"JDC" (space) message & send to 7575

سازشی نظریات

سازشی نظریہ انسانی سوچ کا پُرانا وتیرہ ہے۔ کسی کے گھر کوئی بڑی چوری ہو جائے یا بڑا ڈاکہ پڑ جائے تو وہ بغیر تحقیق کے فوراً سوچتا ہے‘ اس میں اُس کے بڑے دشمن یا حاسد رشتہ دار کا ہاتھ ضرور ہوگا۔ انٹرنیشنل لیول پر یہ سوچ دلچسپ قسم کے سازشی نظریات میں تبدیل ہو جاتی ہے مثلاً اسلامی دنیا میں کئی سال تک کہا جاتا رہا کہ نائن الیون دراصل یہودی سازش تھی اور اُس روز نیویارک کی دونوں فلک بوس عمارتوں میں کام کرنے والے یہودی چھٹی پر تھے۔ آج کل یہ سازشی تھیوری گردش کر رہی ہے کہ کورونا وائرس پھیلانے میں بل گیٹس کا ہاتھ ہے۔
ہم سب بچپن میں جِن پریوں کی کہانیاں سنتے ہیں۔ ان کہانیوں میں اکثر خوبرو بہادر شہزادہ یا نیک دل خوبصورت شہزادی کے خلاف سازش ضرور ہوتی ہے جسے بالآخر ناکامی ہوتی ہے۔ جراسک پارک فلم آپ کو یاد ہوگی۔ اگر وہ فلم یاد نہیں تو کنگ فو Kung Fu قسم کی فلمیں دیکھی ہوں گی اور اسی طرح جیمز بانڈ سیریز کی فلمیں‘ جن میں ہیرو ہمیشہ مافوق الفطرت ذہانت اور قوت رکھتا ہے۔ یہ سب کہانیاں ہماری روزمرہ کی زندگی سے ہٹ کر ہوتی ہیں لیکن ہم انہیں بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ جب ہیرو پچاس گز کی جست لگا کر دشمن کو زیر کرتا ہے تو ہمیں ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی تلخ حقیقتوں کو کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں۔ 
کورونا وائرس کے بارے میں یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کے پھیلائو میں اور خوف کی فضا قائم کرنے میں بل گیٹس کا ہاتھ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا کی آبادی کو کم کیا جائے۔ کورونا ویکسین بنائی جائے جو پولیو کے قطروں کی طرح ہر شخص کے لیے لازمی ہو۔ یہ ویکسین کورونا سے تو بچا لے گی لیکن یہ متعدد کئی اور امراض مثلاً کینسر کو فروغ دے گی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے ورلڈ آرگنائزیشن (WHO) کی مالی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا تو بل گیٹس نے فوراً مدد کی آفر کر دی۔ جب اس کی فنانسنگ سے بنی ہوئی ویکسین ساری دنیا میں مارکیٹ ہو گی تو بل گیٹس پھر سے دنیا کا امیر ترین شخص بن جائے گا۔ لیکن یہ تھیوری یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس ویکسین میں بہت ہی چھوٹی نینو چپ (Nano Chip) ڈالی جائے گی جو نظر بھی نہیں آئے گی۔ دنیا بھر میں فائیو جی کے ٹاور لگے ہوں گے۔ یہ ٹاور دو کام کریں گے۔ ایک تو ان کی شعاعوں سے کینسر پھیلے گا، لہٰذا آبادی کم ہو گی دوسرے یہ ٹاور لمحہ بہ لمحہ اس بات کی خبر دیں گے کہ کون سا شخص کہاں موجود ہے گویا سکیورٹی اداروں کو مشکوک اشخاص کی ٹریکنگ میں بڑی آسانی ہو جائے گی۔ کینسر اور دیگر امراض پھیلنے سے یورپ میں حکومتی ہیلتھ سسٹم جواب دے جائیں گے، لہٰذا ہیلتھ کیئر کا سارا نظام پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کے ہاتھ میں آ جائے گا جیسا کہ آج کل امریکہ میں ہے۔ یہ انشورنس کمپنیاں بل گیٹس جیسے متمول لوگوں کی ملکیت ہوں گی۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سازشی نظریات پسماندہ ممالک میں زیادہ مقبول ہیں‘ مگر مذکورہ بالا تھیوری تو امریکہ اور برطانیہ سے چلی ہے۔ ویسے یہ بات بڑی حد تک صحیح ہے کہ جس ملک میں شرح تعلیم کم ہو وہاں سازشی نظریات خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ تیسری دنیا میں مغربی ممالک کے مقابلے میں ٹائنٹیفک سوچ کی کمی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں اس قسم کے نظریات کی عمر لمبی ہوتی ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں آج بھی بہت سے لوگ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ نائن الیون سارے کا سارا ٹوپی ڈرامہ تھا یا یہودی سازش تھی کہ مسلمان ملک افغانستان پر حملہ کرنے کا جواز بنایا جائے۔
ترقی یافتہ ممالک میں سازشی نظریات کی عمر اس لیے کم ہوتی ہے کہ وہاں شرح تعلیم زیادہ ہے۔ لوگ سائنسی اور علمی بنیادوں پر سوچتے ہیں۔ وہاں حکومت اور کلیسا دو الگ اکائیاں ہیں۔ لوگ بھی جذباتیت سے ہٹ کر عقل پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے چند اخبار اور میگزین عام قاری کے لیے بڑی وقعت رکھتے ہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر کئی اینکر اور صحافی اپنا مقام پیدا کر چکے ہیں۔ ان کی رائے کو احترام سے سنا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کو غور سے پڑھا جاتا ہے۔ وہاں پر اہم مسئلہ پر کھل کر بحث ہوتی ہے۔ اگر سازشی نظریہ چل بھی جائے تو مختصر سے عرصے میں جیّد قسم کے اہل الرائے اسے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بل گیٹس کے بارے میں گھڑی ہوئی سازشی تھیوری کا بھی جلد ہی تیاپانچہ ہو جائے گا۔
ہمارے ہاں یہ تاثر بھی عام ہے کہ القاعدہ اور داعش امریکہ کی بنائی ہوئی تنظیمیں ہیں اور آج بھی امریکہ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ایبٹ آباد کا حملہ ٹوپی ڈرامہ تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن بہت پہلے مارا جا چکا تھا اور چند یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ آج بھی زندہ ہے۔ کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار عرب دنیا میں ابوبکر بغدادی کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے۔ 
ویسے میں یہ بتاتا چلوں کہ ضروری نہیں‘ ہر سازشی نظریہ سو فیصد غلط ہی ہو۔ مثلاً یاسر عرفات مرحوم کے بارے میں عرب دنیا میں یہ تاثر عام ہے کہ انہیں زہر دیا گیا اور زہر بھی وہ جو آہستہ آہستہ اثر دکھاتا ہے۔ ان کی وفات کے بعد مختلف سطح پر انکوائری ہوئی۔ الجزیرہ ٹی وی والوں نے ان کی بیوہ سے درخواست کی کہ مکمل ریکارڈ، میڈیکل رپورٹیں ان کے آخری دنوں میں زیر استعمال کپڑے سب مہیا کئے جائیں تاکہ غیر جانبدار انکوائری کرائی جا سکے۔ یہ تمام آئٹم الجزیرہ نے سوئٹزرلینڈ میں ایک لیبارٹری کو بھیجے۔ سات ماہ تک تحقیق ہوئی۔ جن عرب اور فرانسیسی ڈاکٹروں نے عرفات کا علاج کیا تھا ان کے انٹرویو کیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں زہر دیا گیا تھا‘ لیکن یہ بات آج تک معمہ ہے کہ زہر کس نے دیا۔
مڈل ایسٹ میں یہ سوچ عام ہے کہ عرب سپرنگ امریکہ کی شہ سے شروع ہوا۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ایک عرصے سے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت لانے کی باتیں کر رہے تھے۔ جب 2011ء میں شام میں حکومت مخالف تحریک شروع ہوئی تو صدر بشارالاسد نے فوراً امریکہ، اسرائیل اور چند خلیجی ممالک پر مداخلت کا الزام لگایا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ حکومت شام چونکہ فلسطینی حقوق کی حامی ہے لہٰذا اسے گرانے کی تیاری ہو رہی ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ دمشق کے تعلقات نہ تو الفتح کے ساتھ اچھے تھے اور نہ ہی حماس کے ساتھ۔ لیکن اس حقیقت کو بھی اگنور نہیں کیا جا سکتا کہ شروع میں بشارالاسد کے دشمنوں کی امریکہ نے حوصلہ افزائی ضرور کی لیکن 2014ء میں جونہی داعش پورے زور شور سے ابھری امریکہ نے شامی حکومت کی مخالفت میں کمی کر دی کیونکہ داعش اس کے لیے بڑا خطرہ تھی۔ لہٰذا یہ نظریہ بھی غلط ثابت ہو گیا کہ داعش کو امریکہ کی سرپرستی ہمیشہ حاصل رہی۔ اس پودے کی امریکہ نے شروع میں آبیاری ضرور کی مگر جب یہ تن آور درخت بن گیا تو امریکہ نے اسے کاٹنے میں دیر نہیں لگائی۔
میرے چند پڑھے لکھے دوست کہتے ہیں کہ پاکستان کے بارے سکرپٹ مغربی قوتوں نے عرصے سے لکھا ہوا ہے، ہم سب کٹھ پتلیاں ہیں۔ اس سکرپٹ پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ لغو بات ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر پاکستان مغربی ممالک کا بغل بچہ ہے تو وہ عشروں سے چین کے ساتھ دوستی کیسے نبھا رہا ہے؟ اگر پاکستان مغربی ممالک کے اشاروں کا منتظر ملک ہوتا تو اس نے تمام تر امریکی مخالفت کے باوجود اپنا ایٹمی پروگرام کیسے مکمل کر لیا؟ پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں مغرب مخالف سوچ کا ایک تاریخی پس منظر ضرور ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مغرب کے ہر اقدام کو سازش سمجھیں۔ مغرب کی سائنسی فکر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ایجادات سے ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں بھی آئی ہیں۔
میں یہ کہہ چکا ہوں کہ ہر سازشی نظریہ غلط بھی نہیں ہوتا۔ دراصل سازشی نظریات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے، مسلسل تحقیق درکار ہے۔ غیر جانبدار اور سائنٹیفک ذہن چاہیے اور ایسے ذہن ایسے معاشروں میں نشوونما پاتے جہاں ہر پالیسی اور ہر سوچ پر نکتۂ اعتراض اٹھانے کی آزادی ہو۔ جہاں تعلیم محض رٹنے رٹانے کا نام نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں