"JDC" (space) message & send to 7575

ایران کو کس کی نظر لگ گئی؟

ایران کو اپنی تاریخ اور ثقافت پر فخر ہے اور کیوں نہ ہو‘ یہ ایران کا اعزاز تھا کہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے ایرانی سلطنت وسیع علاقوں پر مشتمل تھی، فارسی زبان ایران سے باہر بھی دفاتر میں استعمال ہوتی تھی۔ انڈیا میں انگریزوں کی حکومت آنے سے پہلے فارسی زبان کا راج تھا۔ فارسی زبان کی عبارتیں آج بھی استنبول کی تاریخی عمارتوں پر لکھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ شاہ ایران کی کلچرل اور سیاسی پالیسی سے قطع نظر 1970ء کی دہائی میں ایران اقتصادی طور پر بہت تیز رفتار سے آگے جا رہا تھا۔ بے شمار صنعتیں لگ رہی تھیں اور توقع تھی کہ ایران کا شمار جلد ہی ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے لگا۔ 1979ء کے انقلاب کے بعد ایران کی عراق کے ساتھ ایک لمبی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں جانی نقصانات کے علاوہ مادی وسائل کا بھی بہت ضیاع ہوا۔ ایران اقتصادی طور پر کئی سال پیچھے چلا گیا۔ 
اور اب جلدی سے ایران کے حالیہ پرتشدد واقعات پر فوکس کرتے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ ایران اور اس کے کئی شہر تشدد کی زد میں رہے۔ وسیع پیمانے پر ہونے والے یہ مظاہرے بظاہر حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمت بڑھانے کے خلاف ردعمل تھا۔ حکومت نے پٹرول کی قیمت پچاس فیصد فوری طور پر بڑھا دی اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگائی کہ جو شخص مہینے میں ساٹھ لیٹر سے زیادہ تیل لے گا تو زائد کمیت کی قیمت تین گنا ہو گی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس طرح سے اکٹھی کی گئی رقم غریبوں کی مدد پر صرف ہو گی۔ 
ایرانی شہریوں پر حکومت کا ایک عرصے سے بڑا موثر کنٹرول رہا ہے۔ وہاں پاکستانی سٹائل دھرنوں کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی وہاں کوئی سیاسی گروہ کسی شاہراہ کو بند کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ لیکن جب معاشرے پر حکومت اور اس کے اداروں کا کچھ زیادہ ہی موثر کنٹرول ہو تو حکومت مخالف لاوا اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے۔ پریشر ککر والی پوزیشن بن جاتی ہے۔ پچھلے دس سال میں ایران میں ہونے والے یہ تیسرے مظاہرے ہیں۔ 2009ء میں ہونے والے احتجاج میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ صدارتی انتخاب میں صدر محمود احمدی نژاد دھاندلی کر کے جیتے ہیں۔ 2018ء میں ہونے والا احتجاج اقتصادی نوعیت کا تھا اور یہ لمبا عرصہ جاری رہا۔ اس میں چھوٹے تاجر ٹرک ڈرائیور اور سکول ٹیچر سبھی شامل تھے۔ یہ سب اقتصادی ریفارمز اور بہتر معاش کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بالآخر حکومت نے مظاہروں کو کنٹرول کر لیا۔ ایران کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ادارے بڑے فعال ہیں۔
البتہ حالیہ مظاہروںمیں پہلے ہونے والے احتجاجوں کے مقابلے میں زیادہ شدت ہے ۔اس مرتبہ ہلاکتیں بھی زیادہ ہوئی ہیں۔ حکومت نے تو صرف درجن بھر ہلاکتوں کا اقرار کیا ہے مگر ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ایک سو چھ لوگ مارے گئے ہیں۔ بی بی سی کی فارسی سروس کا دعویٰ ہے کہ دو سو ایرانی اب تک جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پانچ روز تک انٹرنیٹ مکمل طور پر بند رہا اور تادم تحریر صرف لینڈ لائن بحال ہوئی ہے یعنی وائرلیس نظام پر کام کرنے والا سوشل میڈیا‘ جو میرے اور آپ کے ہاتھ میں سمارٹ فون کے ذریعے دنیا جہاں کی خبریں پہنچاتا ہے‘ اب بھی بند ہے۔ صدر ٹرمپ کے ایک حالیہ ٹویٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایران میں شفافیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
حالیہ مظاہرے آناً فاناً تہران، اصفہان، مشہد، کرمان شاہ، تبریز اور دیگر مقامات میں پھیل گئے۔ ایرانی کردستان اور خوزستان کے علاقے میں احتجاج کی شدت کچھ زیادہ ہی تھی۔ اس سے ایک عرب مبصر نے یہ نتیجہ نکالا کہ غیر فارسی علاقے تہران حکومت کی پالیسیوں سے زیادہ ناخوش ہیں۔
عجیب بات یہ بھی ہے کہ حکومتی دعویٰ ہے کہ تیل کی زائد قیمت سے حاصل ہونے والی آمدنی غریبوں کی مدد کے لئے استعمال ہوگی مگر احتجاج کرنے والے اکثر لوگوں کا تعلق بھی نچلے طبقے سے تھا۔ 2017کی آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ایران میں 33فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میرے لئے یہ معلومات حیران کن تھیں کیونکہ ایران تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے اور وہاں تیل کے مزید ذخائر دریافت ہوئے ہیں تو پھر لوگ کیوں تنگ آئے ہوئے ہیں؟
ایران کی موجودہ معاشی تنگ دستی کا بڑا سبب امریکہ کی طرف سے عائد کردہ اقتصادی پابندیاں ہیں جو مئی 2018 میں مزید سخت کر دی گئی تھیں مثلاً پہلی اقتصادی پابندیوں سے انڈیا کو استثنیٰ دیا گیا تھا اور انڈیا ایران سے تیل امپورٹ کر سکتا تھا مگر اب وہ سہولت بھی ختم کر دی گئی ہے۔
میں 1997 میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے تہران گیا تھا اور وہاں دو ہفتے گزارے تھے۔ ایرانی ایک متحرک قوم ہیں۔ چھٹی والے دن پارک نوجوانوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں تنگ جینز پر چادر لپیٹے نظر آتی ہیں۔ سینما ہاؤسز کے باہر لمبی قطاریں لگتی ہیں۔ ایرانی فلم انڈسٹری خاصی آگے ہے۔ ایک اور بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ تہران میں صفائی کا بہترین معیار تھا۔ تہران کی آبادی کراچی کے لگ بھگ ہو گی لیکن کچرے کے ڈھیر کہیں نظر نہیں آتے۔ اس قوم کو پڑھنے کا شوق ہے۔ دنیا جہاں میں چھپی ہوئی تازہ ترین کتابوں کا فارسی ترجمہ جلد ہی ایران کی بک شاپس میں آ جاتا ہے۔
1979 ء کے انقلاب کے بعد ایران کے سیاسی نظام پر ایک خاص طبقے کا غلبہ ہے۔ ایرانی عوام نے ذہنی طور پر اس نظام کو کس حد تک قبول کیا ہے اس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میرا تخمینہ یہ ہے کہ ایرانی معاشرہ پچھلی چھ سات دہائیوں سے افراط و تفریط کا شکار ہے۔ شاہ کے عہد میں مادر پدر آزادی تھی۔ تہران کے نائٹ کلب مشہور تھے‘ اور 1979ء سے ایران مکمل یو ٹرن لے کر دوسری سمت گامزن ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ ایران کے ایک طبقے کو موجودہ سیاسی نظام پر تحفظات ہیں۔
ظاہری سی بات ہے کہ ایک حاکم لمبا عرصہ اقتدار میں رہے تو لوگ چاہتے ہیں کہ اب کوئی نیا حکمران آئے۔ اس مرتبہ غیر فارسی علاقوں میں مظاہروں کی شدت زیادہ تھی۔ ایران کی تقریباً پچیس فیصد آبادی بلوچستان، ایرانی آذر بائیجان اور ایرانی کردستان میں رہتی ہے۔ ان لوگوں کو اعتراض رہتا ہے کہ انہیں بہت کم خود مختاری حاصل ہے اور چھوٹے سے چھوٹے فیصلے تہران میں ہوتے ہیں۔
ایرانی لیڈر شپ نے فوری طور پر انگلی امریکہ اسرائیل اور ایک خلیجی ملک پر اٹھائی ہے اور کہا ہے کہ یہ تینوں ممالک حالیہ مظاہروں کے پیچھے ہیں۔ بیرونی خفیہ ایجنسیاں اتنی صفائی سے یہ کام کرتی ہیں کہ ان کا کھرا یا نشان ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے؛ البتہ ایک بات یقینی ہے کہ مچھیرا گدلے پانی میں اپنا جال شوق سے ڈالتا ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایران میں پانی کس نے گدلا کیا ہے؟ آیا اس میں ان تین ملکوں کا بھی حصہ ہے؟ سب سے زیادہ ہلاکتیں کرمان شاہ، ازمیر اور ایرانی کردستان میں ہوئی ہیں۔ یہاں بینک، پٹرول پمپ اور باسیج (مسلح فورسز) کے دفاتر نذر آتش کر دیئے گئے ہیں۔ عراق کے ساتھ بارڈر پوسٹ کئی دنوں تک بند رہی۔ عراق میں بذات خود حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال لبنان میں بھی رہی۔ یاد رہے کہ یہ دونوں ممالک ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ تو کیا مڈل ایسٹ میں دوسرا عرب سپرنگ ظہور پذیر ہو رہا ہے جس کا فوکس اس بار ایران اور ایران دوست ممالک ہیں؟ اس موضوع پر مزید بحث اور ریسرچ کی ضرورت ہے۔ فی الحال اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
صدر حسن روحانی کے تحت معتدل مزاج قیادت کا خیال تھا کہ امریکہ کے ساتھ معاملات بہتر ہوںگے تو ایران کی معاشی صورت حال بدل جائے گی۔ اوباما کے عہد میں انہیں کامیابی ملی لیکن صدر ٹرمپ نے نیو کلیئر معاہدہ ہی منسوخ کر دیا اور ایران کے اقتصادی حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ ایران کو نامعلوم کس کی نظر لگ گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں