"JDC" (space) message & send to 7575

عجب آزاد مرد تھا

پچھلے ہفتے پاکستان ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو گیا۔ میں یہ بات رسماً نہیں کہہ رہا کہ ہمارے ہاں وفات کے بعد اکثر لوگ سپاس کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ جناب عبدالستار کوئی عام شخص تھے اور نہ ہی عام سفارت کار۔ دو مرتبہ وزیر خارجہ بنے۔ اس سے پہلے سیکرٹری خارجہ رہے۔ دو مرتبہ انڈیا میں ہائی کمشنر رہے۔ 
1931 میں نارووال کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والا یہ شخص فقط اپنی بلا کی ذہانت اور محنت کی وجہ سے بلند ترین عہدوں تک پہنچا۔ وہ سیلف میڈ انسان تھے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس قبیل کے لوگ اعلیٰ عہدوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور کئی ایک اپنے رشتہ داروں سے ملنے سے کتراتے ہیں۔ ستار صاحب کی طبیعت میں درویشی تھی۔ وہ تکبر سے میلوں دور تھے۔ میں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ سرکاری پیسے کے استعمال میں بہت محتاط تھے۔ ایمانداری کے رول ماڈل تھے اور امور خارجہ کی ایک ایک پیچیدگی سے خوب واقف۔ پاکستان سے ان کی محبت فراواں تھی۔ انداز فکر سے عقلانیت Rationality چھلکتی تھی۔ جذباتیت سے کوسوں دور تھے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے خاصے مضطرب نظر آتے تھے۔
ستار صاحب نے ایف سی کالج لاہور میں تعلیم پائی۔ پنجاب یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم اے کیا اور 1953 میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے فارن سروس جوائن کی۔ فارن سروس اس زمانے میں نمبر ون سروس تصور کی جاتی تھی۔ ان کی پہلی پوسٹنگ امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں بطور وائس قونصل Vice Consul ہوئی۔ ایک پاکستانی نژاد امریکن وہاں قونصل جنرل تھے۔ ستار صاحب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ بڑے صاحب خاصے گھپلے کر کے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ ستار صاحب جیسے ایماندار شخص کے لئے یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی۔ فوراً فارن سیکرٹری کو خط لکھ کر تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ کراچی سے انکوائری افسر بھیجا گیا۔ ستار صاحب کی باتیں سو فیصد درست ثابت ہوئیں۔ قونصل جنرل کو اپنی جاب چھوڑنا پڑی۔ ستار صاحب نے اپنی سروس کا آغاز ہی بے مثال دیانت داری اور جرأت مندی سے کیا تھا۔ ایک جونیئر افسر کا اپنے باس پر کرپشن کا تحریری الزام لگانا کوئی عام بات نہیں۔ یہ کام کوئی دل گردے والا امین شخص ہی کر سکتا ہے۔
انہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو کیلی فورنیا میں زیر تعلیم تھے۔ بھٹو صاحب اور ستار صاحب کی شناسائی انہیں ایام میں ہوئی تھی۔ بھٹو صاحب ان سے خاصے متاثر ہوئے اور ایک روز بیگم ستار سے کہنے لگے کہ آپ کا میاں ایک دن فارن سیکرٹری ضرور بنے گا۔ اس گوہر نایاب کی چمک نہ صرف بھٹو صاحب کو نظر آئی بلکہ آغا شاہی صاحب نے بھی ان کی غیر معمولی اہلیت کو پہچانا اور انہیں اپنی ٹیم میں شامل کیا۔
ستار صاحب سے میری پہلی ملاقات 1973 میں ہوئی تھی۔ لاہور کی سول سروس اکیڈیمی میں ایک سال کی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد آئے تو ہر زیرِ تربیت افسر کو ایک ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ اٹیچ کیا گیا تاکہ ہمیں منسٹری کے کام کا علم ہو جائے اور ہم اپنے سینئر سے کچھ سیکھ بھی سکیں۔ ستار صاحب ان دنوں ڈی جی ساؤتھ ایشیا تھے۔ مجھے ان کے ساتھ لگایا گیا۔ میری ڈیوٹی ستار صاحب نے یہ لگائی کہ انڈیا کے بارے میں تمام اہم خبروں مضامین اور کالمز کی سمری ہر روز تیار کر کے انہیں دکھاؤں۔ وہ خود اس قدر مصروف تھے کہ ہر اخبار اور ہر خبر پڑھنے کا وقت ان کے پاس نہیں تھا۔ ایک روز ایک مغربی جرنلسٹ ستار صاحب کا انٹرویو کرنے آئیں۔ مجھے کہنے لگے کہ تم انٹرویو میں ساتھ بیٹھو گے اور نوٹس لئے بغیر منٹس بناؤ گے۔ یہ اس بات کی ٹریننگ تھی کہ اچھے سفارت کار کو ہر اہم بات غور سے سن کر اپنے ذہن میں محفوظ کر لینی چاہئے۔ انٹرویو میں مجھے آج تک یاد ہے کہ اکثر سوالات پاکستانی جنگی قیدیوں کے بارے میں تھے۔ شملہ معاہدہ کی تیاری میں ستار صاحب کا کلیدی رول رہا۔ وہ بلا کے محنتی اور معاملہ فہم تھے۔ ان جیسے بھارت شناس لوگ پاکستان میں کم ہیں۔ ہر وقت کام کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ انہیں 1986 میں دل کا عارضہ لاحق ہوا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ ٹینس کھیلنا بند کر دیں اور صرف واک پر اکتفا کریں۔ ستار صاحب ان دنوں فارن سیکرٹری تھے۔
1991 کی بات ہے‘ انڈیا کے وزیر اعظم راجیو گاندھی قتل ہوئے تو پاکستان سے وزیر اعظم نواز شریف آخری رسومات کے لئے نئی دہلی گئے۔ ستار صاحب ان دنوں وہاں سفیر تھے اور ان کے پاس سرکاری گاڑی وولوو Volvo تھی۔ نواز شریف نے گاڑی دیکھتے ہی کہا کہ سفیر صاحب یہ کار آپ کے شایان شان نہیں آپ کے پاس مرسیڈیز ہونی چاہئے۔ ستار صاحب کا جواب تھا: سر میرا گزارہ اسی کار سے بہت اچھا ہو رہا ہے۔ کوئی اور سفیر ہوتا تو فوراً نئی مرسیڈیز خرید لیتا لیکن ستار صاحب کی سوچ تھی کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے سفارت کاروں کو کفایت شعاری سے کام لینا چاہئے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں وزیر خارجہ بنے تو تمام پاکستانی سفرا کو کہا کہ وہ مرسیڈیز کی بجائے کوئی سستی کار استعمال کریں۔ ستار صاحب اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سفیر کی شان بڑی کار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے کام سے ہوتی ہے۔
1993 کا واقعہ ہے‘ میں نیشنل ڈیفنس کالج میں کورس کر رہا تھا اور میرا ریسرچ پیپر انڈیا کے بارے میں تھا۔ ستار صاحب دوسری مرتبہ سفارت کر کے انڈیا سے آ چکے تھے۔ میں نے فون کیا کہ آپ کا اپنی ریسرچ کے حوالے سے انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے گھر بلایا اور ہم ایک گھنٹے سے زیادہ انڈیا کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ موسم اچھا تھا۔ ہم گھر کے پچھلے لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دوران انٹرویو چائے کی ٹرے خود اٹھا کر لائے۔ میں انڈیا کے بارے میں ان کی معلومات سے بہت متاثر ہوا۔ رخصت چاہی تو گویا ہوئے کہ انڈیا کے بارے میں ڈی جی ساؤتھ ایشیا شفقت کاکاخیل سے بھی بات کر لینا‘ وہ انڈیا میں کئی اہم لوگوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں کیونکہ وہ وہاں رہے بھی ہیں۔ میں اس عظیم شخص کی علمی انکساری سے بہت متاثر ہوا۔ انڈیا کے بارے میں اتنا زیادہ جاننے والا‘ دو مرتبہ وہاں سفیر رہنے والا یہ کہہ رہا تھا کہ میں اس موضوع پر عقلِ کل نہیں ہوں۔
ستار صاحب 1980 کی دہائی تک سویلین برتری پر مکمل نہیں رکھتے تھے۔ وہ حساس معلومات سب سے پہلے وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے شیئر کرتے۔ جنرل ضیا الحق اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتے تھے۔ افغان امن کے بارے میں بھی وزیر اعظم جونیجو اور ستار صاحب کے خیالات ملتے جلتے تھے۔ یہ دونوں چاہتے تھے کہ جنیوا معاہدے پر جلد دستخط ہوں تاکہ پاکستان افغان دلدل سے رہائی پا کر اپنی ترقی پر توجہ مذکور کرے جبکہ ضیا الحق کو افغانستان سے نکلنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ کابل میں پائیدار سیاسی نظام آ جائے اور پھر سوویت فوجوں کا انخلا ہو۔ ستار صاحب اپنے موقف پر قائم رہے۔ محمد خان جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہوئی تو ستار صاحب کو بھی فارن سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ہمارے ملک میں جہاں لوگ اپنی وفاداریاں اور خیالات کپڑوں کی طرح بدلتے رہتے ہیں‘ ستار صاحب جیسے با اصول لوگ عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔
مجھے میرے کولیگ کامران نیاز بتا رہے تھے کہ بطور عبوری حکومت کے وزیر خارجہ کے ستار صاحب یو این کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک گئے۔ یہ 1993 کا سال تھا۔ روانگی سے پہلے سفارت خانے کو ہدایت کی گئی کہ وزیر خارجہ کے لئے سنگل روم ہوٹل میں لیا جائے۔ ایمبیسی والوں نے عادت سے مجبور ہو کر ایک بڑا سویٹ بک کرا دیا۔ ہوٹل پہنچ کر سخت ناراض ہوئے اور اسی دن سنگل روم میں شفٹ ہو گئے۔ انہی دنوں آرڈر نکالا کہ پاکستان سے جو لوگ باہر سرکاری دوروں پر جاتے ہیں‘ انہیں پورا ڈیلی الاؤنس کلیم کرنے کے لئے ہوٹل کی رسید ٹی اے بل کے ساتھ لگانا ہوگی۔ اس رول سے حکومت کو بہت فائدہ ہوا۔
میں نماز جنازہ میں موجود تھا۔ 1993 میں ان کے پرائیویٹ سیکرٹری یعقوب صاحب بہت جذباتی ہو رہے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ستار صاحب صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں کئی لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں