"JDC" (space) message & send to 7575

فارن سیکرٹری، ایک اہم اور حساس عہدہ

آج کل نئے فارن سیکرٹری کی تعیناتی آخری مراحل میں ہے کیونکہ فارن سیکرٹری سہیل محمود اپنی اننگز کے آخری اوورز کھیل رہے ہیں۔ اس عہدے کیلئے تین چار نام گردش کر رہے ہیں۔ ان چاروں میں سے کسی نے میرے ساتھ کام نہیں کیا لہٰذا میرے لیے سب برابر ہیں اور ویسے بھی اپنے سابقہ ادارے کو مفت مشورے دینا میری عادت نہیں۔ مجھے ریٹائر ہوئے چودہ سال ہونے کو ہیں اور بقول کسی عاقل و دانا شخص کے ع رموزِ مملکت خویشِ خسرواں دانند۔ یعنی اپنی حکومت کی گتھیاں حکمران ہی جانتے ہیں؛ البتہ اس عہدے کی اہمیت اجاگر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور قارئین کو وزارت خارجہ کے رول سے روشناس کرانے کیلئے اچھے اور مؤثر سربراہانِ فارن آفس کی خوبیوں کا بیان بھی مفید ہو سکتا ہے کیونکہ اس عہدے پر متمکن رہنے والے چند اچھی روایات چھوڑ کرگئے ہیں اور کئی آج بھی رول ماڈل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
فارن سیکرٹری خارجہ پالیسی کے حوالے سے حکومت کا اہم ترین ایڈوائزر ہوتا ہے۔ وہ تازہ ترین سٹریٹیجک صورتحال کے تناظر میں حکومت کو ممکنہ آپشن بتاتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وزارتِ خارجہ یا فارن سیکرٹری علیحدہ سے خارجہ پالیسی نہیں بناتے۔ اس عمل میں پارلیمنٹ اور دیگر اہم ادارے بھی شریک ہوتے ہیں مگر فارن سیکرٹری اگر مؤثر اور مستعد ہو تو اس کی رائے کو اگنور نہیں کیا جا سکتا۔ فارن سیکرٹری کے پاس خارجہ امور کا لمبا تجربہ ہوتا ہے اور وہ پاکستان کے مفادات اور خارجہ امور میں امکانات کا خوب ادراک رکھتا ہے کیونکہ فارن سیکرٹری عام طور پر ایسا افسر بنتا ہے جو اہم اور حساس قسم کی پوسٹنگ متعدد بار کر چکا ہو اور سیاسی اور انتظامی امور‘ دونوں کا تجربہ رکھتا ہو۔
ماضی میں فارن سیکرٹری رہنے والے افسروں کی لمبی فہرست ہے۔ آغا شاہی اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے‘ انہیں ایک لیجنڈ کہا جا سکتا ہے اور بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کی کامیابی میں آغا شاہی کا اہم رول تھا لیکن میں نے بہت کم عرصہ ان کی لیڈرشپ میں کام کیا لہٰذا زیادہ لکھنے سے قاصر ہوں۔ عبدالستار مرحوم فارن سیکرٹری کے علاوہ وزیر خارجہ بھی رہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھی ہوئی ان کی کتاب آج بھی سند ہے۔ خارجہ پالیسی کے تمام اہم پہلوئوں پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ دو طرفہ اور ہمہ جہت سفارتکاری‘ دونوں کو خوب جانتے تھے۔ دو مرتبہ انڈیا میں ہائی کمشنر رہے۔ اکثر سفرا کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے منصب سے چمٹے رہیں کیونکہ سفیر کو بہت سی مراعات ملتی ہیں۔ ستار صاحب دوسری مرتبہ نئی دہلی گئے تو محسوس کیا کہ انڈین لیڈرشپ کا رویہ ان کے بارے میں منفی ہے لہٰذا خود لکھا کہ انہیں واپس بلا لیا جائے۔ یہ ان کے اعلیٰ پیشہ ورانہ کردارکی دلیل تھی۔ نیاز اے نائیک انتہائی نفیس انسان تھے اپنے ماتحتوں سے بھی دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے۔ ان کے عہدے میں جنرل ضیاالحق صدر پاکستان تھے۔ جنرل صاحب ان کی پروفیشنل قابلیت کے قائل تھے۔ امورِ خارجہ پر بریفنگ لینے خود متعدد بار فارن آفس آئے۔ جنرل صاحب لوگوں کو اپنی خوش اخلاقی سے مرعوب کرتے تو کم نائیک صاحب بھی نہیں تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لمبا عرصہ انڈیا کے ساتھ ٹریک ٹوڈپلومیسی میں مشغول رہے۔
ڈاکٹر ہمایوں خان مختصر عرصہ فارن سیکرٹری رہے۔ قابل آدمی تھے اور اصولوں کے پکے۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے پرائیویٹ سیکٹر سے ایک خاتون کی نیویارک میں بطور قونصل جنرل تعیناتی کی تو ڈاکٹر صاحب ڈٹ گئے کہ قاعدے قانون کے مطابق صرف حاضر سروس افسر ہی قونصل جنرل لگائے جا سکتے ہیں‘ بات ان کی درست تھی۔ وزیراعظم کو اپنا مؤقف تبدیل کرنا پڑا۔ میں ایک ذاتی نوعیت کے تجربے کی وجہ سے بھی ڈاکٹر ہمایوں خان کو نہیں بھول سکتا۔ غالباً 1988ء کی بات ہے میں ریاض میں قونصلر تھا۔ باہر پوسٹنگ کو چھ سال ہونے کو تھے۔ میرے منجھلے بیٹے کی عمر پانچ سال سے متجاوز تھی مگر وہ پورے جملے نہیں بولتا تھا۔ ایسے بچوں کو سپیچ تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاض میں یہ سہولت میسر تھی لیکن اس وقت اسلام آباد میں یہ اختصاص ناپید تھا۔ میں نے فارن سیکرٹری کو خط لکھا کہ اس ذاتی پرابلم کی وجہ سے مجھے ریاض میں ایک سال اور رہنے دیا جائے مگر میری درخواست رد ہوگئی۔ میں واپس آنے کی تیاری کر رہا تھا کہ ڈاکٹر ہمایوں خان بطور فارن سیکرٹری آ گئے۔ میں نے ایک خط انہیں بھی لکھ دیا۔ جواب آیا کہ آپ ریاض میں مزید ایک سال رہ سکتے ہیں۔ اس وقت تک میری ڈاکٹر صاحب سے صاحب سلامت بھی نہ تھی۔ اس واقعہ سے ان کی عظمت بھی عیاں ہے۔ پرنس آف بھوپال شہریار محمد خان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ وہ اپنے کام کو خوب جانتے تھے ۔ ٹینس اور کرکٹ کا شوق تھا بعد میں پی سی بی کے چیئرمین بھی رہے۔ موسیقی کا شوق تھا۔ غلام فرید صابری کو اردن بلایا اور پورا ایک ہفتہ رکھا۔ منسٹری کے افسران کے نام انہیں یاد تھے۔ ہر ایک سے شفقت سے پیش آتے۔ فارن سیکرٹری نجم الدین شیخ کی لیاقت آج بھی مسلمہ ہے۔ فارن پالیسی کے مختلف موضوعات پر ان کے کالم اہتمام سے پڑھے جاتے ہیں۔ شمشاد احمد خان اسی فہرست کا ایک اور بڑا نام ہے۔ صاحبِ کتاب ہیں اور آج کل آپ بیتی کی شکل میں یادداشتیں رقم کر رہے ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ گاہے گاہے فون پر کنسلٹ کر لیتے ہیں۔ ایٹمی دھماکے ان کے دور میں ہوئے اور وہ اس ضمن میں یکسو تھے۔ سارا احوال ان کی کتاب میں آئے گا۔
انعام الحق صاحب نہ صرف لائق فائق ہیں بلکہ اپنے صحیح مؤقف پر ڈٹ جانے والے افسر ہیں۔ سفرا کے تعین کی سمری فارن سیکرٹری کے دستخط سے جاتی ہے‘ ایک سمری میں انعام صاحب نے میرٹ کی بنا پر ایک سینئر افسر کی جنیوا کیلئے سفارش کی۔ جنرل مشرف کا زمانہ تھا۔ جواب آیا کہ تجویز شدہ افسر کی جگہ فلاں افسر کا نام بھیجا جائے۔ انعام صاحب نے قصر صدارت کا قصد کیا اور جنرل مشرف سے کہا کہ اپنی وزارت کے افسروں کو میں بخوبی جانتا ہوں۔ مشرف نے خوش دلی سے اپنے احکامات واپس لے لیے۔
جب میں 2003ء میں یونان سے وزارت میں واپس آیا تو ریاض کھوکھر فارن سیکرٹری تھے۔ سروس کا آغاز ماسکو سے کیا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ڈائریکٹر منٹس (Director minutes) رہے۔ انڈیا میں ڈپٹی ہائی کمشنر رہے۔ ڈھاکہ میں ہائی کمشنر تھے اور پھر نئی دہلی، واشنگٹن اور بیجنگ میں سفارتکاری کی۔ اتنے وسیع تجربے کے بعد فا رن سیکرٹری بنے۔ ان کے دور میں صاحبزادہ یعقوب خان بلاک کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ افسروں کیلئے اٹھارہ نئے فلیٹ بنے۔ میری سروس کے دورانیے کے آخری فارن سیکرٹری ریاض محمد خان تھے۔ ان کا نام لوگ آج بھی عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ دوجید کتابوں کے مصنف ہیں۔ چھ سال تک افغانستان ڈیسک پر رہے۔ کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کی بیگم امریکن ہیں بلکہ وہاں کے فارن آفس کا حصہ رہی ہیں۔ یہ شادی حکومت پاکستان کی منظوری سے ہوئی تھی۔ جب ان کا نام فارن سیکرٹری کیلئے تجویز ہوا تو ریاض صاحب نے دوبارہ اس امر کی طرف اشارہ کیا لیکن حکومت کی چوائس درست تھی۔ یہ چاہتے تو کب کی امریکن شہریت لے چکے ہوتے مگر وہ آج بھی سبز پاسپورٹ پر فخر سے سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کئی افسروں کو باہر ٹریننگ پر بھیجا۔ ان کے دروازے ہر وقت رفقائے کار کیلئے کھلے رہتے تھے۔ ریاض صاحب سے رائے مانگی گئی کہ بینظیر شہادت کیس کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کو لانا چاہیے، ان کا جواب نفی میں تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس جواب کے بعد نئے فارن سیکرٹری کا آنا لازمی تھا‘ ریاض صاحب اپنے موقف پر قائم رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں