"JDC" (space) message & send to 7575

خلیجی ممالک سے پاکستانیوں کی واپسی

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کورونا وائرس سے خلیجی ممالک کی معیشت کو بھی دھچکا لگا ہے۔ کورونا کے علاوہ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمت نے واقعی جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے یعنی یک نہ شد دو شد۔ خلیجی ممالک میں سے اکثر نے اپنے بجٹ تیل کے ایک بیرل کی ساٹھ ڈالر قیمت فرض کر کے بنائے تھے۔ اب تیل کی عالمی قیمت مفروضہ قدر سے نصف رہ گئی ہے اور مستزاد یہ کہ اس قیمت پر بھی طلب میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ان حالات میں خلیجی ممالک میں معیشت کا سکڑنا ایک فطرتی عمل تھا اس خطے میں نہ کوئی انکم ٹیکس ہوتا تھا اور نہ ہی اشیائے فروخت پر کوئی سیلز ٹیکس۔ اس کے برعکس تمام بنیادی اشیائے ضرورت پر حکومتیں سبسڈی دیتی تھیں۔ امن و امان کی صورت اچھی تھی۔ جان و مال بڑی حد تک محفوظ تھے۔ عدالتوں سے ہر کسی کو انصاف ملتا تھا۔ تو چہ عجب کہ مشرق اور مغرب ہر جانب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے لے کر عام مزدور گلف ممالک میں کام کرنے کھنچے آتے تھے۔
اس وقت بیرون ملک پاکستانیوں کی کل تعداد تقریباً ساڑھے آٹھ ملین، یعنی پچاس لاکھ ہے۔ اور اس میں سے ساٹھ فیصد خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر میں بھی خلیجی ممالک کے پاکستانیوں کا حصہ بقدر جثہ رہا ہے۔ خلیج سے آنے والے سالانہ دس ارب سے زائد ڈالر ہماری معیشت کے لیے اہم آکسیجن فراہم کرتے رہے ہیں۔مگر اب صورتحال بدل رہی ہے۔ بیس ہزار کے قرب پاکستانی پچھلے دو ماہ میں خلیج سے واپس آ چکے ہیں اور ایک لاھ سے ذرا اوپر واپسی کے انتظار میں ہیں۔ جب جاب ختم ہو جائے تو انسان چاہتا ہے کہ پر لگا کر واپس وطن عزیز پہنچ جائے۔ ایسی صورتحال میں چہ عجب کہ دبئی میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل کے سامنے ہم وطنوں نے مظاہرہ کیا ہے کہ ہمیں جلد از جلد واپس پاکستان بھیجا جائے۔ اس ساری صورتحال کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ پچھلے دو ماہ میں ترسیلات زر بیس فیصد کم ہوئی ہیں۔
مگر اس وقت سب سے اہم بات خلیج سے پاکستانیوں کی واپسی ہے۔ کمرشل پروازیں بند ہیں۔ صرف سپیشل یا چارٹرڈ پروازیں چل رہی ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہوائی جہاز بڑی تعداد میں مہیا ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چند مستعد افسروں کی جدہ، ریاض، دمام، دبئی اور ابو ظہبی میں صرف اس کام کے لیے ڈیوٹی فوراً لگائی جائے اور انہیں تمام وسائل مہیا کیے جائیں اور اگر سفارتی مشنز کے پاس عملہ کم ہو تو پاکستان سے ایسے افسر جلد از جلد بھیجے جائیں جو ان ممالک میں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی کے فرائض سر انجام دے چکے ہوں۔ 
اس مناسبت سے مجھے 1990ء کا سال یاد آ رہا ہے، میں ریاض ایمبیسی میں میں منسٹر تھا۔ منسٹر کا عہدہ صرف بڑے سفارتخانوں میں ہوتا ہے اور یہ صاحب ایمبیسی میں سفیر کبیر کے بعد سینئر ترین افسر ہوتے ہیں۔ صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا اور ہر چیز کو تخت و تاراج کر کے رکھ دیا۔ کویت میں کاروبار تباہ ہو گئے۔ وہاں کام کرنے والے پاکستانی سعودی عرب اور اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ کوئی دس ہزار کے قریب ریاض پہنچے۔ ان میں کئی ایک فیملیز بھی شامل تھیں۔ ولی اللہ خان خویشگی اس وقت ریاض میں ہمارے سفیر تھے۔ بے حد محنتی، فرض شناس اور تجربہ کار انسان تھے۔ انہوں نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ دس ہزار لوگوں کو سنبھالنا اور انہیں پاکستان بھجوانے کے لیے اضافی افسر اور سٹاف کی ضرورت ہے چنانچہ شاہد عزیز صدیقی جو اس وقت جدہ میں ڈی جی حج تھے۔ انہیں فوری طور پر ریاض بلایا گیا۔ 
اللہ ان کی مغفرت کرے۔ صدیقی صاحب بڑے با صلاحیت افسر تھے۔ 1968ء کے سی ایس ایس کے امتحان میں متحدہ پاکستان میں اوّل آئے تھے۔ ان کا تعلق کراچی سے تھا۔ ڈی سی لاڑکانہ بھی رہے اور این ایچ اے کے چیئر مین بھی۔ جہاں بھی کام کیا اچھی شہرت پائی۔ صدیقی صاحب ریاض پہنچے تو سفیر صاحب نے پوچھا کہ آپ کو کتنے اضافی سٹاف کی ضرورت ہے۔ شاہد صاحب نے کہا : مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔ ریاض میں بہت سے با صلاحیت ، پڑھے لکھے پاکستانی رہتے ہیں۔ کئی ایک کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں میں ان میں سے ان لوگوں کو منتخب کروں گا جو رضا کارانہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں اور کمپیوٹر کا استعمال بخوبی جانتے ہوں۔
ان دنوں ریاض میں چار پانچ پاکستانی سکول تھے۔ موسم گرما کی چھٹیاں تھیں چنانچہ کویت سے آئے ہوئے تمام مہاجرین کو سکولوں میں ٹھہرایا گیا۔ بستروں اور چٹایوں کا بندوبست لوکل پاکستانی کمیونٹی نے کیا۔ کھانا مہیا کرنے کی ڈیوٹی چند پاکستانی ریسٹورنٹس کے ذمہ لگائی گئی۔ پاکستان سے یکے بعد دیگرے پی آئی اے کی کئی سپیشل فلائٹس آئیں اور دو تین ہفتوں میں دس ہزار شہری پاکستان واپس چلے گئے۔ یہ تھے وہ افسر جو ہمارے لئے باعث فخر تھے۔
مجھے یقین ہے کہ آج بھی اچھے افسروں کی کمی نہیں۔ مگر انہیں یہ کام منظم طریقے سے دن رات کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے فیملیز کو اور ان مفلس مزدوروں کو بھیجا جائے جنہیں کئی ہفتے سے جاب ختم ہونے کی وجہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ اس کے بعد تمام لوگوں کو باری باری یعنی رجسٹریشن کی ڈیٹ کے حساب سے بھیجا جائے۔ روزانہ تین سے پانچ سپیشل پروازیں گلف کے مختلف شہروں کو جانی چاہئیں۔ سفارت خانہ کو تمام پاکستانیوں سے رابطہ میں رہنا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ جو لوگ کورونا مثبت ہیں وہ تنہائی کی مدت وہاں مکمل کر کے ہی جہاز پر سوار ہوں ورنہ وہ پاکستان آ کر اپنے خاندانوں میں کورونا پھیلائیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ ہر مشکل مرحلے کا روشن پہلو بھی ہوتا ہے۔ شدید تاریکی میں بھی روشنی کی کرن نظر آ ہی جاتی ہے۔ بس کچھ صبر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاکستانی بھائی جو خلیجی ممالک سے آئیں گے اپنے ساتھ کچھ جمع پونجی بھی لائیں گے ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی مہارت بھی ہوگی۔ گلف میں پاکستانی ورکر زیادہ تر کنسٹرکشن اور ٹرانسپورٹ کی فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان میں کنسٹرکشن کا کام کر سکتے ہیں۔ گھر بنا کر بیچ سکتے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں گھر بنانے کی جو ٹیکنالوجی عرصے سے استعمال ہو رہی ہے اس میں گھر دو چار دن میں مکمل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائیں۔ جو لوگ وہاں الیکٹریشن یا پلمبر کا کام کرتے ہیں انہیں پاکستان میں فارغ بیٹھنا نہیں پڑے گا۔ بہتر ہوگا کہ سرکاری نوکریوں کے پیچھے نہ بھاگیں، اپنا کام آزادانہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کفیل سے جان چھڑا دی ہے تو مکمل آزادی کیوں نہ ہو۔
مڈل ایسٹ سے واپس آنے والوں میں کئی لوگ ایسے بھی ہونگے جو وہاں وائٹ کالر جاب کرتے تھے یعنی دفتروں میں کام یا اچھے پیمانے کا بزنس۔ مجھے علم ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر اور اکائونٹنٹ بڑی تعداد میں مڈل ایسٹ سے کینیڈا اور امریکہ شفٹ ہو چکے ہیں لیکن کئی ایک باقی بھی ہیں۔ یہ لوگ پاکستان آ کر اچھا خاصا کاروبار کر سکتے ہیں۔ اپنے کلینک کھول سکتے ہیں۔ ہسپتال بنا سکتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر فیکٹریاں لگا سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ انہیں بہت اچھی ایڈوائزری سروس مہیا کرے۔ مڈل ایسٹ میں بہت سے پاکستانی اس لئے بھی گئے تھے کہ وہاں نہ ہی ڈبل شاہ ہوتا ہے اور نہ بھتہ خور۔ یہاں بھی ہمیں ان لوگوں کی خریدی ہوئی پراپرٹی کو قبضہ مافیا سے بچانا ہوگا۔ اگر ابھی سے پلاننگ کی جائے تو مڈل ایسٹ سے واپس آنے والے ہماری معیشت کے لیے مفید ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں