"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی عہد ساز شخصیات…(3)

حالیہ کالموں کی تمام شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے ادارہ سازی کی ہے اور ان کے کارنامے آج بھی زندہ ہیں۔ پاکستان کی مادی اور فکری ترقی میں ان کا کردار لازوال ہے۔ یہ لوگ ہمیں ذہنی بالیدگی دے گئے۔ پاکستان کیلئے وجہ شہرت بنے۔ اس قبیل میں ایک بہت بڑا نام اسلم اظہر کا ہے۔ انہیں پاکستان کا بابائے ٹیلی ویژن کہا جا سکتا ہے۔ ٹیلی ویژن آج ہماری زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے۔ ہر شام ہم ٹاک شوز دیکھتے ہیں یا من پسند ڈرامہ سیریل۔ 1964 میں صدر ایوب کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ جادو کا یہ ڈبہ Magic Box پاکستان میں متعارف کرایا جائے۔ حکومت نے اس میں یہ مفاد دیکھا کہ اس کے ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر گھر گھر پہنچے گی۔ جاپان کی Nippon Electric Company کو کہا گیا کہ وہ لاہور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کے لان میں ایک عارضی ٹی وی سٹیشن لگائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ تجربہ کامیاب ہوا تو رقم کی ادائیگی ہوگی ورنہ پراجیکٹ ختم۔ اسلم اظہر صاحب کو اس ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس منصب کیلئے ان کا انتخاب خود صدر ایوب خان نے کیا تھا کیونکہ اسلم اظہر تھیٹر اور براڈ کاسٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔
اسلم اظہر نے اشفاق احمد اور ڈاکٹر انور سجاد جیسے لکھاریوں سے ٹی وی ڈرامے لکھوائے۔ قوی خان اور شعیب ہاشمی جیسے اداکار متعارف کرائے۔ نوجوان طالب علموں کیلئے معلوماتی سوالناموں کے پروگرام پیش کئے۔ سائیں اختر اور طفیل نیازی نے لوک گیت گا کر ٹی وی کو چار چاند لگا دئیے۔ ٹاہلی تھلے جیسا مقبول سیریل بناکر شہری بابوئوں کو دیہاتی زندگی کے متعدد رخ دکھائے۔ خدا کی بستی جیسے مقبول ڈرامے پیش کئے۔ پاکستان ٹی وی کے شاندار آغاز اور ترقی میں اسلم اظہر کا کلیدی رول تھا اور پھر یہ بھی ہوا کہ پاکستانی ٹی وی ڈرامے انڈیا کے تربیتی اداروں میں دکھائے گئے۔
اسلم اظہر نے لاہور کے بعد کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور میں پی ٹی وی سٹیشن بنوائے۔ 1970 کے الیکشن کی پی ٹی وی نے طویل دورانیے کی کوریج سے سب کو حیران کر دیا کیونکہ پی ٹی وی کے مالی اور تکنیکی وسائل بڑے محدود تھے۔ پی ٹی وی کے ورکرز میں اسلم اظہر بے حد مقبول تھے۔ وہ مساوات پر یقین رکھتے تھے اور یونین کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب پی ٹی وی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر کی عمارت بنی تو سب سے پہلا ائیر کنڈیشنر چیئرمین کے آفس میں لگا۔ اسلم اظہر نے وہ اے سی اتارنے کا حکم دیا اور کہا کہ میرے آفس میں اے سی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہی لگے گا۔ یہی وجہ تھی کہ پی ٹی وی نے محدود وسائل کے باوجود شاندار کامیابیاں سمیٹیں اور اس طرح پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی مضبوط بنیاد رکھی گئی۔
ائیر مارشل نور خان کی بطور ائیرچیف یا منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے کامیابیاں پڑھیں تو یہ شخص دیو مالائی مخلوق لگتا ہے۔ ضلع اٹک کے گائوں ٹمن کا رہنے والا یہ عظیم منتظم پاکستان ہاکی اور سکواش کو بھی اوج ثریا تک لے گیا۔ 1941 میں رائل انڈین ائیر فورس میں کمیشن حاصل کیا اور برما فرنٹ پر دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا۔ 1947 میں پاکستان کا انتخاب کیا اور 1965 کی جنگ سے ذرا پہلے ائیرچیف بنے۔ اس سے پہلے چھ سال تک پی آئی اے کے ہیڈ رہے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت پی آئی اے دنیا کی صف اول کی ائیر لائنز میں شمار ہوئی۔ 1973 میں انہیں دوبارہ پی آئی اے کا ہیڈ لگایا گیا۔ اپنے پہلے عہد میں بوئنگ 720 ہوائی بیڑے میں شامل کیا۔ دوسرے عہد میں ڈی سی ٹین اور بوئنگ 747 متعارف کرائے۔ ائیر لائن کو خالصتاً کمرشل لائن پر چلایا اور سیاست سے دور رکھا۔ پی آئی اے کی وقت کی پابندی مثالی تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے۔ وہ کراچی کسی اہم میٹنگ کیلئے گئے۔ انہیں چار بجے کی فلائٹ سے واپس اسلام آباد ضروری جانا تھا۔ میٹنگ طول پکڑ گئی۔ وزیراعظم نے ائیر مارشل کو پیغام بھیجا کہ چار بجے والی فلائٹ کو روکا جائے۔ نور خان کا جواب تھا کہ پی آئی اے کی پروازیں وقت پر اڑتی ہیں اور وقت پر لینڈ کرتی ہیں۔ بھٹو اگلی فلائٹ تک کراچی رک نہیں سکتے تھے۔ میٹنگ جلدی جلدی ختم کی اور بھاگے بھاگے کراچی ائیرپورٹ آئے۔ ائیر مارشل انہیں خدا حافظ کہنے کیلئے ائیرپورٹ پر موجود تھے۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بھٹو صاحب نے ائیر مارشل سے مصافحہ کیا اور کہا کہ مجھے علم تھا کہ تم ایسا ہی کرو گے۔
اور اب ذکر ہو جائے ائیر مارشل نور خان کی بہادری کا۔ ائیرچیف کیلئے خود جنگ میں حصہ لینا ضروری نہیں ہوتا مگر موصوف نے 1965 کی جنگ میں خود جہاز اڑائے لہٰذا پاکستان ائیر فورس کا جذبہ دیدنی تھا۔ پہلے چوبیس گھنٹوں میں ہمیں ہوائی برتری حاصل ہو گئی۔ 1978 میں ائیر مارشل پی آئی اے کے ہیڈ تھے تو کراچی ائیرپورٹ پر ایک ہائی جیکر نے ائیر لائن کے جہاز پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ اس نے کپتان کو کہا کہ جہاز کو انڈیا لے جائے۔ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ائیر مارشل بذات خود جہاز پر گئے۔ ہائی جیکر سے باتیں کرتے رہے اور پھر یکدم جھپٹے اور ہائی جیکر کو دبوچ لیا۔ نور خان ہاکی فیڈریشن کے سربراہ تھے تو پاکستان نے اولمپک گولڈ میڈل جیتا۔ چیمپئنز ٹرافی اور ورلڈکپ جیتے۔ سکواش کے کھیل نے بھی ان کی سرپرستی میں بے پناہ ترقی کی۔ پاکستان سالوں تک عالمی چیمپئن رہا۔ ان کی نگاہِ انتخاب جب جہانگیر خان اور قمر زمان پڑی تو وہ ابتدائی مرحلے میں تھے۔ نورخان نے ان کی تربیت کا خاص بندوبست کیا اور دونوں کھلاڑی بین الاقوامی کامیابیاں سالوں تک سمیٹتے رہے۔ پاکستان کا نام روشن کرتے رہے۔ پاکستان کے دفاع اور سپورٹس کی تاریخ ائیر مارشل نور خان کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ قومی ائیر لائن کی آج کی زبوں حالی کے دور میں مجھے وہ اور بھی یاد آتے ہیں۔
پاکستان کی سفارت کاری میں سب سے نمایاں نام آغا شاہی صاحب کا ہے۔ مقابلے کا امتحان دے کر انڈین سول سروس میں آئے۔ 1947 میں پاکستان کا انتخاب کیا۔ 1951 میں سول سروس چھوڑ کر فارن سروس جوائن کی۔ پاکستان اور چین میں قربتیں بڑھانے میں آغا شاہی کا کلیدی رول رہا۔ جب چین کو سلامتی کونسل میں دائمی سیٹ ملی تو آغا شاہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ انہوں نے چین کی خود حمایت کی اور دوسرے ممالک کی بھی تائید حاصل کی۔ 1971 کی جنگ کے بعد انڈیا چاہتا تھا کہ وہ جنگی قیدیوں کا کارڈ استعمال کرکے پاکستان کو مجبور کرے کہ وہ مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنا ہمیشہ کیلئے بند کر دے۔ آغا شاہی نے چین کی حمایت سے انڈیا کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔ ہمارے جنگی قیدی بھی واپس آئے اور مسئلہ کشمیر بھی زندہ رہا۔ آغا شاہی جنرل ضیاء الحق کی پہلی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔ وہ جنرل صاحب کو کہتے رہے کہ امریکہ سے ہاتھ ضرور ملائو مگر زیادہ پرجوش معانقہ نہ کرو۔ جنرل صاحب نے ان کی بات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور 1982 میں شاہی صاحب خود مستعفی ہو گئے۔
ہماری اقتصادی منصوبہ بندی میں ڈاکٹر محبوب الحق اور ایم ایم احمد کا بنیادی رول تھا۔ یہ لوگ اپنے کام میں ایسے ماہر تھے کہ ہمارے ابتدائی پانچ سالہ منصوبے کوریا جیسے ملک کے لئے قابل رشک ٹھہرے۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں ہماری سول سروس اعلیٰ پائے کی تھی۔ گورننس شاندار تھی۔ اس سول سروس کا ایک بھولا بسرا نام جناب ظفرالاحسن کا ہے۔ 1947 میں آزادی کے وقت ظفر صاحب لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ شہر میں ہر جانب لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ متعدد عمارتیں جل چکی تھیں۔ مہاجرین کی ازسر نو آباد کاری کا کام بھی ظفر صاحب کو دیا گیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کام بخوبی سرانجام دیا بلکہ گلبرگ اور سمن آباد کی نئی بستیاں بھی آباد کیں۔ پھر تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین بنے اور ریگستان کو گل و گلزار بنا دیا۔ قائد آباد‘ جوہر آباد اور لیاقت آباد نامی نئے شہر بسائے۔
بات سید بابرعلی سے شروع ہوئی تھی۔ اس ایک عظیم شخص نے پیکجز انڈسٹری لگائی۔ آئی جی آئی انشورنس کمپنی بنائی۔ لاہور کی مشہور یونیورسٹی لمز بنائی۔ تیس سال سے زیادہ عرصہ ورلڈ وائلڈ لائف پاکستان کے ہیڈ رہے۔ ان کی پیکجز مال Packages Mall نے لاہور کٰ کمرشل زندگی کو نئی جہت دی ہے اور ایسے کئی اور بھی اشخاص ہیں جو کل عہد ساز کہلائیں گے۔ میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے قطعاً مایوس نہیں۔ کئی لوگ ظلمتِ شب پر رونے کی بجائے اپنے حصے کی شمعیں جلا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں