"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا میں شاندار مزاحمت

پچھلے سال کے عام انتخابات میں بی جے پی نے ہندوتوا کے سہارے واضح کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلمان مخالف خیالات اور پاکستان مخالف نعرے ہندوتوا کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔ الیکشن میں کامیابی نے بی جے پی کو بہت اعتماد دیا اور اب وہ ہندوتوا کو عملی شکل دینے کے لیے مکمل طور پر تیار نظر آئی۔ آغاز جموں اور کشمیر میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35-A منسوخ کر کے کیا گیا۔ کشمیری عوام اور لیڈر شپ میں اضطراب کی کیفیت دیکھ کر وہاں کرفیو لگایا گیا اور وہاں حالاتِ زندگی ابھی تک نارمل نہیں ہوئے۔ وہ کشمیری لیڈر بھی جو ایک زمانے میں انڈیا کے حامی تھے‘ اپنے گھروں میں نظر بند ہیں‘ لیکن بہادر کشمیری نوجوان کرفیو کی پروا کئے بغیر باہر نکلے ہیں اور شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔
کشمیر کو آئینی خود مختاری پنڈت نہرو اور سردار پٹیل جیسے لیڈروں نے دی تھی‘ مگر بی جے پی کی نظر میں یہ بے ضرر اٹانومی بھی کھٹک رہی تھی۔ جب پانچ اگست کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام سے پوچھے بغیر ان کے مستقبل کا بڑا فیصلہ کر دیا گیا تو مودی سرکار کے مذموم عزائم کھل کر سامنے آ گئے۔دوسری جانب شہریت کے ترمیم شدہ قانون کے تحت پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان سے انڈیا آنے والے پناہ گزینوں کو مذہبی بنیادوں پر پرکھا جائے گا۔ ان تین ممالک سے اگر کوئی مسلمان انڈیا میں پناہ کی اپیل کرے گا تو وہ فوراً ریجیکٹ کر دی جائے گی اس لیے کہ مودی سرکار کو اس کا دھرم ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوگی‘بھارت کی موجودہ آبادی کی بھی شہریت کے اعتبار سے جانچ پڑتال ہو سکتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک قومی شہریت رجسٹر یا ریکارڈ رکھا جائے گا تا کہ مشکوک لوگوں کو انڈیا سے نکالنے کی راہ ہموار کی جائے اور یہ مشکوک لوگ اکثر و بیشتر بھارت کی ریاست آسام میں پائے جاتے ہیں۔ان میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں‘ جو بنگلہ دیش سے ہیں اور محنت مزدوری کے لیے انڈیا میں رہتے ہیں۔ مودی سرکار ان میں سے صرف غیر مسلموں کو رکھنا چاہتی ہے‘ بلکہ اسی غرض سے نیا قانون وضع کیا گیا ہے۔ لیکن انڈیا کے لبرل اور سیکولر طبقے نئے قانون کو انڈین دستور سے متصادم تصور کرتے ہیں۔
اس نئے قانون کے خلاف سب سے پہلا احتجاج آسام میں ہوا جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی بھاجپا کے خیالات مودی سرکار سے مختلف ہیں۔ آسام کی صوبائی سرکار کا کہنا ہے کہ کیا مسلمان اور کیا ہندو ‘جو بھی بنگلہ دیش سے آیا ہے اُسے واپس جانا چاہیے۔ وہاں کی حکومت بنگالی ہندو کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں اور دلیل یہ ہے کہ بنگالی پناہ گزین آسامی کلچر کے لیے خطرہ ہیں۔آسام کے بعد مظاہرے ممبئی‘ بنگلور اور چندی گڑھ تک پہنچے اور پچھلے دو ماہ سے دہلی میں شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اس مزاحمت کے اہم مراکز ہیں۔ انڈین سکیورٹی سے متعلق اہل کار سویلین کپڑوں میں ان دونوں دانش گاہوں میں داخل ہوئے اور جو بھی سامنے آیا اس کی خوب پٹائی کی۔ جامعہ ملیہ کے زخمیوں میں کئی پروفیسر بھی شامل ہیں۔ جواہر لال یونیورسٹی ایک زمانے سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیکولر ذہن کے اساتذہ اور طلبہ کی آماجگاہ ہے ۔وہ لوگ اس نئے امتیازی قانون کو ماننے کو تیار نہیں۔ نیشنل سکیورٹی ایکٹ جیسا کالا قانون ‘جسے اگست میں جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا تھا‘ اب دہلی میں بھی نافذ ہے۔ اس قانون کے تحت سرکار اگر کسی شخص کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہو تو اسے گرفتار کر کے بغیر وجہ بتائے دس دن تک اپنی تحویل میں رکھ سکتی ہے اور پھر وجہ بتا کر ایک سال تک سرکاری مہمان بنا سکتی ہے۔ یہ قانون اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں بنا تھا۔
کچھ لوگوں کا تجزیہ ہے کہ احتجاج کی اصل وجوہات اقتصادی ہیں۔ جواہر لال یونیورسٹی میں دو ماہ قبل ہوسٹل کے کمروں کا کرایہ بڑھایا گیا ‘جو طلبا و طالبات کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔ لڑکے ‘ لڑکیاں کلاس چھوڑ کر حکومت مخالف نعرے لگانے لگے۔ بہت سے طلبہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جامعات سے فارغ التحصیل ہو کر نکلیں گے تو ہمیں جابز نہیں ملیں گی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دو تین سال پہلے انڈیا کی اکانومی آٹھ فیصد کے قریب سالانہ ترقی کر رہی تھی‘ آج اقتصادی ترقی کی رفتار پہلے سے کم ہے‘ لہٰذا بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اُبھرتا ہوا ہندوستان ( Rising India )اور حیران کن ہندوستان (Incredible India) کے نعرے اب قصۂ پارینہ ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی حیران کن ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں قابلِ ذکر کمی نہیں ہوئی۔ حالیہ سروے بتا رہے ہیں کہ اگر آج دوبارہ الیکشن ہوں تو بی جے پی کی مجموعی لوگ سبھا کی نشستوں میں صرف30 کی کمی ہوگی ‘جبکہ کانگریس صرف ساٹھ سیٹیں جیت پائے گی۔ دراصل آج کے انڈیا میں مزاحمت کا میدان نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے جو راہول گاندھی کو اپنا لیڈر ماننے کو تیار نہیں۔ اس صورتحال سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عام انڈین ہندو ووٹر ہندوتوا کے مسحور کن نعرے کے جال میں ابھی تک گرفتار ہے۔ 2000ء کی بات ہے امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے انڈیا کا سرکاری دورہ کیا اور انڈین قیادت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے دیش کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمان احساسِ محرومی کا شکار ہیں اور یہ بات انڈیا کی قومی سلامتی کیلئے اچھا شگون نہیں‘ مگر انڈین قیادت نے یہ بات سنی ان سنی کر دی۔
آج انٹرنیشنل میڈیا ببانگ دہل کہہ رہا ہے کہ انڈیا میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ مشہور برطانوی میگزین اکانومسٹ نے اپنی حالیہ اشاعت میں سرورق پر Intolerant Indiaکی سرخی لگائی ہے۔ مشہور ایکٹر نصیرالدین شاہ کا کہنا ہے کہ انڈیا میں بطور مسلمان زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اپنی بات کی تشریح میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے بار بار یقین دہانی کرانی پڑتی ہے کہ میں انڈیا کا وفادار ہوں۔ حال ہی میں انڈیا میں یوم جمہوریہ منایا گیا۔ کیرالہ میں رہنے والے میرے دوست جوائے رافیل نے فیس بک پر لکھا ہے کہ یومِ جمہوریہ کے روزغیر یقینی اور خوف کی فضا غالب تھی۔اور اب واپس آتے ہیں ریاست جموں و کشمیر کی جانب‘ جہاں آٹھ لاکھ انڈین فوجی تعینات ہیں۔ پوری ریاست فوجی چھائونی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ دہلی کا نامزد لیفٹیننٹ گورنر ستیاپال ملک بلا شرکت غیرے پوری ریاست کا حکمران ہے‘ جس سے لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ 5 اگست کے بعد چین دو مرتبہ کشمیر کا معاملہ سکیورٹی کونسل میں لے کر گیا ہے ‘لیکن وہاں کوئی واضح قرارداد پاس نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے دو تین عشروں میں دنیا میں انڈیا کا اثرو رسوخ بڑھا ہے۔بی جے پی کا واضح ایجنڈا ہے کہ پورے انڈیا میں غیر مسلم آبادی کو فروغ دیا جائے۔ شہریت کے ترمیم شدہ قانون کے تحت 2014ء سے پہلے آنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کے کیس ترجیحی بنیادوں پر نپٹائے جائیں گے۔ اس طرح بنگلہ دیش سے آئے ہوئے لاکھوں ہندو انڈیا کے شہری بن جائیں گے۔ کشمیر میں ہدف یہ ہے کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے اور فلسطین میں یہودی بستیوں کی طرز پر وادی میں ہندو بستیاں قائم کی جائیں‘اقتصادی ترقی کے نام پر کشمیر میں انڈین اور ملٹی نیشنل سرمایہ کاری ہوگی‘ہزاروں انڈین اور غیر ملکی کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے۔ کشمیری عوام کوان کے اپنے وطن میں ''ریڈ انڈین‘‘ بنا دیا جائے گا۔
اس دوران دہلی کا شاہین باغ مزاحمت کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے احتجاجیوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ خواتین کے علاوہ وکلا اور سٹوڈنٹ بھی آتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ انڈیا ایک ہندو راشٹر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں