"JDC" (space) message & send to 7575

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جانب سفر

ٹوبہ ٹیک سنگھ میرا شہر ہے لیکن اصل آبائی گاؤں وہاں سے آٹھ میل مغرب میں وریام والا روڈ پر ہے۔ میرے پردادا چودھری رحیم بخش 1896میں ہوشیار پور سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ انگریز حکومت نے انہیں ذیلدار بھی بنایا اور ڈسٹرکٹ بورڈ لائل پور کا ممبر بھی۔ بادی النظر میں انہیں انگریز سرکار کا وفادار کہا جا سکتا ہے لیکن 1946 میں وہ بضد تھے کہ ہمارے ووٹ صرف اور صرف مسلم لیگ کو ہی ملیں گے۔ اس طرح وہ یونینسٹ گورنمنٹ کے معتوب ٹھہرے لیکن خدا کا شکر کہ جلد ہی پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔
ساندل بار اور نیلی بار کو انگریز حکومت نے نہریں بنا کر آباد کیا۔ لاہور کو لائل پور سے ریلوے لائن کے ذریعے ملایا جو آگے خانیوال سے ہوتی ہوئی ملتان جاتی ہے۔ اس نو آباد علاقے کو کالونی ایریا بھی کہا جاتا تھا۔ انگریز حکومت کے سامنے کئی مقاصد تھے۔ انڈیا کو وافر غلہ فراہم کرنا ایک مقصد تھا۔ مانچسٹر کی ٹیکسٹائل ملوں کو سستی روئی بھی یہاں سے جانے لگی۔ جالندھر، ہوشیار پور، گوجرانوالہ اور گجرات کے گنجان آباد اضلاع کو بھی ریلیف ملا لیکن سب سے بڑا سیاسی مقصد وفادار برادریوں کی یہاں نقل مکانی تھا تاکہ رائے احمد خان شہید جیسے سرکش لوگ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ جھنگ اور ساہیوال کے درمیان ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ انگریزوں نے ایسے کئی قصبے ساندل بار اور نیلی بار میں آباد کئے۔ ان قصبوں کو منڈی ٹاؤن کہا جاتا تھا۔ قصبے کے ایک جانب سے ریلوے لائن گزرتی تھی۔ عین درمیان میں غلہ منڈی ہوتی تھی۔ غلہ منڈی کے ایک جانب متفرق سودا سلف کے ایک دو بازار ہوتے تھے اور دوسری جانب آبادی۔ تین چار سرکاری عمارتوں میں میونسپل کمیٹی‘ سکول‘ سرکاری ہسپتال‘ پولیس سٹیشن اور ایک آدھ عدالت شامل تھیں۔ جہاں آج کل ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے وہاں ایک درویش صفت انسان ٹیک سنگھ ایک تالاب سے آتے جاتے مسافروں کو پانی پلاتا تھا اور یہی اس شہر کی وجہء تسمیہ بنا۔ ٹوبہ کے علاوہ گوجرہ، جڑانوالہ، چک جھمرہ، سانگلہ ہل، اوکاڑہ، تاندلیانوالہ اور سمندری دوسرے منڈی ٹاؤن تھے۔ ان تمام قصبوں کا نقشہ خاصی مشابہت رکھتا ہے۔ بنیادی اصول ٹاؤن پلاننگ کا جو مدنظر رکھا گیا وہ یہ تھا کہ تجارتی اور رہائشی علاقے پاس پاس بھی ہوں اور علیحدہ علیحدہ بھی۔
معاف کیجئے تمہید ذرا لمبی ہو گئی۔ میری ساری کی ساری سکولنگ ٹوبہ کے قریب والے منڈی ٹاؤن گوجرہ میں ہوئی۔ ایک زمانہ تھا کہ ٹوبہ کے نام سے بہت کم لوگ واقف تھے۔ پڑھے لکھے لوگ یہ ضرور جانتے تھے کہ سعادت حسن منٹو نے اس شہر کے نام سے منسوب شہرئہ آفاق افسانہ لکھا تھا۔ سرخ انقلاب والے اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی نے یہاں کسان کانفرنس کی تھی۔ یہ خطہ اپنے سیاسی شعور کی وجہ سے بھی معروف ہے اور اب اس کے دونوں جانب موٹرویز ہیں اب یہ علاقہ مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ موٹرویز کی وجہ سے فیصل آباد، ملتان اور لاہور کا سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔ میں اسلام آباد سے ساڑھے چار گھنٹے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچ گیا۔ راستے میں بھیرہ میں پندرہ منٹ بریک بھی لی۔
چند سال پہلے کا ایک مختصر اور پرسکون قصبہ اب ایک بے ہنگم سا شہر بن چکا ہے۔ 1960تک یہاں پانچ وکیل ہوتے تھے جن میں ایک میرے نانا مرحوم بھی تھے۔ آج یہاں چھ سو وکلا ہیں۔ سڑکوں پر بے تحاشا رش ہے۔ جس شہر میں دو چار کاریں ہوتی تھیں وہاں گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ اس پر مستزاد بے شمار موٹر سائیکل اور رکشے۔ ہر جانب آبادی کا سیلاب ہے جو ہر قسم کی پلاننگ کو بے معنی بنا رہا ہے یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ دس سال بعد ہمیں کتنے ہسپتال یا کتنے سکول کالج درکار ہوں گے۔ میرے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ساتھ ظلم یہ ہوا ہے کہ دس پندرہ سال پہلے یہاں رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمی کی اجازت دے دی گئی۔ لوگوں نے گلی محلوں میں‘ اپنے گھروں کے نیچے دکانیں بنا کر کرائے پر دے دیں۔ اب ان گلیوں میں سے گزرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ماسٹر پلان میں تبدیلی کر کے ہم نے اس چھوٹے سے پرسکون شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اس لئے کہ ہم آزاد ہیں۔ ٹاؤن پلاننگ کے اصول توڑ سکتے ہیں اور کافر انگریز کے اصول بدلنا تو باعثِ ثواب ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے اب ہمارے گاؤں جانے کا سفر موٹروے سے بھی ممکن ہے۔ میری طرح میرا پورا خاندان پی ٹی آئی کا ہمدرد ہے۔ ہم کار میں بذریعہ موٹر وے گاؤں جا رہے تھے‘ میرے کزن کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ دیں نواز شریف کو دعائیں کہ ہمارا سفر کس قدر آسان ہو گیا ہے۔ گاؤں میں عزیزوں کو مل کر شب باشی کیلئے ٹوبہ ٹیک سنگھ واپس آنا تھا۔ گاؤں میں بجلی تو ہے مگر ایئرکنڈیشنر رات کے چند گھنٹے ہی چلتے ہیں۔ میں نے کہا کہ واپسی کے لئے وریام والا روڈ سے چلتے ہیں۔ ایک صاحب بولے کہ رات کو یہ سڑک غیر محفوظ ہے لہٰذا آپ موٹر وے سے ہی واپس جائیں۔ ذہن میں سوال آیا کہ میرے دیس کے راستے غیر محفوظ کیوں ہو رہے ہیں۔ خوفِ خدا بھی کافور ہو رہا ہے اور قانون کا ڈر بھی۔
ٹوبہ میں شب باشی کی اور اگلے روز علی الصبح پھرگاؤں جانے کا ارادہ تھا۔ مشورہ یہی تھا کہ کھیتوں میں پھرنا ہے تو دوپہر سے پہلے پہلے ورنہ گرمی شدت پکڑ لیتی ہے۔ گاؤں میں ہمارا چند ایکڑ کا کنو کا باغ ہے۔ میں نے سوچا ہوا تھا کہ پورے باغ میںگھوم پھر کر پودوں کی صحت کا جائزہ لوں گا۔ میں ناشتہ کر رہا تھا اور میرے کزن کے پوتے سکول جانے کو تیار تھے۔ اتنے میں ان کی ٹیکسی آ گئی۔ میں نے پوچھا کہ سکول تو اتنی دور نہیں تو پھر ٹیکسی کی کیا ضرورت ہے‘ بچے پیدل کیوں سکول نہیں جاتے؟ جواب ملا کہ سڑکوں پر ٹریفک بہت ہے بچے روڈ کراس نہیں کر سکتے اور ویسے بھی بچے سڑکوں پر غیر محفوظ ہیں‘ میرے ذہن میں قصور کی لرزہ خیز داستانیں آ گئیں۔
گاؤں میں مَیں نے دیکھا کہ آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے زرعی زمین پر گھر بننا شروع ہو گئے ہیں۔ زرعی زمین کو سکنی مقاصد کے لئے استعمال کرنا قانوناً ممنوع ہے اور حکومت کی اجازت بہرحال ضروری ہے۔ میں نے پوچھا کہ حکومت کی اجازت کیا لی گئی ہے؟ جواب ملا کہ سب ساتھ والے گاؤں میں ایسا ہی ہو رہا ہے ہم اجازت کیوں لیتے۔ رورل پنجاب میں رول آف لاء کمزور ہو رہا ہے اور اس کی ذمہ دار بیورو کریسی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو دیہی علاقے بھی اپنی خوراک پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
کار سرکار میں سیاسی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ کرپشن کی داستانیں زبان زدعام ہیں۔ مجھے ایک مسلم لیگی دوست نے بتایا کہ ٹوبہ کے ایک ایس ایچ او کی ایک وکیل سے توتکار ہو گئی۔ وکیل کی حکومتی پارٹی تک رسائی تھی چنانچہ وکیل صاحب نے تھانیدار کو تڑھی لگائی کہ تم شام تک اپنی سیٹ پر نہیں رہو گے اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ میں نے پی ٹی آئی والوں سے اس واقعہ کی تصدیق کی تو بات سچی نکلی۔ سچ پوچھئے تو پنجاب پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنے کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے اور مجھے زیادہ دکھ اس لئے بھی ہے کہ انہی خوابوں کی وجہ سے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا۔
میں جناب وزیراعظم کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ دیہی پنجاب میں ان کی جماعت غیر مقبول ہو رہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے زمانے میں زرعی انتقال ہوتے ہی حکومتی ایس ایم ایس آتا تھا کہ آپ نے کتنی فیس جمع کرائی ہے آپ سے کسی نے رشوت تو نہیں مانگی۔ اور آج علی الاعلان رشوت مانگی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کرپشن مخالف نعرے پر آئی تھی اور آج پنجاب کی بیورو کریسی کرپشن کو پروموٹ کرنے میں سرگرم ہے۔ محکمہ مال، پولیس اور انجینئرنگ کے ڈیپارٹمنٹ آگے آگے ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں