"JDC" (space) message & send to 7575

کوہ قاف اور پاکستان

آپ میں سے اکثر نے بچپن میں کوہ قاف کی پریوں کے قصے سنے ہوں گے۔ کوہ قاف بحرِ گیلان (Caspian Sea) اور بحر اسود(Black Sea) کے درمیان کا پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں چھ بڑے لسانی گروہ آباد ہیں چیچن‘ داغستانی اور سرکیشین (Circassians) اب بھی روس کا حصہ ہیں جبکہ دیگر تین آزاد ممالک کی حیثیت سے گزشتہ تیس سال سے قائم ہیں اور یہ ہیں آذربائیجان‘ آرمینیا اور جارجیا۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے آذر بائیجان یہاں کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے جبکہ جارجیا اور آرمینیا کی اکثریت کرسچین ہے۔ آذر بائیجان بلوچستان کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ ایران میں ہے جہاں کا مشہور شہر تبریز ہے۔ 
آذربائیجان کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ جنوب میں ایران‘ مغرب میں آرمینیا اور ترکی‘ شمال میں جارجیا اور روس واقع ہیں۔ بحر گیلان ہر طرف سے زمین اور آبادی میں گھرا ہوا ہے۔ اسی لیے اس کو دنیا کی سب سے بڑی جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ روس کا دریا وولگا اس سمندر میں گرتا ہے اور اس کے پانی کا اکلوتا ذریعہ ہے۔ آذربائیجان کا دارالحکومت باکو ہمارے لاہور کی طرح دو حصے رکھتا ہے۔ پرانا اور تاریخی باکو اور ماڈرن شہر۔ پرانے حصے کے گرد لاہور کی طرح فصیل ہے۔ آذربائیجان تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ یہاں کے لوگ ترکی النسل ہیں اور ان کی زبان بھی ٹرکش سے ملتی جلتی ہے۔
1991-92ء میں آذربائیجان اور سنٹرل ایشیا کی پانچ اور ریاستیں یکے بعد دیگرے سوویت یونین سے علیحدہ ہوئیں۔پاکستان میں یکا یک یہ سوچ آئی کہ اقتصادی تعاون اور سیاسی قربتوں کا نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان میں سے پانچ ریاستیں سمندر سے دور ہیں اور پاکستان کے قریب‘ لہٰذا پاکستان ان کے لیے تجارتی گیٹ وے کا کام دے گا۔ یہ بھی خیال تھا کہ ان نوزائیدہ اسلامی ممالک میں جمہوریت آئے گی۔ اسلامی تشخص ان نئی ریاستوں کو پاکستان کے قریب لائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندازے اور توقعات دونوں ہی غلط تھے۔ محل وقوع کے لحاظ سے ان ریاستوں کے لیے ایران بھی بیرونی تجارت کا آسان راستہ ہے۔ بوجوہ جمہوریت ان ممالک میں پھل پھول نہ سکی۔ بڑی وجہ یہ تھی کہ سوویت عہد میں اس خطے کی تربیت ہی دوسرے خطوط پر ہوئی تھی‘ لہٰذا ہر ملک پر سوویت یونین کے زمانے کے آمر قابض ہو گئے۔ کرغزستان نے جمہوریت کی جانب بڑھنا چاہا مگر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ کئی جگہ اصول پسند مسلمانوں کو خطرے کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ اسلام کریموف کے زمانے میں ازبکستان کے لوگوں کے لیے حج پر جانا ممنوع تھا۔
اور اب واپس آتے ہیں موضوع کی جانب۔ دسمبر 1991ء میں آذربائیجان آزاد ہوا تو اسے سب سے پہلے ترکی نے تسلیم کیا۔ ترکی کے بعد پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے آذربائیجان کو تسلیم کرنے کے جلد بعد باکو میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا۔ اس وقت سے دونوں ممالک کی دوستی قائم ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوئی ہے۔ آذربائیجان کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کا مکمل حامی ہے جبکہ پاکستان نوگور نوکارا باخ کے حوالے سے باکو کی پوزیشن کی پوری سپورٹ کرتا ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ نوگورنو کاراباخ کا مسئلہ ہے کیا۔ نوگورنو کاراباخ ایک مختصر سے رقبے والا اور انتہائی کم آبادی والا پہاڑی علاقہ ہے جو آذربائیجان کے اندر واقع ہے۔ کل ایریا چار ہزار چار سو مربع کلو میٹر ہے یعنی پاکستان کے ایک چھوٹے ضلع کے برابر مگر آبادی اسلام آباد کے ایک سیکٹر سے بھی کم ہے۔ اکثریت آرمینی نسل کے لوگ ہیں اور وہاں علیحدگی پسند رجحانات ایک عرصے سے نظر آ رہے ہیں۔ سوویت یونین کے زمانے میں یہاں کے چند لوگوں نے ماسکو سے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں آذربائیجان سے علیحدہ کیا جائے مگر ماسکو نے یہ ڈیمانڈ منظور نہیں کی تھی۔ آج بھی دنیا کے تمام ممالک نوگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ مانتے ہیں‘ ماسوائے آرمینیا کے۔ مختصر سی آبادی والا چھوٹا سا یہ علاقہ آزاد ریاست بننے کے قابل نہیں اور نہ ہی یہ آرمینیا کا حصہ بن سکتا ہے کیونکہ دونوں کے بارڈر نہیں ملتے۔ اکتوبر کے آغاز سے یہاں کے علیحدگی پسند آذربائیجان کی سویلین آبادی پر گولہ باری کر رہے ہیں۔ روس نے جنگ بندی بھی کرائی لیکن جھڑپیں پھر سے شروع ہو گئیں۔
آذربائیجان کا محلِ وقوع جیو سٹریٹیجک اعتبار سے اہم ہے۔ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کی بدولت اس ملک کی اہمیت میں ایک اور زاویے سے بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ یورپ کو گیس سپلائی کرنے والے دو ملک تھے‘ ایک روس اور دوسرا یوکرائن‘ چند سال پہلے آذربائیجان سے براستہ ترکی ایک گیس پائپ لائن بچھائی گئی جو یورپ تک جاتی ہے‘ اس پائپ لائن سے گیس سپلائی پر روس اور یوکرائن کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے اور یہ اب مسابقت کی صورتحال بن گئی ہے ‘اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وسیع تر جنگ کی شکل میں روس آرمینیا کے ساتھ ہو گا جبکہ ترکی آذربائیجان کو مکمل سپورٹ دے گا۔
مسلم اکثریتی ملک ہونے کے ناتے آذربائیجان او آئی سی کا اہم ممبر ہے۔ 1996ء میں جب او آئی سی نے کشمیر رابطہ گروپ قائم کیا تب سے یہ ملک اس کا فعال ممبر ہے اور پاکستان کے لیے سیاسی سپورٹ کا ذریعہ بھی۔ موجودہ صورتحال میں ظاہر ہے کہ پاکستان کی مکمل ہمدردیاں آذربائیجان کے ساتھ ہیں ایسے میں کسی متعین سوچ والے گروہ نے یہ بات مشہور کر دی کہ پاک فوج کے دستے آذربائیجان میں لوکل فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس بات کی تردید کی ہے۔ البتہ آذری عوام کو پاکستان کی سیاسی اور اخلاقی سپورٹ کا بخوبی علم ہے اور شنید ہے کہ باکو کے بعض علاقوں میں لوگوں نے ترکی اور پاکستان کے جھنڈے لہرائے ہیں۔
آذربائیجان سینٹرل ایشیا میں پاکستان کا نمایاں دوست ہے۔ لیکن نوگورنو کاراباخ کے مسئلے پر پاکستانی پوزیشن محض دوستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اصولوں پر قائم ہے۔ پاکستان اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ ملکوں کی تسلیم شدہ حدود کو طاقت کے ذریعے بدلنا انٹرنیشنل لاء کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان خود اسی قسم کی مہم جوئی کا 1971ء میں شکار ہوا تھا۔ نوگورنو کاراباخ کے آرمینی علیحدگی پسندوں نے کئی سالوں سے آذری مسلمانوں کو اپنے خطے سے نکالنے کا عمل جاری رکھا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آبادی کے زمینی حقائق کو تبدیل کیا جائے یہ بھی غیر قانونی عمل ہے۔ اس خطے میں کرسچین اور مسلمان آبادی کو رہنے کا برابر کا حق ہے۔
اگر اس مسئلے کا جلد پر امن حل نہ نکالا گیا تو صورتحال خطے کی بڑی طاقتوں کو مداخلت پر مجبور کرے گی اور یہ بڑی طاقتیں روس اور ترکی ہیں۔ یہ دونوں ممالک پہلے ہی شام اور لیبیا میں مخالف دھڑوں کی حمایت میں مصروف عمل ہیں۔ ایک اور محاذ ان میں معاندانہ احساسات کو مہمیز لگائے گا تو یہ عالمی امن کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔ ایسی صورتحال میں اقوام متحدہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ سیکرٹری جنرل کو چاہیے کہ اس خطے کے امن کی خاطر ایک خصوصی نمائندہ مقرر کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں