول بھٹو چھوٹے صوبوں کوزیادہ قابل قبول ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک جا کر میاں صاحب فارنرز سے بات چیت میں زیادہ کمفرٹیبل نظر نہیں آتے تھے۔ اس لحاظ سے میاں شہباز شریف اُن سے بہتر ہیں۔
میاں صاحب کو اب خوش دلی سے تسلیم کر لینا چاہئے کہ انہیں سزا ہو چکی ہے اور وہ ملزم سے مجرم بن چکے ہیں۔ جیل میں یا اس سے باہر اُن سے امتیازی سلوک کئی ناخوشگوار سوال اٹھائے گا۔ زندگی کے حقائق کو مان لیا جائے تو کافی آسانیاں ہو جاتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں