"JDC" (space) message & send to 7575

کامیاب قوموں کے اطوار…(2)

علم و ہنر کی جستجو‘ ترقی کی لگن‘ نظم و ضبط اور انتھک محنت‘ یہ ہیں وہ اجزائے ترکیبی جو قوموں کو عروج کی جانب لے جاتے ہیں۔ گو کہ عسکری برتری قوموں کے عروج میں اہم رول ادا کرتی ہے‘ لیکن اقتصادی برتری عسکری طاقت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ سوویت یونین عسکری اعتبار سے مضبوط تھی لیکن مغربی ممالک کے مقابلے میں سست رفتار معاشی ترقی اسے زوال اور پھر تقسیم کی طرف لے گئی۔ آج سے تقریباً تین عشرے پہلے ایک جاپانی لیڈر نے کہا تھا کہ ہم نے مغربی اقوام سے فوجی ہزیمت کا بدلہ لے لیا ہے‘ اب امریکی صدر کے گھر اور دفتر میں سونی کا ٹیلی ویژن استعمال ہو رہا ہے اور یورپ‘ امریکہ اور کینیڈا والے جاپانی کاریں چلا رہے ہیں۔
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عسکری فوقیت ‘ اقتصادی ترقی کے ساتھ شامل ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ جب مغربی اقوام نے ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں وسیع و عریض علاقوں کو زیر تسلط کیا تو صنعتی انقلاب کی بدولت اقتصادی ترقی اور فعال نیول پاور کی بدولت سمندروں پر ان کا کنٹرول تھا۔ عسکری پاور اور اقتصادی ترقی دونوں برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی اور سپین کا طرۂ امتیاز تھیں‘ لہٰذا ان تمام ممالک نے سلطنتیں قائم کر لیں اور مفتوحہ علاقوں کے وسائل کی بدولت اور زیادہ خوش حال ہوتے گئے۔عسکری قوت اور جنگوں کے نتائج پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جنگیں صرف شجاعت سے ہی نہیں جیتی جا سکتیں کیونکہ دلیری کے علاوہ بہتر اسلحہ اور زیرک حکمتِ عملی کا اپنا اپنا اہم رول ہوتا ہے۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی فوج بابر کی فوج سے بہت بڑی تھی۔ ابراہیم لودھی کی فوج کے پاس ہاتھی تھے‘ جبکہ بابر کے پاس سبک رفتار گھوڑے تھے۔ جب گھڑ سواروں نے ہاتھیوں پر تیر برسائے تو وہ میدانِ جنگ سے بھاگنے لگے‘ لیکن ایک اور فیکٹر جس کی وجہ سے بابر نے یہ اہم جنگ جیتی وہ توپ خانہ تھا‘ جو انڈین فوج کے لیے انوکھی چیز تھی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو افواج اسلحہ کی ٹیکنالوجی میں آگے ہوتی ہیں ان کے جنگ جیتنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
جنگ پلاسی میں لارڈ کلائیو کی فوج کے پاس دور تک گولے پھینکنے والی توپیں تھیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے ٹیلیگراف کا استعمال کر کے مخالف سپاہیوں کی نقل و حرکت کے بارے میں بروقت معلومات حاصل کیں‘ جبکہ انڈین سپاہی خطوں کے ذریعے پیغام بھیجتے تھے۔ مڈل ایسٹ کی جنگوں میں اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ بہتر اسلحہ جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ 1975ء کی بات ہے میں دمشق میں پوسٹڈ تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1973ء کی جنگ کے شروع میں شامی اور مصری افواج نے متعدد کامیابیاں اپنے نام کیں لیکن دوران جنگ ہی اسرائیلی مسلح افواج کی پرفارمنس بہتر ہونے لگی۔ میں نے ایک شامی سینئر فوجی سے پوچھا کہ آپ کی عسکری کارکردگی یکساں کیوں نہ رہی تو اس کا جواب تھا کہ امریکہ نے جنگ شروع ہوتے ہی اسرائیل کے ساتھ ایک فضائی پُل قائم کر لیا تھا جس کے ذریعے جدید ترین اسلحہ دن رات ہوائی جہازوں کے ذریعے منتقل ہو رہا تھا اور اس وجہ سے ہمارے لئے اسرائیل کو شکست دینا نا ممکن ہو گیا تھا۔
فرد کی طرح قوموں کے لیے بھی مضبوط قوت ِارادی ضروری ہے۔ 1974ء میں انڈیا نے ایٹمی تجربہ کیا اور ستم ظریفی یہ کہ اس کا نام مسکراتا ہواگوتم بدھ'' Smiling Budha ‘‘رکھا گیا۔ جیسے ہی یہ تجربہ ہوا ‘پاکستانی لیڈر شپ نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں فیصلہ کیا کہ اب پاکستان کے لیے ایٹمی پاور بننا از بس ضروری ہے۔ میری اطلاع کے مطابق 1988ء تک پاکستان نے مضبوط ارادے اور یکسوئی سے اٹامک صلاحیت حاصل کر لی تھی۔ میں اسے پاکستان کی معدودے چند بڑی کامیابیوں میں شمار کرتا ہوں‘ لیکن ایک اٹامک پاور کے شہریوں کے اطوار اور عادات ہم میں نہ آ سکے اور ان میں سرفہرست نظم و ضبط ہے ۔ نظم و ضبط کا ایک ادنیٰ سا مگر اہم عنصر قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرنا بھی ہے۔ پچھلے سال انڈیا سے ایک سابق سفارت کار اسلام آباد ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے اور واپس جا کر پاکستان کے بارے میں اپنے تاثرات ایک اخباری کالم میں تحریر کئے‘ ان میں چند مثبت باتیں بھی تھیں‘ لیکن جو بات مجھے اب بھی یاد ہے وہ یہ تھی کہ فائیو سٹار ہوٹل میں بھی کسی بڑے فنکشن میں پاکستانی قطار بنا کر طریقے ‘ سلیقے سے کھانا نہیں لے سکتے اور یہ بات بڑی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ اسی طرح کی بد نظمی ہمیں سڑکوں پر‘ ٹریفک میں بھی نظر آتی ہے۔
Paul Kennedy نے 1987ء میں قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں اپنی شہرۂ آفاق کتاب لکھی تھی۔ اس میں بھی بنیادی نقطہ یہی تھا کہ کامیاب قومیں اپنے ترقیاتی اور عسکری اخراجات میں توازن رکھتی ہیں اور پھر چند سال بعد ہم نے سوویت یونین کے حصے بخرے ہوتے دیکھے اور بنیادی وجہ ان دونوں اخراجات میں عدم توازن تھا۔ رہی سہی کسر سوشلسٹ نظام کی مرکزی پلاننگ کے نقائص نے پوری کر دی۔اگر کسی ملک میں معاشی خوشحالی فراواں ہو مگر دفاع کمزور ہو تو وہ طاقتور ملکوں کے لیے تر نوالہ بن سکتا ہے۔ ہمارے دور میں اس کی مثال کویت ہے‘ جس پر 1990ء میں صدام حسین کی افواج نے قبضہ کر لیا تھا۔ لہٰذا کسی بھی کامیاب قوم کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہو ‘لیکن ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی اس کی ترجیحات میں اولین ہو۔ ایک ناقابل تسخیر معاشرہ وہ ہوتا ہے جو اندرونی طور پر مضبوط ہو‘ جہاں لوگوں کے پاس روزگار ہو‘ کارخانے شب و روز چلتے ہوں‘ ملک میں خوشحالی ہو‘ سیاسی عمل میں بلوغت ہو‘ منتخب حکومتیں اپنی مدت پوری کریں‘ سول اور ملٹری قیادتیں شیر و شکر ہوں‘ فیڈرل اور صوبائی رابطے مضبوط ہوں‘سوسائٹی کی اکثریت میں قوت برداشت موجود ہو اور بات دلیل سے منوائی جائے‘ قوت سے نہیں۔ 
کامیاب قومیں بروقت اپنا احتساب کرتی رہتی ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں امریکی صدر نکسن کا مواخذہ ہونے ہی والا تھا کہ انہوں نے خود استعفیٰ دے دیا۔ صدر بل کلنٹن کو قوم سے حقائق چھپانے پر معافی مانگنی پڑی۔اکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی کہا جاتا ہے۔ دنیا کا مرکزِ ثقل یوریشیا کی جانب شفٹ ہو رہا ہے۔ ایشیا کے ساتھ روس کو پورا شامل کر لیں تو یوریشیا بن جاتا ہے۔ ایشیا میں کئی ممالک نے شاندار اقتصادی ترقی کی ہے۔ ملائیشیا اور جنوبی کوریا بیسویں صدی کے آخری عشرے تک ایشین ٹائیگر بن چکے تھے۔ سنگاپور اور ملائیشیا میں چینی نژاد باشندے بڑی تعداد میں موجود ہیں‘یہ بڑے محنتی اور ترقی پسند لوگ ہیں۔ویت نام نے امریکہ کے خلاف طویل گوریلا جنگ لڑی۔ اس تباہ حال ملک نے پچھلے پچیس سال میں شاندار ترقی کی ہے۔ میں ویت نام دو مرتبہ جا چکا ہوں‘ مجھے دو چیزوں نے بڑا متاثر کیا‘پہلی بات یہ کہ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری متاثر کن بات یہ تھی کہ خواتین ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ دفتروں اور دکانوں پر ہر جگہ خواتین کا رول نمایاں ہے۔ سڑکوں پر بے شمار خواتین موٹرسائیکل یا سکوٹر چلاتی دکھائی دیتی ہیں۔
ہر کامیاب قوم کو بے لوث اور مخلص لیڈر شپ درکار ہوتی ہے۔ ویت نام کے لوگوں کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ہوچی من Ho chi minh جیسا عظیم لیڈر ملا۔ میں نے ہنوئی میں اس قومی لیڈر کا آفس دیکھا ‘جہاں سے اس نے قوم کو امریکہ کے خلاف لیڈ کیا۔ یہ دفتر ایک پارک میں ہے اور پورا لکڑی کا بنا ہوا ہے۔ اس چھوٹی سی عمارت میں تین کمرے ہیں۔ ٹوٹل ایریا تین چار مرلے سے زیادہ نہیں۔ اس عظیم لیڈر کا حنوط شدہ بدن بھی میوزیم میں دیکھا۔ پچھلے کئی سالوں سے دنیا بھر سے سرمایہ کار ویت نام آ رہے ہیں اور یہی اس ملک کی کامیابی کا راز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں