"JDC" (space) message & send to 7575

بلاول بھٹو اور راہول گاندھی

بلاول بھٹو اور راہول گاندھی میں مجھے خاص مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں کو سیاسی قیادت ورثے میں ملی۔ دونوں کے خاندان ایک عرصے سے انڈیا اور پاکستان میں گھر گھر جانے جاتے ہیں۔ کانگرس پارٹی کا انڈیا میں اور پیپلز پارٹی کا پاکستان میں اب بھی اچھا خاصا ووٹ بینک ہے لیکن مرکزی سطح پر پچھلے الیکشن میں دونوں پارٹیاں ہار گئیں۔ دونوں کے خاندانی بزرگ دہشت گردی کا شکار ہوئے لہٰذا نہرو گاندھی خاندان ہو یا بھٹو زرداری فیملی‘ دونوں کے ووٹ بینک میں ہمدرد ووٹر نظر آتے ہیں۔ دونوں کی سیاسی جماعتیں سیکولر نظریات کی حامل رہی ہیں اور عوامی سوشلسٹ جمہوریت کی حامی ہیں ۔دونوں سنگل ہیں اور دونوں نے انگلینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنے ممالک کے دیسی ماحول میں ایڈجسٹ کرنے کی دونوں کو کوشش کرنا پڑی۔
بلاول بھٹو راہول کے مقابلے میں کم عمر ہیں لیکن 2007ء میں بینظیر کی شہادت کے بعد بلاول کو انیس سال کی عمر میں سیاست میں آنا پڑا۔ راہول کی طرح بلاول بھی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ بلاول نے 2018ء میں تین حلقوں سے الیکشن لڑا مگر صرف لاڑکانہ سے ہی جیت سکے۔ 2019 ء کے الیکشن میں راہول کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا مگر تھوڑا مختلف‘ وہ رائے بریلی کے حلقہ امیٹھی سے ہار گئے حالانکہ یہ حلقہ طویل عرصے سے ان کے خاندان کو اقتدار میں رکھنے کیلئے اہم کردارادا کرتا تھا۔ انتخاب کے نتائج سے واضح ہے کہ دونوں لیڈروں کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو منوانا ہوگا‘ وہ صرف 'پدرم سلطان بود‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے بڑے لیڈر نہیں بن سکتے۔
بلاول بھٹو حال ہی میں پیپلز پارٹی کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ 2007 ء میں سیاست میں آنے کے بعد وہ بار بار اپنی والدہ کا مقولہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ دہراتے رہے۔ 2018ء کے الیکشن کیلئے منشور کا اعلان کرنے میں پیپلز پارٹی نے پہل کی تھی۔ ان کا نعرہ تھا ''بی بی کا کہا نبھانا ہے پاکستان بچانا ہے‘‘ اگر وہ اس نعرے کے ساتھ جڑے رہتے تو پورے پاکستان کے معتبر لیڈر بن سکتے تھے لیکن وہ اپنے والد کے سیاسی سائے سے باہر نہیں نکل پائے۔ جب پیپلز پارٹی یا زرداری فیملی کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے تو وہ سندھ کارڈ نکال لیتے ہیں‘ اُس وقت وہ اپنی والدہ کا کہا بھول جاتے ہیں کہ پورے پاکستان کو بچانا ہے۔
جی ہاں! جمہوریت بہترین انتقام ہے اور میری نظر میں اچھا نظام بھی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے اندر جمہوریت کمزور ہے یہاں اعتزاز احسن‘ شیری رحمن اور قمر الزمان کائرہ جیسے کہنہ مشق اور پائے کے لیڈر ایک نوجوان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں‘ وہ پارٹی ہیڈ اس لئے نہیں بن سکتے کہ وہاں بھٹو زرداری خاندان کا قبضہ ہے۔ بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی لازم و ملزوم ہو چکے ہیں اور یہ ان کی قربانیوں کی بدولت ہے مگر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ بھٹو خاندان کی بے پناہ قربانیوں کا سیاسی فائدہ آصف زرداری نے خوب اٹھایا اور اپنے بیٹے کیلئے سیاسی بوجھ بھی بن گئے۔ اگر بلاول اس سیاسی بوجھ سے آزاد ہو کر پیپلز پارٹی کو نیا امیج دیتے تو اُن کا سیاسی قد کاٹھ زیادہ بلند ہوتا۔
اُدھر راہول گاندھی جس کی عمر اب پچاس سال سے متجاوز ہے‘ سیاست میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پایا۔ پنجاب شروع میں پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کا سر چشمہ ہوتا تھا‘ 2008ء میں بھی بینظیر بھٹو سے ہمدردی کا ووٹ پنجاب سے خوب ملا لیکن 2013ء تک صورت حال بدل چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی سے لوگ مایوس تھے آصف زرداری کا مجموعی امیج منفی تھا اور بلاول ابھی سیاسی میدان میں تربیت کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ 2013ء میں پنجاب کے ووٹر نے پیپلزپارٹی سے منہ موڑ لیا۔ پنجاب میں جیالوں کا جوش بھی روبہ زوال تھا پیپلز پارٹی کے لیڈر تو سرے محل جیسی جائیدادوں کے مالک بن گئے‘ لیکن عوام کچی بستیوں میں ہی رلتے رہے۔
ادھر انڈیا میں‘ جہاں یو پی جیسا بڑا اور گنجان آباد صوبہ کانگرس کا گڑھ ہوتا تھا وہاں 2014ء کے الیکشن میں لوک سبھا کی 80 نشستوں میں سے صرف دو ہی کانگرس کو مل سکیں۔ بی جے پی نے مودی کی قیادت میں الیکشن جیتا۔ 2019ء کے الیکشن میں پھر وہی ہوا۔ اس مرتبہ راہول رائے بریلی سے اپنی فیملی کی پرانی اور فیورٹ نشست ہار گئے‘ انہیں لوک سبھا کا ممبر کیرالہ کے ووٹرز نے بنایا ہے۔ پچھلے دو انتخابات میں کانگرس کی شکست کو اکثر مبصرین راہول گاندھی کی کمزور حکمت عملی سے منسوب کرتے ہیں۔
الیکشن لڑنا اب آرٹ سے ترقی کر کے سائنس بن گیا ہے۔ ٹکٹوں کی صحیح تقسیم اور ہم خیال پارٹیوں سے بروقت سیٹ ایڈجسٹمنٹ الیکشن سٹرٹیجی کا بنیادی جز ہیں اس کے علاوہ پارٹی قائد کا سیاسی قد کاٹھ اور عوامی رابطے اہمیت کے حامل ہیں۔ آج کا ووٹر پارٹی اور اس کے ٹکٹ ہولڈر کی ماضی کی پرفارمنس کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔راہول گاندھی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ سیاست میں آ تو گئے ہیں لیکن انہیں اقتدار میں آنے کا بہت زیادہ شوق نہیں ہے حالانکہ سیاست اور اقتدار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ‘اقتدار میں آ کر ہی سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر عمل کر سکتی ہیں۔ سیاسی لیڈر کو بہت متحرک اور بااعتماد ہونا چاہئے ۔ راہول میں اعتماد کی کمی نظر آتی ہے‘ بقول سابق امریکی صدر باراک اوباما ‘وہ انہیں کسی حد تک نروس لگے۔ اوباما نے راہول گاندھی کو ایسے سٹوڈنٹ سے تشبیہ دی جو محنتی ہونے کے باوجود امتحان سے پہلے پُراعتماد نہ ہو۔ چند سال پہلے راہول نے ایک جملہ بولا تھا جو ان کی شخصیت اور سیاسی سوچ کا عکاس تھا۔ راہول نے کہا تھا: Power is Poison یعنی اقتدار زہر ہے‘ شاید یہ بات اُس نے اپنے والد راجیوگاندھی اور دادی اندرا گاندھی کے دہشت گردی کے شکار ہونے کی وجہ سے کہی ہو۔ راہول کے بارے میں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کانگرس کے جلسوں میں لوگ دراصل اس کی بہن پریانکا کو سننے آتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں بھی لوگ بلاول کو سننے کی بجائے آصفہ بھٹو کو سننے آئیں۔
2019 ء کے الیکشن سے پہلے نریندر مودی کو بہت سارے چیلنج درپیش تھے۔ اکنامک گروتھ سلو ہو رہی تھی‘ نوٹ بدلی (Demonetisation)نے مزید مسائل کھڑے کر دیے تھے اور لوگ GST یعنی جنرل سیلز ٹیکس سے خوش نہ تھے۔ مودی کو الیکشن جیتنے کیلئے پلوامہ کا ڈرامہ رچانا پڑا۔ راہول مودی کے مسائل سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ راہول کی طرح بلاول نے بھی اپنی پارٹی کا زوال دیکھا ہے۔ یہ دونوں لیڈر اپنی سیاسی جماعتوں کو واپس اصل پوزیشن میں لا سکتے ہیں مگر مجھے یہ کام خاصا دشوار لگتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے لمبی محنت درکار ہے۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والوں کیلئے یہ کام اور بھی مشکل ہے۔
جس طرح راہول 2019ء میں دوسری ہم خیال پارٹیوں سے ہمکاری کر کے نریندر مودی کو ہرا نہ سکا اُسی طرح پاکستان میں بلاول پی ڈی ایم کی تحریک میں سولو فلائٹ کرتے نظر آتے ہیں‘ وہ کوئی بڑا رسک لینے کے حق میں نہیں۔ راہول اور بلاول کی نسبتاً کمزور شخصیات کی وجہ سے کانگرس کی اصل پلاننگ سونیا گاندھی اور پیپلز پارٹی کی تُرپ کی چالیں آصف زرداری کے پاس ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں