"JDC" (space) message & send to 7575

خلیج میں انقلابی تبدیلیاں

دو اہم خلیجی ممالک میں داخلی اور خارجی اعتبار سے بنیادی تبدیلیاں اس سال ہوئی ہیں۔ میں نے اس خطے میں کئی سال سروس کی ہے۔ اس وقت یہ تصور بھی محال تھا کہ ریاض جیسے کنزرویٹو (Consevative) شہر میں کسی انڈین فلمسٹار کا کنسرٹ ہو سکے گا۔ عرب امارات نے عرصے تک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کئے رکھا۔ آج دونوں ملکوں کی تجارت ایک بلین ڈالر سالانہ کو کراس کر رہی ہے اس سال ایک لاکھ سے زائد اسرائیلی ٹورسٹ دبئی آئے ہیں۔ اسرائیلی ہوائی جہازوں کو سعودی عرب کی فضا میں اوورفلائی کرکے عرب امارات جانے کی اجازت ہے۔
عرب امارات سات ریاستوں کا اتحاد ہے۔ سوشل قوانین ہر ایک کے اپنے ہیں۔ مثلاً دبئی میں شراب کا حصول آسان ہے تو شارجہ میں بہت مشکل، دبئی میں نائٹ لائف ہے یعنی رات کو چند بڑے ہوٹلوں میں رقص و سرود کی محفلیں ہوتی ہیں تو ابوظہبی کے فائیو سٹار ہوٹل بھی مغرب کے بعد سوئے سوئے لگتے ہیں۔ دبئی کے علاوہ باقی چھ ریاستوں کا ماحول روایت پسند رہا ہے۔ دبئی کے پاس چونکہ تیل کم تھا لہٰذا وہاں کے عقلمند حکام نے سوچا کہ تیل کی کمی کو ٹورازم، شپنگ اور تجارت سے پورا کیا جائے۔ غیر ملکی صنعت کاروں کو سرمایہ کاری کی مکمل ترغیب دی گئی۔ جو فارنر پراپرٹی خریدے اس کو ریذیڈنس ویزا فوراً مل جاتا تھا۔ اعلیٰ درجے کے پروفیشنل ایئر پورٹ دیجیٹل کارڈ لے سکتے تھے جس کی وجہ سے انہیں لمبی قطاروں میں کھڑا ہونے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی تھی۔ شاندار گورننس اور امن و امان کی وجہ سے شمالی امریکہ اور یورپ سے کئی پروفیشنل دبئی میں کام کی غرض سے مقیم تھے اور اب بھی ہیں۔ ٹیکس یہاں نہ ہونے کے برابر تھے۔ ساحل سمندر پر شمسی شعاعوں سے لطف اندوز ہونے کا وافر بندوبست تھا۔
دبئی کے حکام کو معلوم تھا کہ وہاں کی ترقی اعلیٰ تعلیم یافتہ فارن پروفیشنل اور ہنر مند ورکر کی وجہ سے ہے۔ چند ماہ پہلے ایک نیا قانون آیا ہے کہ غیر شادی شدہ جوڑے اگر اکٹھے رہائش پذیر ہوں تو یہ قابل تعزیر جرم نہیں ہوگا۔
سعودی عرب کے بارے میں مغربی ممالک میں تنقید ہوتی تھی کہ خواتین کے لباس کے بارے میں بہت سختی ہے۔ غیرملکی خواتین عبایہ کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ خواتین کار نہیں چلا سکتی تھیں۔ کئی سال پہلے اشرافیہ کی چند خواتین نے اکٹھے ریاض کی سڑکوں پر کاریں چلائیں تو چند ایک کو گرفتار کر لیا گیا۔ چند ایک سرکاری ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ آج پورے سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیو کرنے کی آزادی ہے۔
2014ء کی بات ہے میں ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے ریاض گیا۔ وہاں سعودی مجلس شوریٰ کی خواتین اراکین سے بھی ملاقات ہوئی۔ مجھے وہ بہت پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی خواتین لگیں۔ شاہ عبداللہ کے زمانے میں ہی سعودی عرب میں پہلی مخلوط یونیورسٹی قائم ہوئی البتہ کلاس روم کے درمیان میں ایک پارٹیشن لگائی جاتی تھی۔
سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان اپنے ملک کو صنعتی ترقی کا ماڈل بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ٹورازم کو پروموٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ویژن 2030ء اقتصادی تنوع پر مبنی ہے۔ وہ تیل کی دولت پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا تعمیر کردہ نیا شہر نیوم (Neom) ہائی ٹیکنالوجی کا شہر ہوگا۔ سعودی شہروں میں سینما گھر کھل گئے ہیں۔ فارن خواتین کیلئے عبایہ پہننا لازمی نہیں رہا۔ سعودی عرب کے حکام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اقتصادی ترقی انکی اولین ترجیح ہے اور اگر غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے ملک کو دلکش بنانا ہے تو قدیم روایات اور رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
اور اب آتے ہیں خارجی تبدیلیوں کی جانب۔ یو اے ای اس فیلڈ میں بھی آگے نظر آتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ نے شام کا دورہ کیا ہے اور صدر بشارالاسد سے ملاقات کی ہے۔ چند سال پہلے تک خلیجی ممالک شام میں بعث پارٹی کی حکومت بدلنے اور بشارالاسد کے اقتدار چھوڑنے پر مُصر تھے۔ یہ بھی خلیجی ممالک کی حقیقت پسندی ہے کہ زمینی حقائق کو جلد تسلیم کر لیا ہے اور شامی حکومت کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینٹ (Naftali Bennett) نے حال ہی میں عرب امارات کا دورہ کیا۔ وزٹ کے دوران اقتصادی تعاون پر زور دیا گیا‘ لیکن میرے خیال میں اس دورے کے سیاسی مضمرات بھی کم اہم نہیں۔ دورے سے پہلے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ عسکری مشقیں ہوئیں۔ چند سال پہلے تک اس بات کا تصور بھی محال تھا۔ دراصل ایران سے اسرائیل اور خلیجی ممالک کی مخاصمت ایک مشترکہ فیکٹر ہے جو دونوں اطراف کو قریب تر لایا ہے۔
اور اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ آج کی عرب دنیا اسرائیل سے مقابلے کے قابل نہیں رہی۔ ٹاپ کے اسرائیل مخالف ملک یعنی شام، لیبیا اور عراق اب نحیف و نزار نظر آتے ہیں۔ مصر نے تو عرصہ ہوا اسرائیل سے صلح کر لی تھی‘ پھر اردن نے بھی سفارتی تعلقات استوار کر لیے۔ شام اور لیبیا کی قوت عرب سپرنگ کی نذر ہو گئی‘ لہٰذا خلیجی ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ اسرائیل سے لڑنے کے بجائے صلح زیادہ سودمند ہوگی۔
امریکہ کی خلیج میں دلچسپی قدرے کم ضرور ہوئی ہے۔ امریکہ اب خلیجی تیل کا محتاج نہیں رہا۔ یورپی ممالک بھی تیزی سے متبادل انرجی کے متبادل ذرائع کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کیلئے چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو محدود کرنا اولین ترجیح ہے۔ اسرائیل مڈل ایسٹ کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ مڈل ایسٹ کا کوئی اور ملک یہ صلاحیت حاصل کر لے، اس لئے وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی تجدید کے سخت خلاف ہے۔
نظریاتی سیاست ساری دنیا سے غائب ہو رہی ہے۔ خلیجی ممالک کو یقین ہو چلا ہے کہ فلسطین کو اب قوت بازو سے آزاد نہیں کرایا جا سکتا‘ لہٰذا اسرائیل مخالف نعرے لگانے کے بجائے اسرائیل سے صلح کر لی جائے۔ اس سے خلیج کے خطے میں بیلنس آف پاور قائم ہوگا۔ ایران کسی قسم کی مہم جوئی سے پہلے کئی بار سوچے گا۔
خلیج کے خطے میں سعودی عرب سختی سے اسلامی روایات کا نقیب رہا ہے‘ بلکہ اسلامی روایات میں قبائلی تقالید بھی شامل ہو گئیں‘ مثلاً اسلام تو خواتین کو کار چلانے سے منع نہیں کرتا۔ بعثت اسلام کے بعد خواتین نے غزوات میں بھی شرکت کی وہ اونٹوں پر سواری بھی کرتی تھیں۔ حرمین الشریفین کے محافظ ہونے کے ناتے سعودی عرب کی مسلم دنیا میں ایک خاص حیثیت ہے۔ سعودی حکومت نے حدود و قیود کے نفاذ کیلئے علیحدہ فورس رکھی ہوئی تھی جنہیں مطوع یعنی Volunteer کہا جاتا ہے۔
آج کے سعودی معاشرے میں اصلاح پسند طبقہ بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ طبقہ زیادہ تر ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو مغربی ممالک سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں‘ لیکن قدیم روایات کے حامی بھی تعداد میں کم نہیں۔ اگر اصلاحات میں جلد بازی کی گئی تو شدید ردعمل بھی آ سکتا ہے۔
دبئی میں اہل کتاب کو قریب لانے کیلئے ایک ہی احاطے میں مسجد، کلیسا اور یہودی معبد تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی افواہ ہے کہ تینوں مذاہب کو یکجا کرکے ایک نہج پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔ شیخ الازہر نے اس آئیڈیا کی مخالفت کی ہے۔
ہمیں خطے میں تیزی سے بدلتی صورتحال کا بغور تنقیدی نگاہ سے مطالعہ کرتے رہنا چاہئے۔ سٹریٹیجک صورتحال بدل رہی ہے۔ ہمیں اپنے مفادات کا دفاع کرنا ہے۔ خارجہ پالیسی منجمد نہیں رہ سکتی۔ عرب ممالک جس ملک کو کل تک ازلی دشمن کہہ رہے تھے آج وہ دوست بن گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں