"JDC" (space) message & send to 7575

موسم‘ فطرت اور شاعری

موسم شعراء کے لیے ایک آفاقی موضوع ہے۔ عام روز مرہ زندگی میں دیکھیں تو جب بھی ہم دور پردیس میں اپنے عزیزو اقارب یا دوستوں سے بات کرتے ہیں تو موسم کے بارے میں سوال دونوں جانب سے لا محالہ پوچھے جاتے ہیں۔ شاعر چونکہ زیادہ حساس ہوتے ہیں لہٰذا موسم کے اثرات ان کی شاعری تک ضرور جاتے ہیں۔ رکن آباد کی ندی کے سیماب رنگ پانی کو دیکھ کر حافظ شیرازی کو خیال آتا ہے کہ ایسا خوبصورت نظارہ شاید جنت میں بھی نہ ملے۔ مغرب سے گھٹا اٹھتی ہے تو حفیظ جالندھری کو مسحور کر دیتی ہے۔
فطرت کے عناصر آباد بستیوں کو اجاڑ دینے کی قوت بھی رکھتے ہیں اور احیائے نو یعنی نئی زندگی کی تخلیق کی صلاحیت بھی۔ موسم بہار، مشرق اور مغرب دونوں میں خوشیوں کا موسم ہے۔ تجدیدِ حیات کی نوید لاتا ہے۔ مسرت اور خوشی کی اس رُت میں پورے ایران اور سنٹرل ایشیا میں جشنِ نو روز منایا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس خطے کی بیشتر آبادی بلند و بالا عمارتوں کے فلیٹوں میں رہتی ہے تو نو روز کے حوالے سے یہ لوگ گملوں میں گندم کے بیج ڈال کر بہار کے سر سبز رنگ کا شوق پورا کر لیتے ہیں۔ لڑکیاں بالیاں شوخ رنگ کے ریشمی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ رقص و سرود کی محفلیں سجتی ہیں۔ ایک فارسی شاعر کی نظم کا ابتدائی حصہ یاد آ رہا ہے؎
آندم کہ لالہ ہا چوں شہیداں برستخیز
خونیں کفن برآمدہ محشر بپا کند گویند شد بہار
جب لالہ کے پھول میدان جنگ میں شہدا کی طرح خون رنگ کفن پہن کر نکلتے ہیں اور محشر کا سماں پیدا کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ بہار آ گئی ہے۔ فیض صاحب کے مطابق جب بادِ نو بہار چلتی ہے تو پھولوں کو نئے رنگ عطا کرتی ہے۔ ایسے میں شاعر بے تاب ہو جاتے ہیں۔ انہیں پرانے رشتے، پرانی محبتیں یاد آنے لگتی ہیں۔ یہ چاک گریبانی کا موسم بھی ہوتا ہے کہ بہت سے پرانے حساب کھل جاتے ہیں۔ وہ فطرت جو بادِ نسیم بھیجتی ہے وہ بادِ سموم بھیجنے کی طاقت بھی رکھتی ہے اور وہ بادِ سموم جو اچھے خاصے نو شگفتہ پھولوں کو بھسم کر دیتی ہے۔ تعمیر اور تخریب دونوں حیاتِ انسانی کے پہلو ہیں۔ ترقی اور تنزل‘ دونوں تاریخِ انسانی میں ایک دوسرے کا تعاقب کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ عمل انسانوں کی انفرادی زندگی میں بھی نظر آتا ہے اور معاشروں کی تاریخ میں بھی۔
عربی شاعری ، فارسی شاعری سے قدیم تر ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت کے شاعر اپنی تخلیقات کعبہ کی دیواروں پر آویزاں کرتے تھے۔ ان نظموں کو اسی حوالے سے معلقات کہا جاتا تھا۔ کئی ایک معلقات آج بھی محفوظ ہیں اور عرب آج بھی اس اعلیٰ شاعری پر فخر کرتے ہیں۔ معلقات کی اکثر نظمیں ''الوقوف علی الاطلال‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔
زمانہ قدیم کے عربوں کی اکثریت صحرانورد تھی۔ یہ لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ پانی اور ہر یاول کی تلاش میں گھومتے تھے۔جہاں پانی اور ہریالی وافر ہوتے، وہیں بستی آباد ہو جاتی لیکن یہ بستیاں مستقل نہیں ہوتی تھیں۔ کبھی معاشی اسباب کی وجہ سے متروک ہو جاتیں تو کبھی صحرا کے بے رحم موسم کی وجہ سے خرابے میں بدل جاتیں۔ شاعر اپنی محبوبہ کی تلاش میں صحرائی بستی کی جانب آتا تو کھنڈرات کو دیکھ کر بہت کبیدہ خاطر ہوتا اور یہیں سے نظم کا آغاز ہو جاتا۔ عربی میں نظم کو قصیدہ کہتے ہیں۔ عربی قصیدے کی یہ دو ہزار سال پرانی روایت چند شعراء آج تک نبھا رہے ہیں۔
ابراہیم ناجی بیسویں صدی کے معروف عربی شاعر ہیں۔ ان کا تعلق مصر سے تھا۔ ان کا ایک قصیدہ بڑے ہی حزیں اطلال سے شروع ہوتا ہے۔ مختصر سا اقتباس پیش ہے ''اے مرے آنجہانی دل اللہ کی تم پر رحمت ہو کہ تم آماجگاہ تھے، اُن خوابوں کی جو پورے نہ ہو سکے۔ اور وہ آماجگاہ بھی اب اجڑ چکی، میں یادوں کی پیاس بجھانے آیا ہوں۔ اے مری محبت کی یاد مجھے پانی پلائو۔ دیکھتے نہیں کہ مرے چہرے پہ کتنے آنسو رواں ہیں۔ کیسے مری محبت کسی پرانی خبر کی طرح کافور ہو چکی ہے۔ مری ناکام محبت کی کہانی میرے سامنے کفن پہنے کھڑی ہے، اس کفن میں مجھے وہ خواب نظر آ رہے ہیں جو پورے نہ ہو سکے‘‘۔
انگریزی کے مشہور شاعر ٹی ایس ایلیٹ کو اپریل سب سے ظالم مہینہ لگتا ہے۔ یاد رہے کہ انگلستان میں بہار کا موسم اپریل میں شروع ہوتا ہے۔ ایلیٹ اپنی ایک نظم کا آغاز ہی ایسے کرتا ہے April is the cruelest month اور یہ مہینہ شاعر کی نظر میں ظالم یوں ہے کہ بارش سے مردہ زمین میں پھر سے جان پڑ جاتی ہے۔ پھول کھلتے ہیں۔ حسین یادیں پھر سے انگڑائی لیتی ہیں، خواہشات پھر سے جوان ہونے لگتی ہیں۔ فطرت کے نظاروں کی بات ہو اور انگریزی کے عظیم شاعر ورڈز ورتھ کا ذکر نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے۔ علامہ اقبال نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ نوجوانی میں وہ الحاد کی طرف مائل تھے ورڈز ورتھ کو پڑھا تو خالقِ کون و مکاں کے وجود پر ایمان نہ صرف بحال ہوا بلکہ راسخ ہو گیا۔ فطرت کے حسن کی توصیف انگریزی زبان میں ورڈز ورتھ سے بہتر کسی نے نہیں کی۔
فیض صاحب کی شاہکار نظم ''بہار آئی‘‘ کو بے حد پذیرائی ملی اور پھر ٹیناثانی نے اُسے گا کر امر کر دیا۔ بہار آتی ہے تو شاعر کی جوانی کے خواب پھر سے زندہ ہو جاتے ہیں۔ گلاب نکھر جاتے ہیں۔ احوالِ دوستاں بھی یاد آتے ہیں۔ غبارِ خاطر کے تمام ابواب یکے بعد دیگرے کھلنے لگتے ہیں۔ تمام پُرانی یادوں کی خوشبو پھر سے آنے لگتی ہے لیکن ساتھ ہی ماضی کی تلخیاں بھی یاد آنے لگتی ہیں۔ خاص طور دوستوں اور وطن کے حوالے سے، فیض صاحب کی محبوبہ وطن ہے اور ان کی محبت عوام سے بھی مسلمہ تھی۔
ظہیر الدین بابر ہندوستان پر قابض ہوا تو دربار کے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کا سب اچھا موسم کون سا ہے۔ جواب ملا کہ برسات۔ پھر استفسار کیا کہ انڈیا کا سب سے بُرا موسم کون سا ہے جواب پھر وہی ملا کہ برسات۔ اگر ساون میں رم جھم ہوتی رہے تو موسم خوبصورت اور اگر بارش چند روز نہ ہو تو حبس۔ اسی وجہ سے غالب کو دہلی کا موسم گرما سخت نا پسند تھا۔ مرزا کا ایک شعر ہے؎
دن میں گرمی تو ہے رات کو حبس
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار
میں 1993ء میں ایک ہفتہ کے لیے دہلی گیا تھا۔ میرے پُرانے دوست شاہد ملک اُس وقت وہاں ڈپٹی ہائی کمشنر تھے۔ اُنہی کے گھر ٹھہرا۔ اکتوبر کا مہینہ تھا اور ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے لیکن مرزا نوشہ کو یہ سہولت میسر نہ تھی۔ مگر اس دہلی میں بہار بھی شاندار طریقے سے آتی ہے اور بہار میں رم جھم بھی ہو جائے تو پھول اور زیادہ کھلتے ہیں‘ پات ہرے ہرے لگتے ہیں۔ ایسے میں میر تقی میر کا دل گلشن کو جانے کے لیے مچلتا ہے۔
عربی شاعری میں وقوف علی الاطلال ناکام محبت کا مرثیہ ہے کچھ اسی قسم کی کیفیت ہمیں احمد فراز کے چند اشعار میں بھی ملتی ہے؎
سلگتے سوچتے ویران موسموں کی طرح
کڑا تھا عہدِ جوانی مگر گزر بھی گیا
پھٹی پھٹی ہوئی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ مجھے
تجھے تلاش ہے جس شخص کی وہ مر بھی گیا
شعرا بہار و خزاں سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور ان موسموں کو تشبیہ اور استعارے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ بہار صبح ہے اور خزاں شام اور پھر شام کی کوکھ سے صبح صادق جنم لیتی ہے۔ باد نسیم چلتی ہے۔ ہر طرف روشنی پھیل جاتی ہے۔ کارہائے زندگی پھر سے شروع ہو جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں