"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی عہد ساز شخصیات …2

پاکستان میں خوش قسمتی سے ایسی متعدد شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے ملک کا ملائم چہرہ (Soft Image) دنیا میں اجاگر کیا۔ عبدالحفیظ کاردار نے لاہور میں تعلیم حاصل کی اور پھر انگلینڈ اعلیٰ تعلیم کے لئے گئے۔ صرف تین کھلاڑیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں کی ٹیسٹ کرکٹ میں نمائندگی کی‘ کاردار اُن میں سے ایک تھے۔کاردار کرکٹ کے اوسط درجے کے کھلاڑی تھے‘ لیکن ان کی قائدانہ صلاحیتیں بے پناہ تھیں۔1954ء میں پاکستان کی ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو کاردار کپتان تھے۔ اس ٹیم میں حنیف محمد اور فضل محمود کے علاوہ کوئی بڑا کھلاڑی نہیں تھا۔ انگلینڈ کرکٹ کی جنم بھومی ہے‘ اوول کے میدان میں پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کو ہرا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ پاکستانی کرکٹ کے بچپن کا زمانہ تھا ‘ پوری دنیا میں یہ تاثر تھا کہ جیسے ایک غیر معروف نوجوان پہلوان نے رستم زماں کو چت کر دیا ہو۔ پاکستان کرکٹ کی دنیا کے نقشے پر پوری شان و شوکت سے نمودار ہوا۔ کاردار کی ذوالفقار علی بھٹو سے یونیورسٹی کے زمانے سے دوستی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بھٹو کی کرکٹ کے بارے میں معلومات مجھ سے زیادہ ہیں۔ 1970ء کے الیکشن میں کاردار صاحب کو لاہور کے ایک حلقے سے صوبائی اسمبلی کے لیے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملا۔ ان کے لیے سیاست بالکل نیا میدان تھا۔ انتخابی مہم کے دوران ایک روز ان کے سپورٹرز نے جلسے کابندوبست کیا‘ جب کاردار وہاں پہنچے تو سو دو سو سے زائد لوگ نہیں تھے۔ کاردار پرسکون رہے‘ جلسے سے خطاب کیا اور اعلان کر دیا کہ اب ہم ڈور ٹو ڈور جائیں گے۔ سنت نگر اور کرشن نگر کی گلیاں مڈل کلاس کا گنجان آباد علاقہ ہے۔ کاردار صاحب نے ہر دروازے پر دستک دی۔ اکثر لوگ اتنے بڑے شخص کو اپنے گھر کے باہر دیکھ کر خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے۔ کاردار نے یہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا‘ صوبائی وزیر بنے اور بعد میں سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر رہے‘ لیکن ان سب کامیابیوں کے باوجود ان کی اصل وجۂ شہرت کرکٹ کے حوالے سے ہے اور انہیں پاکستان کا بابائے کرکٹ کہا جا سکتا ہے ۔
ہماری ستر سالہ ادبی تاریخ میں سب سے روشن نام فیض صاحب کا ہے۔ فیض احمد فیض اور علامہ اقبال میں کئی چیزیں مشترک ہیں ‘دونوں کا تعلق سیالکوٹ کے مردم خیز ضلع سے تھا‘ دونوں مولوی سید میر حسن کے شاگرد رہے‘ دونوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے۔ ان میں سے ہر ایک کو انگریزی‘ عربی‘ فارسی اور اُردو پر مکمل دسترس تھی۔ دونوں کے کلام میں ترقی پسند نظمیں ملتی ہیں‘ دونوں مزدور اور کسان کے حقوق کے حامی تھے۔فیض صاحب کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ تلخ سے تلخ شکایت بھی رومانوی انداز میں کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے متعدد پہلو ہیں جن میں بظاہر تضاد بھی نظر آتا ہے۔ کئی نقاد انہیں کیمونسٹ سمجھتے رہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا۔ حیدر آباد جیل میں اپنے ساتھی قیدیوں کو درس ِقرآن دیتے رہے۔ عربی زبان میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے تھے۔ شروع میں ترقی پسند ادبی تحریک میں شریک ہوئے‘ اس تحریک میں سوشلسٹ ادیب اور روشن خیال لکھاری بڑی تعداد میں شامل تھے۔ سب کا ایک نقطے پر اتفاق تھا کہ لکھنے کا مقصد انسانی زندگی کی بہتری ہونا چاہیے۔ بعد میں فیض صاحب نے ترقی پسندی سے علیحدگی اختیار کر لی‘ وجہ یہ تھی کہ ترقی پسند ادیبوں میں سے کئی ایک علامہ اقبال پر تنقید کرتے اور انہیں رجعت پسند تصور کرتے تھے‘ فیض صاحب اس نقطہ نظر کے مخالف تھے۔
پاکستان ٹائمز شروع میں بائیں بازو کا اخبار ہوا کرتا تھا اور فیض صاحب اس کے ایڈیٹر تھے۔وہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے حامی تھے۔ جب راولپنڈی سازش کیس بنا تو فیض صاحب بھی گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ قید میں مکمل یکسوئی سے لاجواب شاعری کی‘ جو آج بھی بے حد مقبول ہے۔ جب روزنِ زندان کی روشنی بجھ جاتی ہے تو شاعر کو گمان ہوتا ہے کہ ساری کی ساری روشنی اور نور اُس کی محبوبہ کے چہرے کا جمال بن گیا ہے‘ اور فیض کا محبوب ان کا وطن تھا۔
1950ء کی دہائی میں فیض پاکستان میں معتوب رہے۔1947ء کے حوالے سے مشہور زمانہ نظم'' یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ کے مطلع سے شروع کی تو انڈین سیاسی اور ادبی حلقے یہ سوچ کر بغلیں بجانے لگے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شاعر نے تقسیم ہند کی نفی کر دی ہے۔ انڈین سفارت خانے یوم فیض کی تقریب باقاعدگی سے کرنے لگے‘ اندرا گاندھی نے فیض صاحب کو انڈین شہریت آفر کی اور علی گڑھ یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ بھی ‘لیکن فیض صاحب نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا‘ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں انڈیا اور پاکستان دونوں سے محبت تھی۔ وہ دونوں کے مابین امن چاہتے تھے ۔ ایک دفعہ انہیں وضاحب کے لیے کہا گیا تو جواب دیا کہ انڈیا میری محبوبہ ہے اور پاکستان میری منکوحہ‘ میں دونوں میں سے کسی کونہیں چھوڑ سکتا۔شاید آج فیض زندہ ہوتے تو جواب مختلف ہوتا‘ کیونکہ ان کی ''محبوبہ ‘‘کے اطوار یکسر بدل چکے ہیں‘ وہاں نہ سیکولرازم سلامت رہا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق۔ بہرحال اپنی زندگی میں فیض صاحب انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن اور آشتی کا پرچار کرتے رہے۔ سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا ۔
خدمت انسانیت میں پاکستان کا سب سے بڑا نام عبدالستار ایدھی صاحب کا ہے۔ ایدھی صاحب گجرات کاٹھیا واڑ کی ایک میمن فیملی میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں کراچی آ گئے۔ کراچی میں کپڑے کے ہول سیل کاروبار سے منسلک رہے اور ساتھ ہی غریب لوگوں کے لیے فری ڈسپنسری کھولی ۔بچپن میں سکول روانہ کرتے وقت ان کی والدہ انہیں دو پیسے دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ایک پیسہ خود خرچ کر لینا اور ایک غریب بچے کو دے دینا ‘اس طرح غریبوں کی مدد کا جذبہ بچپن ہی سے انہیں والدہ کی طرف سے ملا۔آج پوری دنیا ایدھی فائونڈیشن اور بلقیس ایدھی ٹرسٹ کے نام سے واقف ہے۔ اس ایک شخص نے متعدد یتیم خانے اور بے سہارا خواتین کے لیے کئی دارالامان قائم کئے۔ ایدھی فائونڈیشن 1800 ایمبولینس چلاتی ہے اور اپنی نوعیت کی پوری دنیا میں سب سے بڑی سروس ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیس ہزار بچوں نے مختلف سکولوں اور دیگر اداروں میں ایدھی صاحب کو اپنا گارڈین ڈیکلیئر کیا ہے۔ ایدھی صاحب نے لاوارث میتوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیا وہ‘ بے شمار بے آسرا لوگوں کا سہارابنے۔ بی بی سی اُردو سروس نے اپنے ایک پروگرام میں انہیں پاکستان کا سب سے قابلِ احترام شخص قرار دیا تھا۔ ایدھی صاحب کو درجنوں قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ ملے‘ ان کی خدمات نے پوری دنیا کو مستفید کیا۔امریکہ میں قطرینا( Katrina )نامی سمندری طوفان آیا تو ایدھی فائونڈیشن نے وہاں ایک لاکھ ڈالر بھیجے۔ 2016ء میں ایدھی صاحب نے وفات پائی تو انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
ایدھی صاحب کو پاکستان کا مدر ٹریسا بھی کہا گیا۔ ان کا سارے کا سارا فلاح و بہبود کا نظام پرائیویٹ چندوں پر چلتا تھا۔ لوگ انہیں فراخدلی سے صدقے‘ خیرات‘ زکوٰۃ کا پیسہ دیتے تھے ‘اس لیے کہ انہیں یقین تھا کہ یہ پیسہ ایمانداری سے خرچ ہو گا۔ اس عظیم شخص کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے اور دو چپل تھے‘ وہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے‘ لوگ انہیں کروڑوں نہیں اربوں دیتے تھے‘ ایدھی فائونڈیشن کی ہر دل عزیزی کی وجہ مکمل شفافیت ہے۔ میں عیدالاضحی پر قربانی کے پیسے ایدھی فائونڈیشن میں جمع کراتا ہوں‘ ہر قربانی کی علیحدہ رسید ملتی ہے۔ ایک رسید اور لفافہ فالتو ملتا ہے کہ ڈاک کے ذریعے فائونڈیشن کو کراچی بھیج دیں۔ قربانی کے گوشت کا ایک تہائی حصہ لینا ہو تو تفاصیل بتائی جاتی ہیں۔ ہر کام شفافیت اور سلیقے سے ہوتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ محترمہ بلقیس ایدھی اور فیصل ایدھی اس نیک کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایدھی صاحب نے اپنی ساٹھ سالہ خدمتِ خلق سے پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا اور بہت بڑا اور فعال ادارہ چھوڑ کر گئے۔ (جاری ہے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں