"JDC" (space) message & send to 7575

بحیرۂ روم کی موجوں میں اضطراب

بحیرۂ روم یعنی The Mediterranean Sea ایک چھوٹا سمندر ہے جو یورپ کو براعظم افریقہ سے الگ کرتا ہے۔ مشرق میں یہ ترکی اور شام کے ایشیائی علاقے سے شروع ہوتا ہے اور مغرب میں سپین اور مراکو تک جاتا ہے۔ سمندر کا طول تقریباً ڈھائی ہزار میل ہے جبکہ عرض اوسطاً پانچ سو میل ہے۔ اپنے محل وقوع اور مختصر ہونے کی وجہ سے اس سمندر کے پانیوں میں تلاطم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اور خوراک صحت بخش ہے‘ مگر آج کل یہ سمندر اضطراب کا شکار ہے اور وجوہ سیاسی اور اقتصادی ہیں۔ یہ اضطراب بحیرۂ روم کے مشرقی حصے میں زیادہ ہے جہاں ترکی اور یونان کی روایتی مخاصمت ایک بار پھر پوری آب و تاب سے عیاں ہو رہی ہے۔ دونوں کے بحری جہاز سمندر میں جارحانہ پٹرولنگ کر رہے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کیلئے جنگی طیارے ایکشن میں رہتے ہیں۔ اس خطے میں تنائو خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے اور بڑی وجہ تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت ہے۔
ترکی اور یونان کی مخاصمت کو سمجھنے کے لیے تاریخ پر سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ترکی پانچ سو سال تک سلطنت عثمانیہ کا مرکز رہا۔ سلطنت عثمانیہ پندرہویں صدی میں قائم ہوئی جب سلطان محمد دوم نے استنبول فتح کیا۔ انہیں سلطان محمد الفاتح بھی کہا جاتا ہے۔ استنبول 53 دن کے محاصرے کے بعد فتح ہوا تھا۔ اس سے پہلے یہ عظیم شہر ہزار سال تک بازنطینی ایمپائر (Byzantine Empire) کا دارالحکومت رہا۔ یہ خوبصورت شہر آبنائے باسفورس پر ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ بازنطینی ایمپائر کو مشرقی رومن ایمپائر بھی کہا جاتا ہے، جس میں یونانی میجر پارٹنر تھے۔ اس وقت استنبول میں یونانی سرکاری زبان تھی۔ یونانی آرتھوڈوکس چرچ کا مرکز بھی استنبول ہی تھا۔ اس چرچ کا آرچ بشپ آج بھی استنبول میں مقیم ہے۔ جب اس شہر میں سلطان محمد الفاتح کی حکومت قائم ہوئی تب بھی یہاں یہودی اور کرسچین پوری آزادی سے رہتے رہے۔ یونان چار سو سال تک سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط رہا۔ میں یونان میں رہا ہوں۔ یونانی ان چار صدیوں کو اپنی تاریخ کا سیاہ دور شمار کرتے ہیں جبکہ بازنطینی ایمپائر کو سنہری دور سمجھتے ہیں۔ یونان نے انیسویں صدی میں ترکی کے خلاف جنگ لڑی اور سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کی۔
آج سے بیس سال پہلے جب میں یونان میں تھا تو دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہو رہے تھے لیکن اب پرانی مخاصمت پھر لوٹ آئی ہے۔ یہ دشمنی اس وقت عروج پر تھی جب 1974ء میں یونان کی فوجی حکومت نے قبرص میں مداخلت کی تھی۔ اس وقت شمالی قبرص میں مقیم ترک آبادی نے یونانی غلبے کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ ترکی کے لیے بھی خاموش تماشائی رہنما ناممکن تھا۔ آج قبرص دو حصوں میں تقسیم ہے۔ شمال کے ایک تہائی حصے میں ترک قبرصیوں کی حکومت ہے جسے یورپی یونین غیرقانونی گردانتی ہے۔ قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ شمالی قبرص کی حکومت کو صرف دو ملک تسلیم کرتے ہیں اور وہ ہیں ترکی اور پاکستان۔ ترک شمالی قبرص کا دفتر اسلام آباد میں ہے مگر اسے سفارت خانہ نہیں کہا جاتا‘ اور یہ باہمی رضا مندی سے ہے۔
اور اب موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ 2019ء میں انکشاف ہوا کہ قبرص کے قرب و جوار میں تیل اور گیس کے ذخائر سمندر کی تہہ میں موجود ہیں۔ ترکی نے شمالی قبرص کے پاس ڈرلنگ شروع کر دی۔ ان کی دلیل تھی کہ انرجی کے وسائل سے مالامال یہ علاقہ شمالی قبرص کی سمندری حدود میں واقع ہے۔ یونان اور یورپی یونین کا رد عمل تھاکہ شمالی قبرص کی ریاست کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لہٰذا یہ ڈرلنگ بھی قانونی اعتبار سے جائز نہیں۔ طیب اردوان کا ترکی عسکری اعتبار سے خاصا طاقتور ہے لہٰذا یونان کے اعتراضات کو رد کردیا گیا۔پورے خطے میں پچھلے چند سال سے نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ ترکی حکومت کچھ عرصے سے Blue homeland کی اصطلاح بڑی شدومد سے استعمال کررہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ترکی کے حصے کا سمندر وطن کا حصہ ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی محل نظر رہے کہ یونان اور ترکی کے متعدد جزیرے ہیں جو پورے مشرقی بحیرہ روم میں پھیلے ہوئے ہیں، اور اس وجہ سے سمندری حدود کا مسئلہ اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔
اس خطے میں ترکی کا دوسرا بڑا حریف مصر ہے۔ چند سال پہلے جب مصر میں صدر محمد مرسی کی قیادت میں اخوان کی حکومت قائم ہوئی تو ترکی اور مصر کے باہمی تعلقات میں نئی دوستی کا آغاز ہوا‘ لیکن مصر میں یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی یا یوں کہہ لیں کہ اسے چلنے نہیں دیا گیا۔ 2013ء میں عسکری حکومت نے جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں اقتدار سنبھال لیا۔ صدر طیب اردوان نے فوراً آفر کی کہ وہ اخوان لیڈرشپ کو پناہ دینے کیلئے تیار ہیں لیکن اخوان قیادت کے اکثر لوگ گرفتار ہوگئے اور بعد میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔آج کا مصر یونان کے خاصا قریب ہے۔ دونوں ممالک نے سمندری حدود اور تعاون کے حوالے سے معاہدہ بھی کیا ہے اور اپنے پانیوں میں انرجی کے وسائل تلاش کرنے کا کام ایک امریکن کمپنی نوبل انرجی کو سونپ دیا ہے۔ ترکی نے مصر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یونان کے ساتھ معاہدہ کرنے میں نقصان ہے‘ لیکن مصر نے ترکی کی بات ان سنی کر دی۔ آج کل مصر اور ترکی کے تعلقات میں خاصی سرد مہری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے سفیر واپس بلا لئے ہیں اور سفارت خانے ناظم الامور کے لیول پر کام کررہے ہیں۔
مصر اور ترکی میں بڑھتی ہوئی مخاصمت کی ایک اور وجہ لیبیا کی صورتحال ہے۔ لیبیا میں اس وقت درحقیقت دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔ طرابلس میں وزیراعظم فائزالسراج کی حکومت ہے جبکہ بن غازی میں جنرل خلیفہ حفتر کی حکومت ہے جو اب خود بخود فیلڈ مارشل بن گئے ہیں۔ طرابلس کی حکومت سے معاہدہ کرنے کے بعد وہاں ترکی کی عسکری مدد پہنچ رہی ہے۔ مصر خلیفہ حفتر کا حلیف ہے اور لیبیا میں ترکی کے رول کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ ترکی نے طرابلس کی حکومت کے ساتھ سمندری حدود اور پانیوں میں تعاون کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ یونان کو اس معاہدے پر سخت تحفظات ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لیبیا اور ترکی کی سمندری حدود متصل ہونے کی وجہ سے سمندر میں گیس پائپ لائن بچھانا خاصا دشوار ہوگیا ہے۔ آج کا ترکی ہر لحاظ سے خاصا پُراعتماد نظر آتا ہے جبکہ مصر اندرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے جب ترکی کی حکومت نے مشہور تاریخی عمارت آیا صوفیہ میں پنجگانہ نماز کی اجازت دی تو یونان میں مظاہرے ہوئے۔ کئی یونانی یہ کہتے سنے گئے کہ صدر اردوان عثمانی خلیفہ بننا چاہتے ہیں۔ آیا صوفیہ میں آج بھی تمام مذاہب کے لوگ جا سکتے ہیں۔ ترکی میں آج سینکڑوں چرچ آباد ہیں جبکہ ایتھنز یورپ کا واحد دارالحکومت ہے جہاں ایک بھی مسجد نہیں تھی‘ حالانکہ وہاں ہزاروں مسلمان آباد تھے۔ شنید ہے کہ مسلمانوں کی اشک شوئی کیلئے اب ایک مسجد بن رہی ہے۔ میں وہاں چار سال رہا اور محسوس کیا کہ اسلاموفوبیا وہاں عوامی مسئلہ نہیں۔ اشرافیہ اور آرتھوڈوکس چرچ والے البتہ چار صدیوں کی سلطنت عثمانیہ کی حکومت کو نہیں بھولے۔ وہاں پاکستانیوں کو کبھی کبھی سننا پڑتا ہے کہ آپ ہمیں اپنے دوست ترکی کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
ترکی اور یونان‘ دونوں نیٹو کے ممبر ہیں۔ نیٹو ممبر ممالک کو چاہیے کہ دونوں میں صلح کرائیں۔ شمالی قبرص کی حقیقت کو اب یورپی یونین کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے۔ ترک مخالف یک طرفہ مؤقف یورپی یونین کیلئے درست نہیں، خاص طور پر جرمنی جیسے بااثر ملک کیلئے جو ممکنہ ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ بحیرہ روم کا حساس علاقہ دنیا کے عین وسط میں واقع ہے۔ یہاں ممکنہ عسکری ٹکرائو پوری دنیا کو متاثر کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں