"JDC" (space) message & send to 7575

ضروری کرنے کے کام

وطن عزیز میں صبح سے شام تک ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ ہارنے والی جماعتیں الیکشن کے نتائج نہیں مانتیں لہٰذا اپوزیشن کی نظر میں ہر حکومت کا عوامی مینڈیٹ مشکوک ہی رہتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ معمول کی بات ہے۔ شام کو ٹی وی ٹاک شوز میں چائے کی پیالیوں میں طوفان اٹھائے جاتے ہیں۔ ہمارے اصل قومی مسئلے ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ لایعنی مباحثوں میں وقت ضائع ہوتا رہتا ہے۔
میری رائے میں ہماری تیل کو ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ایک قومی مسئلہ ہے اور ہمیں قومی سطح پر اس کمزوری کا ادراک ہی نہیں۔ آپ نے کسی اینکر کو اس ایشو پر ٹاک شو کراتے کم ہی دیکھا ہوگا۔ اس سنجیدہ پرابلم کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ خدانخواستہ ہم پر آج جنگ مسلط کر دی جاتی ہے تو ہم یہ جنگ ہفتہ دس دن سے زیادہ نہیں لڑ سکیں گے کیونکہ ہمارا تیل کا ذخیرہ محدود ہے۔ سٹوریج کی صلاحیت صرف آئل کمپنیوں کے پاس ہے۔ جنگ کی بات چھوڑیں حالت ِامن میں بھی یہ کمپنیاں قیمت کے حوالے سے اپنی بات منوانا جانتی ہیں۔ حکومت پٹرول کی قیمت کم کر دے تو پٹرول مارکیٹ سے غائب کر دیا جاتا ہے۔
کئی عشروں سے ہمیں بخوبی علم ہے کہ تیل سٹوریج کی محدود صلاحیت ہماری سٹریٹیجک کمزوری ہے۔ ہماری تیل صاف کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہے اور دشمن اس کمزوری سے بھی بخوبی واقف ہے۔ اٹک آئل ریفائنری کے دو یونٹ بند ہونے کے بعد یہ صلاحیت مزید کم ہو گئی ہے۔ اس سال مارچ میں عالمی منڈی میں ایک بیرل تیل کی قیمت چھبیس ڈالر ہو گئی تھی‘ یہ سنہری موقع تھا کہ بڑی مقدار میں تیل خرید کر سٹور کر لیا جاتا ۔اس سے حکومت اور عوام دونوں کو فائدہ ہوتا۔ لیکن ہم مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ انڈر گرائونڈ آئل سٹوریج اور آئل ریفائنری کی تعمیر ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
عوام کے لیے انصاف کے حصول کو آسان بنانا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سطح پر ججوں کی تعداد‘ مقدمات کے تناسب سے ہو‘ دوسری ضروری بات یہ ہے کہ جج پرفارمنس کے لحاظ سے بہت اچھے ہوں‘ ہمیں پھر سے جسٹس کارنیلئس اور جسٹس کیانی کی ضرورت ہے اور یہ دونوں ناقابلِ فراموش جج مقابلے کے امتحان کے ذریعہ یعنی میرٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ جسٹس کیانی نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں جس طرح رُول آف لاء کی پاس داری کی جس جرأت کے ساتھ وہ آمریت کے خلاف بولے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ 1960ء کی دہائی تک اعلیٰ عدلیہ کے جج یا سول سروس سے آتے تھے یا وکلا برادری سے اور حکومت ِوقت ان کاانتخاب کرتی تھی۔پچھلے چند عشروں سے ہمارے منصف صرف وکلا برادری سے آتے ہیں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ صوبائی سطح پر ایڈووکیٹ جنرل اور بار ایسوسی ایشن کے عہدے دار ہائی کورٹ بینچ کے لیے سلیکٹ ہو جاتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل کی تعیناتی حکومت ِوقت کرتی ہے اور ان کا تعلق عام طور پر وکلا سے ہوتا ہے۔ اچھا وکیل ہونے کے علاوہ حکومت سے اچھی پی آر یعنی تعلقات بھی بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔ بار ایسوسی ایشن کے عہدے دار عمومی طور پر سیاسی وابستگیاں رکھتے ہیں۔ وکلا میں ان کی دوستیاں اور رقابتیں فطری امر ہیں ‘نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاست سے پاک آزاد عدلیہ کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ ماتحت اور اعلیٰ جوڈیشری کی سلیکشن مقابلے کے امتحانوں کے ذریعہ کی جائے۔ لوئر جوڈیشری تو اب بھی مقابلے کا امتحان دے کر آتی ہے‘ ہائی کورٹس کے ججوں کا انتخاب بھی شفاف امتحان کے ذریعے ہونا چاہیے۔ میری تجویز یہ ہے کہ پندرہ سالہ لاء پریکٹس کا تجربہ رکھنے والے تمام وکلاء حضرات اس امتحان کے اہل ہوں‘ البتہ بار ایسوسی ایشن کے عہدے داراور سیاسی جماعتوں کے ممبرز کو اس امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہائی کورٹس کے آدھے جج ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں میں سے لیے جائیں اور پچاس فیصد پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کر آئیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں آنے والے ڈسٹرکٹ ججوں کا ریکارڈ شاندار ہونا چاہیے۔
1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251 کے مطابق پندرہ سال میں اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بننا تھا‘ لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ 2015ء میں سپریم کورٹ کے ایک سہ رکنی بنچ نے کہا تھا کہ فیڈرل اور صوبائی حکومتیں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر اپنائیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ''فیڈرل اور صوبائی سطح پر گورننس کے لیے ایک استعماری زبان استعمال کرنے کی چنداں ضروری نہیں‘ جبکہ پاکستانی عوام اس زبان کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘‘۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور ان کے بنچ کا فیصلہ تو صائب تھا لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوا ‘حالانکہ فیصلے میں درج تھا کہ فیڈرل اور صوبائی حکومتیں تین ماہ میں بتائیں کہ فیصلے پر عمل ہو گیا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر ہو گئے تو یار لوگوں نے ان کا فیصلہ بھی فائلوں میں گم کر دیا۔ دراصل ہماری بیورو کریسی اپنی انگریزی کی مدد سے گونگے عوام پر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ ایران میں سب سرکاری کام فارسی میں ہوتا ہے‘ ترکی میں ٹرکش زبان ہی استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پہلے قدم کے طور پر سی ایس ایس کا امتحان اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح افسروں کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ فائلوں پر نوٹنگ انگریزی میں کریں یا اردو میں۔ انگریزی بہت اہم ہے‘ اسے پاکستان میں کمپلسری رہنا چاہیے‘ لیکن دستور کے آرٹیکل 251 پر عمل کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ اس سے قومی یک جہتی کا عمل فروغ پائے گا۔ قوم میں خود اعتمادی آئے گی۔
اندازہ ہے کہ 2030ء میں پاکستان گندم کا بڑا امپورٹر ہوگا۔ 2030ء میں پاکستان کی آبادی 26 کروڑ 30 لاکھ ہوگی۔ شہروں کو ہجرت کرنے والے لوگوں کی تعداد میں آٹھ کروڑ کا اضافہ ہوگا۔اگرچہ اس وقت پاکستان گندم‘ چاول اور مکئی وافر مقدار میں پیدا کر رہا ہے لیکن ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہمیں بڑی مقدار میں اشیائے خورو نوش امپورٹ کرنے پر مجبور کرے گی۔ اب بھی پاکستان پام آئل اور چائے کی امپورٹ پر زر مبادلہ کی خطیر رقم صرف کرتا ہے۔2018ء میں کئے گئے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 37 فیصدلوگ خوراک کے عدم تحفظ کا شکار تھے۔ بہت سے بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے پست قد رہ جاتے ہیں‘ ان میں کئی ایک دماغی طور پر سست ہوتے ہیں۔ ان کے جسم کی قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ بیماریوں کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ قوتِ مدافعت کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کمزور مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلا سکتیں۔ افراطِ زر اور چھلانگیں لگاتی ہوئی مہنگائی نے غریب لوگوں کے مسائل بہت بڑھا دیے ہیں۔ ان کیلئے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا دشوار ہو گیا ہے۔ اس مسئلے کے دو ہی حل ہیں یا تو ہم خوراک کی پروڈکشن تیزی سے بڑھائیں‘ غریبوں کی قوت خرید میں اضافہ کریں‘ مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ‘لہٰذا ہمیں آبادی کے سیلاب کو روکنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ پاپولیشن کنٹرول پروگرام کو ویسے ہی فعال کرے جیسے 1960ء کی دہائی میں تھا۔ علمائے کرام کو ایران‘ بنگلہ دیش اور مصر بھیجے۔ غریبوں کے ایمان کا تحفظ کرے کیونکہ غربت کفر کی طرف لے جاتی ہے۔ آبادی کے سیلاب کے آگے اگر آج مضبوط بند نہ باندھا گیا تو ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں