"JDC" (space) message & send to 7575

کشمیر کاز: ہوش مندی کے تقاضے

پچھلے چند روز سے ہر طرف کشمیر کی ہی بات ہو رہی ہے۔ اخبار‘ ٹی وی چینلز‘ سوشل میڈیا ہویا سیمینار ز‘سب جگہ کشمیر کا چرچا ہے۔ جمعرات کے روز اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں متعدد موضوعات پر گفتگو ایک بڑے سیمینار کا حصہ تھی۔ سیمینار سینیٹر شیری رحمن کے انسٹی ٹیوٹ نے ہیڈ کیا۔ اس سیمینار میں حاضرین نے سب سے زیادہ دلچسپی انڈو- پاک تعلقات والے جُز میں دکھائی‘ جہاں انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ نے بھی بولنا تھا‘ لیکن جب سیمینار ہو رہا تھا تو موصوف واہگہ کے راستے ہندوستان روانہ ہو رہے تھے کہ ایک روز قبل ہی حکومت ِ پاکستان نے سفارتی تعلقات کا لیول ڈاؤن گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
سفارتی تعلقات کو ڈاؤن گریڈ کرنے کے حوالے سے بھی دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک قبیل کے لوگوں کا خیال ہے کہ جلد یا بدیر دونوں ملکوں کو بات چیت کرنا ہی ہوگی۔ یہ بات واضح ہے کہ جنگ ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے اور اگر‘ بات چیت بالآخر کرنا ہی ہے تو حالات کو مزید کیوں بگاڑا جائے اور زیادہ تناؤ کیوں پیدا کیا جائے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ کشمیری عوام کو اس مشکل گھڑی میں یہ باور کرانا ضروری تھا کہ وہ اکیلے نہیں‘ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ میری رائے میں یہ مناسب قدم تھا۔ انڈیا کو پاکستانی حکومت اور عوام کے غم و غصہ سے آگاہ کرنا ضروری تھا۔
انڈین سیاست کو غور سے دیکھنے والوں کے لئے یہ فیصلہ مطلق حیرانی کا سبب نہیں تھا۔ انڈیا کئی برسوں سے اس آرٹیکل کی جڑیں کھوکھلی کر رہا تھا۔جموں کشمیر حکومت سے صدرِ ریاست اور وزیراعظم کے عہدے واپس لیکر انہیں گورنر اور وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا‘ پھر یہ حکم ہوا کہ کشمیر ی جھنڈے کے ساتھ انڈین ترنگا بھی لہرائے گا۔ اور 5اگست کو سارے بھرم ختم کر دیئے گئے۔ اب‘ مقبوضہ کشمیر نہ خود مختار ہے اور نہ ہی اپنے وسائل پر کشمیری عوام کا حق مطلق چلے گا‘ جبکہ نریندر مودی کا کہنا ہے کہ اب‘ کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری ہوگی اور ترقی ہوگی‘ لیکن یہ بتائیے کہ مقبوضہ فلسطین اور غزہ میں کتنی سرمایہ کاری ہوئی ہے؟ وہاں کے عوام اور محدود اختیارات والی حکومت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی آفر ٹھکرا دی اور واضح کر دیا ہے کہ آزادی اور انسانی حقوق کو نیلام نہیں کیا جا سکتا۔
اور اب‘ فوکس کرتے ہیں؛ اپنے آج کے موضوع پر۔ میرے خیال میں موجودہ حالات میں پاکستان کی طویل مدتی پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ کشمیر کاز زندہ رہے اور انٹرنیشنل لیول پر اس کی آواز گونجتی رہے۔ یہ کام صبر اور محنت طلب ہے۔ اس کے لئے کئی سال درکار ہوں گے۔ ہماری عادت یہ ہے کہ معمولی سی کامیابی پر خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے کشمیر میں ثالثی کا ذکر کیا ‘کیا کہ ہم خوشی سے بغلیں بجانے لگے کہ ہماری فتح ہو گئی؛ حالانکہ یہ بات اب ‘واضح ہے کہ امریکہ کو فروری سے پتا تھا کہ انڈیا ‘مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے جا رہا ہے۔ اب‘ ایک لمحے کو فرض کر لیں کہ اگر ‘انڈیا؛ صدر ٹرمپ کی ثالثی کو مان لیتا تو کیا امریکی وزن ہماری طرف ہوتا یا انڈیا کی جانب؟ یہ بات محلِ نظر رہے کہ امریکہ ‘انڈیا کا علی الاعلان سٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ اس لحاظ سے امریکہ‘ کشمیر پر یقینا انڈیا کی زیادہ مدد کرتا‘ جبکہ ہم چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر بغلیں بجانے لگ جاتے ہیں‘نیز وہاں ادنیٰ اور اعلیٰ ہر قسم کی ناکامی اور بُری خبر کے بعد ہمارے ہاں صفِ ِماتم بھی بچھ جاتی ہے۔ یہ غلط رویہ ہے۔ ہمیں حوصلے اور صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت اپنانی ہو گی۔ 5اگست کے انڈیا کے بڑے فیصلے کے بعد ہمارے ہاں مایوسی نظر آئی ؛حالانکہ یہ نوشتۂ دیوار تھا‘ جسے ہم بروقت پڑھ نہ سکے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہماری فرسٹ لائن آف ڈیفنس کمزور ہو گئی ہے کہ ہم بروقت انڈیا کی چالوں کا کھوج نہ لگا سکے۔
جذباتی ہونا بُری بات نہیں‘ مگر ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونا انسان کو دانش مندی سے دُور لے جاتا ہے۔ اچھی سٹرٹیجی ٹھنڈے دل و دماغ سے ہی بنتی ہے۔ پانچ اگست کے بعد وزیروں کے بیان پڑھ لیجئے‘ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پنجاب کے ایک وزیر باتدبیر کو یقین ہے کہ انڈیا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ایک وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ کشمیر ‘پاکستان کا ہے اور بالآخر ہمارا حصہ بنے گا۔ حضور ہمارا سرکاری مؤقف یہ ہے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام نے کرنا ہے۔ اور کیا یہ ضروری ہے کہ ہر وزیر مسئلہ کشمیر پر اپنے زریں افکار بیان کرتا پھرے؟یہ کام صرف اور صرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ہے یا سید فخر امام کا۔
یہ بات بھی محلِ نظر رہے کہ کشمیر کے معاملے پر نریندر مودی کو کانگریس کے بھی کئی ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی اقلیت میں ہے‘ لیکن پھر بھی بل وہاں آسانی سے پاس ہو گیا۔ اب‘ ہم نے دنیا کو باور کرانا ہے کہ انڈیا نے سراسر غیر قانونی کام کیا ہے۔ انڈیا کا اقدام بین الاقوامی قانون‘ شملہ معاہدہ اور لاہور ڈیکلریشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ہمارا کشمیر کیس قانونی اعتبار سے بہت مضبوط ہے۔ پہلے جب ہم بین الاقوامی محافل میں کشمیر کی بات کرتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ یہ آپ کا اور انڈیا کا آپس کا مسئلہ ہے۔ آپ دونوں بات چیت سے حل کریں۔ انڈیا اب بھی کشمیر پر بات کرنے کو راضی ہوگا ‘لیکن وہ یہ ضرور پوچھے گا کہ پاکستان کب آزاد کشمیر گلگت بلتستان سے کنارہ کش ہوگا؟ پوری دنیا نے انڈیا کی اتنی بڑی قانون شکنی سے جیسے اغماض برتا ہے‘ اُس سے یہ واضح درس ملتا ہے کہ جس ملک کے ہاتھ میں کشکول ہو‘ اس کی بات کرنا‘اکثر ممالک اگنور کرتے ہیں‘ تو جناب !پہلے پاکستان کو اقتصادی طاقت بنائے اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ دنیا سے بات کیجئے۔
پاکستان نے اپنا کیس اقوام متحدہ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے ‘وہاں یہ مسئلہ سکیورٹی کونسل میں ڈسکس ہوگا؛ اگر‘ آپ نے اپنے حق میں اچھا ریزولیوشن پاس کرانا ہے تو اس کیلئے بہت ہوم ورک کرنا ہوگا ‘جس کا آغاز فارن آفس میں ہو چکا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم معاملہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے کا بھی آپشن رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کو جس بھی شخص یا وزارت نے یہ مشورہ دیا ہے‘ وہ یقینا انٹرنیشنل لا سے نابلد ہوگا۔ انڈیا بڑی دور کی سوچتا ہے‘ اُس نے ورلڈ کورٹ کی عملداری قبول کرتے ہوئے یہ شرط لگائی تھی کہ اگر کامن ویلتھ کے کسی ممبر ملک کے ساتھ ہمارا جھگڑا ہوا ‘تو ICJ کی عملداری لاگو نہیں ہوگی۔ لگتا ہے کہ ہماری وزارت ِقانون ‘وزیراعظم کو صائب مشورے نہیں دے رہی۔
ہمیں انٹرنیشنل کمیونٹی کے سامنے اپنا کیس دو حوالوں سے رکھنا ہے؛ ایک ہے ‘قانونی زاویہ اور دوسرا ہے‘ انسانی حقوق کی پامالی۔ اپنا قانونی کیس مسلسل محنت سے تیار کرتے رہیں۔ ڈاکٹر پرویز حسن اور ڈاکٹر اعظم چوہدری جیسے ماہرین ِانٹرنیشنل لا سے مشورہ کریں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ہمیں کشمیری بھائیوں کی شہادتوں کے دستاویزی ثبوت مع تصاویر تیار کرتے رہنا چاہیے۔ جس بھارتی یونٹ نے شہید کیا ہے‘ اُس کا نام مع تاریخ بھی شامل ہو ۔یہ ثبوت ہمیں تمام ممالک تک اپنے سفارت خانوں کے ذریعے باقاعدگی سے پہنچانا چاہئیں۔
کشمیر کاز کیلئے گورنمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ جو پارلیمانی وفد باہر بھیجے جائیں‘ اُن میں اپوزیشن کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ وفود پوری تیاری اور اچھی بریفنگ کے بعد بھیجے جائیں۔ لندن‘ پیرس‘ نیو یارک اور واشنگٹن وغیرہ میں کشمیری کمیونٹی کو گاہے بگاہے مظاہرے کرنا چاہئیں‘ جہاں بڑی تعداد میں لوگ نکلیں۔ مغربی میڈیا سے مسلسل رابطہ رکھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر کشمیر کی لڑائی بھی ہم سب کو لڑنی ہے۔ یہ لمبی جنگ ہے اور جوش سے زیادہ ہوش اور محنت کی متقاضی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں