"JDC" (space) message & send to 7575

انڈین ہمسائیگی کا بوجھ

پاکستان، چین، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش اور برما انڈیا کے ہمسایہ ممالک ہیں۔ ان میں سے اکثریت کے ساتھ انڈین تعلقات میں آج کل تنائو نظر آ رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ مودی سرکار کی زورآور یعنی Muscular فارن پالیسی ہے‘ جس کا بنیادی ہتھیار شو آف پاور ہے۔ یہی شو آف پاور ہمیں گزشتہ سال بالاکوٹ پر فضائی حملے میں نظر آیا اور حال ہی میں لداخ میں چین کے ساتھ فوجی جھڑپ میں بھی۔ یہ اور بات کہ دونوں بار انڈیا اپنے عسکری اہداف حاصل نہ کر پایا۔
بھارت کی ہمسائیگی میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک توسیع پسند ملک ہے جو اپنے ہمسایوں کو رعب اور دبدبے میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ کابل سے رنگون تک سارے ہمسائے اسے اپنا بڑا مانیں اور ہر اہم قدم انڈیا سے پوچھ کر اٹھائیں۔ انڈیا کا سٹریٹیجک گرو چانکیہ ہے جو ٹیکسلا یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ اس متنازع سٹریٹیجسٹ کا نظریہ یہ تھا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ لامحالہ تعلقات خراب رہنے کے واضح امکانات رہیں گے لہٰذا ہمسایہ ملک کے ہمسایوں سے دوستی بڑھانی چاہیے‘ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمسائے پر دو جانب سے دبائو آئے گا۔ اسی فارمولے کے تحت انڈیا کی کوشش رہتی ہے کہ کابل کی حکومت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی رہے۔ میں 1995ء میں جب بطور سفیر دوشنبے گیا تو ڈنمارک کا ایک جرنلسٹ انٹرویو کرنے آیا۔ تاجکستان اس وقت نیا نیا سول وار سے نکلا تھا اور بشمول پاکستان اور انڈیا وہاں کل نو سفارت خانے تھے۔ ڈینش صحافی کا پہلا سوال تھا کہ آپ کے تاجکستان میں سفارت خانہ کھولنے کی بڑی وجہ کیا ہے؟ میرا جواب تھا کہ تاجکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے صرف واخان کی تنگ سی پٹی دونوں ممالک کو علیحدہ کرتی ہے ورنہ چترال اور بدخشاں ساتھ ساتھ ہیں۔ ڈینش صحافی ہنس کر کہنے لگا کہ آپ سے پہلے میں انڈین سفیر کا انٹرویو کرکے آیا ہوں۔ اسی سوال کا جواب مجھے انڈین نے بھی یہی دیا کہ تاجکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ میں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس امر کا فیصلہ کشمیری عوام نے ابھی کرنا ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ‘ لہٰذا انڈین سفیر کی بات میں کوئی وزن نہیں۔ اس ساری کہانی سے انڈیا کے توسیعی ارادے نہ صرف ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ ارادے پُرانے ہیں۔
آج سے چار ہزار سال پہلے جب آریہ لوگ برصغیر آئے تو اپنے ساتھ ہندومت کے ابتدائی افکار لائے۔ بعد میں ہندو مت کی نشوونما وادیٔ سندھ میں ہوئی جس میں ہڑپہ اور موہنجوڈارو شامل تھے۔ لہٰذا 1947 میں جب پاکستان بنا تو بندوبست کے پیروکار واقعی سمجھے کہ گئوماتا کے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ 1971 میں انڈیا نے سوویت یونین کی مدد سے سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ برپا کیا تو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘ مگر اس بات میں وزن نہیں تھا کیونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں الحمدللہ قائم ہیں۔ انڈیا کی توسیعی خواہشات اب بھی برقرار ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے دور درشن مظفر آباد اور سکردو کے موسم کا حال بھی بتا رہا ہے۔ پاکستان میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص انڈین تخریبی کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ نئی غیر روایتی جنگ کا حصہ ہیں جو انڈیا نے پاکستان پر مسلط کی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں مداخلت ختم کرنے کا وعدہ انڈین سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے شرم الشیخ میں کیا تھا‘ لیکن انڈین عسکری قیادت اور میڈیا نے انہیں پالیسی بدلنے پر مجبور کیا اور اب 2014ء سے پاکستان مخالف نعرے اور امن دشمنی مودی سرکار کی بنیادی پالیسی ہے۔
گزشتہ سال پانچ اگست کو جب انڈیا نے کشمیر کو خود مختاری سے محروم کرکے خود میں ضم کر لیا تو وزیر داخلہ امیت شاہ کا بیان آیا کہ گلگت بلتستان اور اکسائے چن (Aksai chin) انڈیا کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کی سٹریٹیجک اہمیت سی پیک کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے۔ اکسائے چن لداخ اور سنکیانگ کے درمیان واقع علاقہ ہے جو عرصے سے چین کا حصہ ہے‘ مگر انڈیا اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ چین اور انڈیا کے درمیان بارڈر تقریباً چار ہزار کلومیٹر لمبا اور انتہائی دشوار گزار ہے۔ برطانوی دور میں مختلف نقشے بنے جس سے صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ بہرحال تبت اور اکسائے چن پر عرصے سے چین کا مکمل کنٹرول ہے۔ تبت میں بھی انڈیا ایک عرصے سے باغیوں کو اکساتا رہا ہے۔ دلائی لامہ کئی سالوں سے انڈیا میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ دریائے گلوان لداخ اور اکسائے چن کے درمیان سے گزرتا ہے اور حالیہ جھڑپیں وادی گلوان میں ہوئی ہیں۔ کچھ عرصے سے دونوں جانب سے فوجی کمانڈروں میں مفاہمت تھی کہ کسی جھڑپ میں بندوق اور توپ خانے کا استعمال نہیں ہوگا۔ چینی فوج نے اس مفاہمت پر عمل کیا‘ لیکن روایتی دستی ہتھیاروں سے انڈین فوجیوں کو بہت مارا بھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بڑی ہزیمت کے بعد نریندر مودی نے بیان دیا کہ چین ہمارے کسی علاقے پر قابض نہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انڈیا نے چینی علاقے میں داخل اندازی کی اور منہ کی کھائی۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اقتصادی اور عسکری لحاظ سے انڈیا سے کہیں زیادہ پاور فل ہے۔ چین کی فی کس آمدنی انڈیا سے چار گنا ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ 228 ارب ڈالر ہے جبکہ انڈیا کا عسکری بجٹ ساٹھ ارب ڈالر ہے۔ چین سپر پاور بننے کے قریب ہے جبکہ انڈیا اس ہدف سے ابھی خاصا پیچھے ہے۔ لہٰذا انڈیا چین اور پاکستان سے بہت مختلف انداز میں بات کرتا ہے۔ چین کے ساتھ معاملات میں ہوش سے کام لیتا ہے تو پاکستان کے ساتھ اس پر جوش غالب آ جاتا ہے‘ مگر پھر بھی مجھے آئندہ سالوں میں چائنا، انڈیا تعلقات میں تنائو نظر آتا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ انڈیا کے امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں اور سائوتھ چائنا سی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی بھی ہے جس کی وجہ سے سی پیک کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔
نیپال دنیا کی اکلوتی ہندو ریاست ہے مگر اس کے ساتھ بھی انڈیا کا سرحدی تنازعہ ہے۔ کالا پانی نیپالی علاقہ ہے جس پر انڈیا قابض ہے۔ دوسری جانب نیپال اور چین کے تعلقات میں خاصی گرمجوشی نظر آ رہی ہے۔ پچھلے دنوں نیپال نے ایک سرکاری سرحدی نقشہ جاری کیا‘ جس میں کالا پانی کو اس نے اپنا علاقہ دکھایا ہے۔ نیپال نے انڈیا کے سو روپے سے بڑے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کوہ ہمالیہ میں سرنگیں بناکر چین اور نیپال کو ریلوے لائن سے ملا دیا گیا ہے۔ اب لگتا ہے کہ نیپال بھی انڈیا کے اشاروں پر نہیں چلے گا۔ اور تو اور اس مرتبہ چین انڈیا جھڑپ ہوئی تو بھوٹان نے بھی چین مخالف بیان نہیں دیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کشمیر کو ضم کرنے کے فوراً بعد انڈیا نے شہریت سے متعلق دو قوانین بنائے تھے۔ ایک قانون تو یہ تھا کہ اگر کوئی نان انڈین ہندوستانی شہریت کا خواہش مند ہو تو اس کی درخواست پر غور ہوگا بشرطیکہ وہ مسلمان نہ ہو اور دوسرا قانون شہریت کے نیشنل رجسٹر کے بارے میں تھا کہ تمام باہر سے آئے ہوئے لوگ اپنی شہریت ثابت کریں ورنہ انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ اس بل کے خلاف بنگلہ دیش میں بہت مظاہرے ہوئے۔ وزیر اعظم مودی نے مارچ میں شیخ مجیب الرحمن کی پیدائش کی صد سالہ تقریباً کے لیے ڈھاکہ جانا تھا لیکن خفت سے بچنے کے لیے بنگلہ دیشی حکومت نے کورونا کا بہانہ بنا کر تقریبات منسوخ کر دیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً دو ملین بنگلہ دیشی ورکر آسام میں سالوں سے کام کر رہے ہیں اور انڈین حکومت انہیں کسی بھی وقت بے دخل کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈین رعونت کی وجہ سے سارک بے جان ہے اور ہمسایہ ممالک بھی نا خوش۔ انڈیا کے بے جا تکبر، ہٹ دھرمی اور توسع پسندی نے علاقائی امن کو نقصان پہنچایا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں