"JDC" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات: رکاوٹیں اور امکانات

وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ سے دو طرفہ تعلقات کا مسلسل زوال خاصی حد تک رک گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر وزیر اعظم کا انوکھے طریقے سے استقبال ہوا۔ میرے ایک سابق کولیگ‘ جو امریکہ سے ڈیل کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور حسِ ظرافت بھی‘ کہنے لگے کہ یوں لگتا ہے کپتان ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ جیت لایا ہے۔
وزیر اعظم سے صدر ٹرمپ نے افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی مدد مانگی۔ ہمیں کہا گیا کہ ہمسایہ ملک میں جنگ بندی اور کابل حکومت سے مذاکرات کے لیے طالبان کو راضی کریں۔ اسی وجہ سے امریکی صدر کا رویہ بہت دوستانہ تھا۔ انہوں نے کشمیر کے تنازعہ میں ثالثی کی پیشکش بھی کر دی جس سے یار لوگ اور خوش ہو گئے۔ 5 اگست کو انڈیا نے کشمیر پر شب خون مارا تو امریکہ کو اپنا مؤقف بیان کرنے میں کئی دن لگ گئے۔ سلامتی کونسل کا کشمیر کی صورتحال پر بند اجلاس ہوا۔ پاکستان اور چین کی خواہش تھی کہ ایک اور اجلاسِ مکشوف بھی ہونا چاہئے‘ جہاں دوسرے لوگ سننے کے لیے آئیں اور میڈیا کو کوریج کی اجازت ہو۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ، فرانس اور جرمنی نے کھلے اجلاس کی مخالفت کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ امریکہ کے دل میں انڈیا کے لیے نرم گوشہ ہے جو مستقبل میں بھی رہے گا۔
امریکہ اب بھی پوری دنیا میں سب سے بڑی عسکری قوت ہے۔ امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ چھ سو ارب ڈالر ہے۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اکانومی بھی ہے لیکن اس سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے امریکہ کے پاس ہارورڈ، سٹین فورڈ، ایم آئی ٹی اور ییل (Yale) جیسے تعلیمی ادارے ہیں۔ علم میں اضافہ ریسرچ کے ذریعے ہی ممکن ہے اور پورے عالم میں سب سے زیادہ ریسرچ ورک امریکہ میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں سب زیادہ نوبل پرائز یافتہ عالم اور سائنس دان امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں مثلاً ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میں امریکی اثر و رسوخ واضح نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے والے انٹرنیشنل ادارے ایف اے ٹی ایف (FATF) میں بھی امریکہ کا رول لیڈر والا رہتا ہے۔ لہٰذا امریکہ کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہمارے مفاد میں ہے۔
اور اب ان رکاوٹوں کی طرف آتے ہیں جو پاک امریکن تعلقات کی پرانی گرم جوشی میں اس وقت حائل ہیں اور لمبے عرصے تک رہیں گی۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ خطے کے حالات بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ پاکستان چین کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے جبکہ چین اور امریکہ کے درمیان مسابقت یعنی مقابلے کی کیفیت ہے۔ چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا امریکہ اور انڈیا کا مشترکہ ہدف ہے۔ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے لہٰذا افغان امن کا حصول اور امریکی افواج کی وہاں سے مکمل واپسی اہم ضرور ہیں لیکن یہ قلیل مدت کے اہداف ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی سکیورٹی امریکی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے، جبکہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں۔
تو کیا پاکستان کچھ عرصے بعد امریکہ کے لیے بے معنی ہو جائے گا۔ بات ایسی بھی نہیں ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے اس کی فوج کے مکمل انخلا کے بعد وہاں القاعدہ واپس آ سکتی ہے۔ داعش وہاں پنپ سکتی ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کا تعاون ضروری ہو گا۔ دنیا کا چالیس فیصد تیل آبنائے ہرمز سے ہوتا ہوا پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہو کر اپنی منازل کی طرف جاتا ہے۔ بحیرہ عرب کی سکیورٹی کے لیے پاکستان نیوی کا رول اہم ہے اور رہے گا۔ ویسے بھی کسی نیوکلیئر پاور کو نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن پاک امریکہ سٹریٹیجک تعلقات کی بحالی مجھے اب نا ممکن لگتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1990ء کی دہائی کے آغاز میں جب سوویت یونین کی افواج افغانستان سے جا چکی تھیں تو امریکہ کو پاکستانی مدد کی ضرورت نہیں رہی تھی؛ چنانچہ ہمارے ملک پر اقتصادی اور عسکری پابندیاں فوراً نافذ کر دی گئیں۔ پریسلر ترمیم پھر سے فعال ہو گئی۔ اس سے یہ فکر پاکستانی ذہن میں راسخ ہو گئی کہ امریکہ کے تعلقات کوئی طویل عرصے کی نظریاتی دوستی نہیں رہے بلکہ Transactional ہو چکے ہیں‘ یعنی ''اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے‘‘۔
امریکہ میں چوبیس لاکھ انڈین آباد ہیں اور پچھلی دو دہائیوں میں ان کا اثر و رسوخ خاصا بڑھا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین سول نیوکلیئر معاہدہ ہے۔ عسکری تعاون کا معاہدہ بھی فعال ہے۔ 2016ء میں ایک اہم لوجسٹک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کی رو سے دونوں ممالک کے عساکر ایک دوسرے سے مرمت کی سہولیات حاصل کر سکتے ہیں‘ ایندھن لے سکتے ہیں اور اس طرح انڈین بلیو واٹر نیوی کی دور کے سمندروں میں جانے کی صلاحیت خاصی بڑھی ہے۔ دو طرفہ تجارت 126 ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان سے بیس گنا زیادہ۔ امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں انڈین طالب علموں کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ حقیقت میں خود مشاہدہ کر آیا ہوں۔ اسی طرح امریکن میڈیا اور تھنک ٹینکس میں متعدد انڈین اوریجن کے لوگ آ گئے ہیں۔ سی این این پر ہفتہ وار پروگرام کرنے والے با خبر صحافی فرید زکریا کا آبائی دیس بھی انڈیا ہے اور ان کے منہ سے پاکستان کے لئے کلمۂ خیر کم ہی نکلتا ہے۔
میکسیکو کے بعد انڈین کمیونٹی امریکہ میں دوسری بڑی فارن کمیونٹی ہے۔ یہ لوگ اپنی محنت سے آگے بڑھے ہیں۔ ان کی اوسط آمدنی عام امریکن سے زیادہ ہے۔ لیوزیانا کے سابق گورنر بوبی جندال کا تعلق بھی انڈیا سے تھا۔ انڈین اوریجن کی ایک خاتون کمالہ حارث ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کے طور پر 2020 کا صدارتی انتخاب لڑنا چاہتی ہیں۔ نکی ہیلی (Nikki Haley )کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔ یہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر رہی ہیں، ان کا اصل نام نمراتا رندھاوا ہے۔ نکی یعنی چھوٹی ان کا نِک نیم (Nick Name) ہے۔ ان کا خاندان امرتسر سے امریکہ گیا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ انڈین اوریجن کے لوگ اب امریکی فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اور اب دیکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا صورت حال میں ہم کس طرح امریکہ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں افغان امن عمل کے سلسلے میں امریکہ کی ہر ممکن مدد کرنا چاہئے اور جہاں ہمیں کوئی مجبوری آڑے آ رہی ہو وہ امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ امریکہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ ہم امریکہ کو اپنی برآمدات مزید بڑھا سکتے ہیں‘ بشرطیکہ ہم اپنی اکانومی کو درست کر کے اپنا برآمدی سرپلس بڑھائیں۔ اپنی برآمدات میں تنوع پیدا کریں۔ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر پر انحصار کرنا چھوڑ دیں۔
ہمیں کیپیٹل ہل یعنی کانگرس میں کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ کانگرس میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ہم اپنی کمیونٹی کو بھی متحرک کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے چند حصوں میں پاکستانیوں کا ووٹ بینک اچھا خاصا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ لوگ متحد ہو کر پاکستان کے لیے کام کریں۔ جب بھی پاکستان کے مفاد کی بات ہو تو اپنے ممبر کانگرس کو خط لکھیں یا ای میل بھیجیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی امریکیوں کی اکثریت یک زبان ہو۔
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبا کی تعداد بڑھے۔ فل برائٹ سکالر شپ ہمیں پورے کے پورے استعمال کرنے چاہئیں۔ امریکی میڈیا میں ہمارا وجود اور اثر و رسوخ بہت کمزور ہے۔ ہمیں وہاں اپنا امیج ٹھیک کرنا ہے اور یہ کام میڈیا کی مدد کے بغیر نا ممکن ہے۔ ہمیں چاہئے کہ بدلے ہوئے حالات اور اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کے بارے میں جامع پالیسی وضع کریں اور پھر اس پر عمل کرنے کے لیے یک سو ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کامیاب نہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں