"JDC" (space) message & send to 7575

لہو پکارے گا آستیں کا

دو جنوری کی خون آشام رات کو اسلام آباد پولیس نے 21 سالہ طالب علم اسامہ ستی کو قتل کر دیا۔ انہیں شک تھا کہ اسامہ کسی ڈکیتی کی واردات میں ملوث ہے جو اسی رات ہوئی تھی ۔وہ اسلام آباد جہاں ڈکیتی کی درجنوں وارداتیں روزانہ ہو رہی ہیں اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے‘ اسے آخر اسامہ شہید ہی 'ڈاکو‘ کیوں لگا ؟یہ بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پولیس نے اپنے فرض کو اتنے بھونڈے طریقے سے کیوں ادا کیا؟ ملزم کو مجرم گردان کر قتل کرنے کا اختیار پولیس کو کس نے تفویض کیا ہے؟ جن شہریوں کی جان کی حفاظت پولیس کا فرض ہے وہ انہی شہریوں کی جان لے رہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون ہو یا ساہیوال کا دردناک واقعہ ہر جگہ پولیس کی بے حسی واضح ہے۔
اسلام آباد کا جی 13 سیکٹر نوآباد بستی ہے۔ یہاں کے باسی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں بھی یہاں رہتا ہوں اور اسامہ مرحوم کی فیملی بھی یہیں رہائش پذیر ہے۔ اسامہ کے دادا محمد یونس ستی کوٹلی ستیاں میں ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے‘ پھر وہ اسلام آباد آ گئے اور ایک تعلیمی ادارے کے پرنسپل رہے ۔ جاننے والے ان کا ذکر آج بھی عزت و احترام سے کرتے ہیں۔ ان کے بیٹے ندیم ستی ایک پرنٹنگ پریس چلاتے ہیں۔ میں انہیں ملا ہوں‘ وہ وضع قطع سے شریف انسان لگتے ہیں۔ ایسے خاندان ڈاکو نہیں پیدا کرتے۔
اسامہ کے بارے میں سوشل میڈیا میں آیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی چھوٹی سی کار بطور ٹیکسی بھی استعمال کرتا تھا۔ اسے میوزک کا شوق تھا اور وہ رباب بجاتا تھا۔ میں نے اسامہ کو کبھی دیکھا نہیں، لیکن پورے سیکٹر میں مجھے اس کے خلاف ایک بھی منفی بات پتہ نہیں چلی۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جی 13 میں دو تین ویلفیئر تنظیمیں ہیں، ان میں سے ایک ہماری Habitat سوسائٹی ہے جو گزشتہ دس سال سے مکینوں کے حقوق کا دفاع کر رہی ہے۔ مڈل کلاس آبادیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں سب کے دکھ درد سانجھے ہوتے ہیں۔ اسامہ کا درد سارے سیکٹر کا مشترکہ المیہ ہے۔ تمام آنکھیں اشک بار ہیں۔ سارے سیکٹر میں پوسٹر آویزاں ہیں کہ اسامہ ستی کے خون کا حساب دیا جائے۔ جی 13 کے مکین باقاعدگی سے پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مظاہرے کر رہے ہیں، اور کیوں نہ کریں‘ سانحہ بھی کوئی معمولی تو نہیں ہے اور پھر قاتل بھی وہ ہیں جو ہماری حفاظت پر مامور ہیں اور ہمارے ہی ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔
تعزیت ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ دو تین دن اسامہ ستی کے گھر وزرا اور اہم شخصیات کا تانتا بندھا رہا۔ جب میں فاتحہ کے لیے گیا تو نیئر بخاری، زمرد خان اور شفقت عباسی وہاں موجود تھے۔ ٹی وی چینلز کی کئی گاڑیاں گھر کے باہر کھڑی تھیں۔ سانحہ ایسا تھا جس نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔اسامہ کے والد ندیم ستی کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کا چند روز پہلے کسی بات پر پولیس سے جھگڑا ہوا تھا‘ اس بات کا بدلہ لینے کے لیے پولیس نے اسے کار سے نکال کر بیدردی سے قتل کیا۔ والد کے مطابق اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر خون کا کوئی نشان نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کار پر گولیوں کے نشان بعد میں کارروائی ڈالنے کے لیے لگائے گئے۔ 
چلیں ایک منٹ کے لیے مان لیتے ہیں کہ اسامہ ستی پولیس کی نظروں میں مشکوک تھا اور یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ اُس منحوس رات کو پولیس کو اسامہ کے کسی نئی واردات میں ملوث ہونے کا شک گزرا‘ تو کیا ہماری پولیس اتنی ہی نکمی ہے کہ کار کے ٹائر پر فائر کر کے اسے روک نہ سکی؟ ملزم پر جسمانی کنٹرول کی تربیت پوری دنیا میں پولیس مین کو دی جاتی ہے۔ آپ نے ٹی وی پر اکثر دیکھا ہو گا کہ مغرب میں ملزم اگر سرنڈر نہ کرے تو پولیس مین اسے چند سیکنڈ میں زمین پر گرا کر ہاتھ پائوں باندھ دیتے ہیں۔ اگر ملزم مزاحمت کرے تو بھی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس کی ٹانگ کے نچلے حصے کو زخمی کیا جائے۔ اسامہ کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا تو پھر اس بے گناہ کا سینہ گولیوں سے کیوں چھلنی کیا گیا؟ یقینا ہماری پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت میں بہت بڑی کمی ہے۔
اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ وہ پولیس جس کا اولین فرض شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ہے وہ خود دہشت گرد تنظیم کیسے بن گئی؟ پولیس پر دہشت گردی کی تہمت لگاتے ہوئے میرے ذہن میں سانحہ ماڈل ٹائون، ساہیوال کی ٹریجڈی اور اسلام آباد کا المناک واقعہ پھر سے آ رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ظلم ہم نے خود اپنے ساتھ کیا ہے۔انگریز کے وضع کردہ نظام میں پورے ضلع میں امن و امان ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری تھی جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتا تھا۔ پولیس انتہائی خطرناک مظاہرے پر بھی ڈیوٹی مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر فائر نہیں کر سکتی تھی یہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام تھا جو ڈیڑھ صدی تک کامیابی سے چلا۔ 2002ء میں پرویز مشرف نے اس آزمودہ نظام کو بدلنے کی کوشش کی۔ لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر سے لے کر ضلعی ناظم کو دے دی گئی جو بذات ِخود کوئی دانشمندانہ اقدام نہ تھا۔ پولیس کو لوکل سیاست دان کے تابع کر دیا جائے تو نتائج لا محالہ بھیانک نکلتے ہیں۔
پرویز مشرف کے جاتے ہی ناظم بھی رخصت ہوئے۔ 2002ء کے پولیس کے نظام کیلئے جنرل صاحب نے ایک ہائی لیول کمیشن بنایا تھا۔ برطانیہ سے ایک پاکستانی نژاد سول سرونٹ کو اس مقصد کیلئے امپورٹ کیا گیا۔ کمیشن کی سفارشات میں سب سے اہم یہ تھی کہ ہر صوبے میں ایک پبلک سیفٹی کمیشن بنایا جائے گا جو حکومتی اور غیر حکومتی اچھی شہرت والی شخصیات پر مشتمل ہو گا۔ اگر پولیس کسی شخص سے ظلم، زیادتی کی مرتکب ہو گی تو وہ پبلک سیفٹی کمیشن سے شکایت کر سکے گا اور اس فورم پر اس کی شنوائی ہو گی‘ مگر پبلک سیفٹی کمیشن نہ بن سکے۔ پولیس ڈپٹی کمشنر سے پہلے ہی آزاد ہو چکی تھی لہٰذا اب وہ مادر پدر آزاد ہو گئی اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ جب آپ ایک نیم خواندہ کانسٹیبل کے ہاتھ میں بندوق دے دیں اور اسے احتساب کا ڈر بھی نہ ہو تو پھر وہ دہشت گردی ضرور کرے گا۔ 
اسامہ ستی مرحوم میں تو اسلام آباد پولیس کو فوراً ڈاکو نما شخص نظر آ گیا مگر وہ چار ڈاکو جو میرے گھر کی دیواریں پھلانگ کر ہمارے بیڈ روم میں مع اسلحہ 19 مئی 2010ء کو گھس آئے تھے اور تمام مال و متاع کے ساتھ بڑے سکون سے براستہ بارہ کہو واپس آزاد کشمیر چلے گئے تھے وہ پولیس کو کیوں نظر نہیں آئے حالانکہ وہ سالہا سال تک وارداتیں کرتے رہے۔ اشتہاری تھے اور مبینہ طور پر ایک افسر کے قتل میں بھی ملوث تھے۔ گینگ کا سرغنہ آج بھی اٹھمقام میں موجود ہے‘ یہ تمام لوگ ایجنسیوں نے مسروقہ موبائل فونوں کے استعمال سے ٹریس کر لئے۔ جو سب انسپکٹر انہیں گرفتار کرنے جاتا تھا اس کے ٹخنے میں نقص تھا وہ پھرتیلے مجرموں کو کیسے پکڑتا؟ اس کی جگہ جو تفتیشی لگا وہ شوگر کا مریض تھا‘ دوڑنا تو دور کی بات اس سے تیز چلا بھی نہیں جاتا تھا۔ اسلام آباد پولیس مانگ تانگ کے جمع کیا ہوا مکسڈ اچار ہے ، اس کی تربیتِ نو کی ضرورت ہے۔ یہاں میرٹ اور اعلیٰ تربیت لاگو ہو گی تو بات بنے گی۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ پولیس میں ایسے بے رحم لوگ نہیں ہونے چاہئیں۔ پولیس ریفارم وقت کی اشد ضرورت ہے، آپ کوشش کریں تو شاید یہ سہرا پی ٹی آئی حکومت کے سر بندھ جائے۔ کمیشن ایسا بنائیں جس میں طارق کھوسہ، ذوالفقار چیمہ اور بشیر میمن جیسے بے داغ افسر ہوں۔ اسامہ ستی شہید کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ اس کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں