"JDC" (space) message & send to 7575

ہندو سماج اور انڈین سیاست

ہندو سماج اور انڈین سیاست کا قریبی بندھن ہے۔ کانگریس نے ہمیشہ اپنے آپ کو سیکولر کہا لیکن ہندو مہا سبھا کے اہم ترین رکن لالہ لاجپت رائے کانگریس میں شامل رہے۔ گاندھی جی اپنے آپ کو سیکولر بھی کہتے تھے مگر رام راج کی بات بھی کرتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سیاست سے مذہب کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جب اُن پر اس پہلو سے تنقید ہونے لگتی تو جواب دیتے کہ مذہب سے میری مراد مذہبی اقدار مثلاً سچائی اور انسان دوستی ہے۔ گاندھی جی کی شخصیت بھی اتنی ہی پیچیدہ تھی جتنا ہندو سماج خود ہے‘ جس میں ذات پات ہے‘ معاشرے کے متعدد طبقے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گودسے کو گلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی بات کیوں کرتے ہیں۔
گاندھی جی انڈین نیشنل ازم کے پرچارک تھے۔ انڈین مال کے استعمال کے حامی تھے اور بدیشی اشیا خریدنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ بہت سادہ سی دھوتی اور چپل پہنتے تھے اوپر کا دھڑ آدھا عریاں ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے ونسٹن چرچل نے انہیں ننگا فقیر (Naked fakir) بھی کہا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی سادگی بھی سیاست کا حصہ تھی۔ برلا اور ٹاٹا جیسے معروف صنعت کار انہیں فنانس کرتے تھے۔ جہاں جاتے بکری ساتھ جاتی جس کا وہ دودھ پیتے تھے ۔ایک انڈین لیڈر نے کہا تھا کہ گاندھی جی کی سادگی ہمیں لاکھوں میں پڑتی ہے۔ سیاست میں بہت سی چیزیں دکھاوے کے لیے ہوتی ہیں۔
گو کہ اس بات سے اکثر انکار کیا گیا لیکن نتھو رام گودسے کے آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سیوک سنگھ کے ساتھ تعلقات تھے۔ گاندھی جی کے قتل کے جلد بعد آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی۔ آر ایس ایس اپنے آپ کو سیاسی کی بجائے سماجی تنظیم کہتی ہے‘ جس کا مقصد ہندو سماج کی سیوا یعنی خدمت ہے‘ لہٰذا اس تنظیم کا ہر ممبر سیوک ہے۔ یہ تنظیم 1925ء میں بنائی گئی‘ اس کے بانی کا نام ہادیدوار تھا‘ لیکن سوارکر بطور لیڈر بانی سے بھی زیادہ مشہور ہوئے۔ وہ جرمنی کی نازی پارٹی اور اس کے لیڈر ہٹلر سے بہت متاثر تھے۔ دمودر سوارکر کو سماج سیوک گرو سوارکر کہتے ہیں ‘کیونکہ وہ اس جماعت کے روحانی پیشوا سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ 1906ء میں بنی اور اس کے جلد بعد منٹو مارلے اصلاحات آئیں اور مسلمانوں کو جداگانہ الیکشن کا حق ملا‘ آر ایس ایس ان اقدامات کا رد عمل تھی۔ میں اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتا۔ دراصل ہندو مسلمانوں سے تعلیم میں آگے تھے اور زیادہ منظم تھے۔ آر ایس ایس کا آغاز سماجی تنظیم کے طور پر ہوا تھا‘ جس کا مقصد ہندو نوجوان کو اپنے دھرم کے مطابق ڈسپلن دینا تھا۔گرو سوارکر کا تعلق مہاراشٹر سے تھا۔ مہاراشٹر اور گجرات کاٹھیا واڑ نے آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو کئی لیڈر دیے۔ سردار ولبھائی پٹیل جو کانگریس میں انتہا پسند تھے‘ یہیں سے تھے۔ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی بھی اسی علاقے سے ہیں۔ ایک انتہا پسند گروپ شیو سینا کا مرکز بھی یہیں تھا۔ شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے ساری عمر بمبئی میں رہے‘ یہ علاقہ انڈیا میں ہندو سوچ کا گڑھ ہے۔ گروسوارکر نے منٹو مارلے اصلاحات اور مسلمانوں کے لیے جداگانہ الیکشن پر بھرپور احتجاج کیا۔ انگریز حکومت کی طرف سے سزا ہوئی اور جزائر انڈمان کی جیل یعنی کالا پانی بھیج دیئے گئے۔ چند سالوں بعد ناکافی شہادتوں کی وجہ سے رہائی ملی تو ان کی انتہا پسندی بڑھ چکی تھی اور واپسی پر وہ آر ایس ایس میں شامل ہو گئے اور کئی سال اس کے نیتا رہے۔
ہندو سماج کی جس چھتری کے نیچے آر ایس ایس اور بی جے پی کام کرتی ہیں اسے سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔ عام پروپیگنڈا یہی ہے کہ پریوار اور آر ایس ایس خالص سماجی تنظیمیں ہیں اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ‘مگر اس بات کا سچ سے دور دور کا تعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے پاس ہے۔ ایک دو مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔2005ء میں بی جے پی کے صدر ایل کے ایڈوانی پاکستان آئے‘ وہ کراچی میں قائداعظم کے مزار پر بھی گئے اور وزٹر بک میں لکھا ''ایسے کئی لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں‘ لیکن ایسے لوگ کم ہیں جنہوں نے تاریخ خود تخلیق کی۔ قائداعظم محمد علی جناح ایسے ہی نادر شخص تھے۔ سیاست کے ابتدائی ایام میں آزادی کی تحریک کی ایک معروف لیڈر سروجنی نائیڈو نے انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا تھا۔ 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وہ سیکولر سٹیٹ کے پکے داعی نظر آئے جب انہوں نے کہا کہ ہر شہری کو اپنا مذہب پریکٹس کرنے کی مکمل آزادی ہو گی۔ ریاست مذہبی بنیاد پر شہریوں میں امتیاز نہیں کرے گی۔ میں اس عظیم شخص کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں‘‘۔
ایل کے ایڈوانی کا خیال تھا کہ اس عبارت سے انڈیا کے اعتدال پسند طبقے خوش ہوں گے اور خصوصاً مسلمان بی جے پی کی طرف راغب ہوں گے ‘ مگر وہ جیسے ہی واپس گئے آر ایس ایس نے ان کے استعفے کا مطالبہ کر دیا اور ایڈوانی مکمل طور پر تنہا نظر آئے۔ بی جے پی کے کسی لیڈر نے اپنے صدر کا دفاع نہیں کیا۔ وہ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر بھی گئے اور پارٹی سپوکس مین رام مادیو کو وضاحت پیش کی‘ لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی‘ بالآخر انہیں بی جے پی کی صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔اکثر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بی جے پی اپنے سیاسی فیصلوں میں مکمل آزاد ہے‘ دراصل ایسا نہیں ہے۔ یہی رام مادیو جلد ہی بی جے پی کے جنرل سیکرٹری بن گئے‘2014ء میں انہوں نے جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے حسیب درابو سے معاہدہ کیا اور بی جے پی پہلی مرتبہ سرینگر میں حکومت کا حصہ بنی۔ مفتی سعید اور محبوبہ مفتی اس معاہدے کا حصہ تھے۔ پچھلے سال کے غیر قانونی فیصلوں کے بعد آر ایس ایس مقبوضہ کشمیر میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ آج کل جموں اس کی سرگرمیوں کا گڑھ ہے وہی جموں ہے جہاں 1947ء سے پہلے مسلمان اکثریت میں تھے اور آج اقلیت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں نے مسلمان مخالف اور پاکستان دشمن نعرے لگائے۔ ایسے نعرے لگانے سے بی جے پی کے ووٹ بینک میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ شروع میں پارٹی کا نام ہندو راشٹر پارٹی تجویز ہوا تھا۔ معروف لیڈر ڈاکٹر مکرجی اس نام کے سخت حامی تھے‘ ان کے خیال میں ہندو راشٹر پارٹی ایک نوبل یعنی نیک نام تھا‘ لیکن بعد میں یہ خیال غالب آیا کہ ایسی صورت میں پارٹی کو مسلمان اور کرسچین ووٹ نہیں دیں گے؛ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی نام اپنایا گیا‘ لیکن پارٹی کی سوچ پھر بھی آر ایس ایس والی ہی رہی۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقبولیت کا آغاز بابری مسجد گرانے کے نعرے کے بعد ہوا۔ 1985ء کے الیکشن میں بی جے پی کو صرف دو سیٹیں ملی تھیں۔ 1991ء میں پارٹی کی نشستوں کی تعداد 117 ہو گئی کیونکہ ایڈوانی رتھ یاترا کی قیادت کرچکے تھے۔ اگلے سال یعنی 1992ء میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا اور بی جے پی کے وارے نیارے ہو گئے۔ بی جے پی کی حکومت میں انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ ہے۔ ایک انتہا پسند جماعت نے اس سال کے آغاز میں گاندھی جی کی برسی پر جشن منایا‘ علی گڑھ میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی بنیاد وزیراعظم مودی نے خود رکھی۔ انڈیا کی تاریخ سکولوں کے لیے پھر سے حکومت اپنے رنگ میں لکھوا رہی ہے۔ گاندھی جی اور پنڈت نہرو اگر آج کا انڈیا دیکھیں تو دعا کریں گے کہ ہمیں فوراً اٹھا لیا جائے کیونکہ ہم سے اپنے ملک کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی‘ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے وقت والا انڈیا دنیا کے نقشے سے غائب ہے‘ ہم کسی اور دیش میں آ گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں