"JDC" (space) message & send to 7575

نہایت اہم فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں مشرف علی زیدی بنام صدر پاکستان کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔ مختصر فیصلہ چند ہفتے پہلے سنا دیا گیا تھا جس کے تحت چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمشن (HEC) ڈاکٹر طارق جاوید بنوری اپنے عہدے پر بحال ہو گئے تھے۔ سچ پوچھئے تو ڈاکٹر بنوری کی معطلی کبھی ہوئی ہی نہیں تھی‘ بس ایک عجیب طریقے سے اور نہایت عجلت میں ان کے عہدے کی مدت کم کر دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے متعدد غلط فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ بھی تھا۔
آئیے اس اہم فیصلے کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمشن تعلیم کے میدان میں اعلیٰ ترین ریگولیٹری اتھارٹی ہے جو نئی یونیورسٹیوں کو چارٹر دیتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں فنڈز کی تقسیم اور ریسرچ کے تمام اداروں کی نگرانی بھی ایچ ای سی کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ یہ ایک خود مختارہ ادارہ ہے۔ اس ادارے کے پیشرو کا نام یونیورسٹی گرانٹس کمشن تھا۔ اس ادارے کو موجودہ خود مختار شکل جنرل مشرف کے دور میں دی گئی۔ وزیراعظم اس ادارے کی کنٹرولنگ اتھارٹی ضرور ہیں لیکن روزمرہ کے معاملات میں حکم دینے کے مجاز نہیں۔ یہ بات اس فیصلے میں بھی دہرائی گئی ہے۔
مئی 2018 میں ڈاکٹر طارق جاوید بنوری کی تعیناتی بطور چیئرمین ایچ ای سی کی گئی تھی۔ اپنے شاندار تعلیمی، تدریسی، انتظامی اور ریسرچ کیریئر کی بدولت وہ اس ادارہ کے لیے نہایت مناسب چوائس تھے۔ انجینئرنگ میں گریجوایشن کے بعد سول سروس کا امتحان دیا اور سی ایس پی میں شامل ہو گئے۔ سروس سے جی بھر گیا تو ہارورڈ یونیورسٹی سے اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کر ڈالی۔ اقوام متحدہ میں شاندار طریقے سے خدمات سرانجام دیں۔ پاکستان میں ایک فعال تھنک ٹینک کی بنیاد ڈالی۔ امریکہ کی ایک مؤقر یونیورسٹی میں چھ سال ماحولیاتی اکنامکس پڑھائی۔ میری رائے میں ایچ ای سی کی خوش قسمتی تھی کہ اتنا لائق اور متنوع تجربہ رکھنے والا شخص اس ادارے کا سربراہ بنا۔ ایچ ای سی کے چیئرمین کے طور پر ان کی مدت ملازمت چار سال فکسد تھی‘ مگر پھر پچھلے سال اچانک یہ مدت دو سال کر دی گئی اور ایسا آناً فاناً ایک آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا۔
عدالت عالیہ نے بجا طور پر یہ واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ مفاد عامہ کا کیس ہے۔ ایک خود مختار ادارے کی آزادی کو غلط طریقے سے اور انتہائی عجلت میں سلب کرنے کی کوشش کی گئی‘ اور اس ساری کارروائی کا ہدف ایک شخص تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی عام حالات میں نہیں ہو سکتی۔ قانون سازی مقننہ کا کام ہے نہ کہ انتظامیہ کا۔
دوسری بات جو اس آرڈیننس میں واضح طور پر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ قانون سازی ایک شخص کو ہدف بنا کر کی گئی۔ یہ بات اس امر سے اور واضح ہو جاتی ہے کہ نئے قانون کا نفاذ بیک ڈیٹ (Back Date) سے کیا گیا۔ بعد میں اس آرڈیننس کو مقننہ سے منظور کرایا گیا اور اس طرح ایک خود مختار ادارے کی آزادی پر ضرب لگائی گئی۔ عدالت عالیہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ مقننہ کو قانون سازی آئین کے اندر رہ کر کرنا چاہئے تھی۔
ایچ ای سی کے رولز کے مطابق چیئرمین کو عہدے سے صرف کرپشن، نااہلی یا جسمانی اور ذہنی معذوری کی صورت میں ہی علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تینوں شرائط ڈاکٹر بنوری کے کیس پہ منطبق نہیں ہوتی تھیں۔ کرپشن اس شخص کے کبھی پاس سے بھی نہیں گزری۔ نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جسمانی اور ذہنی طور پر وہ سو فیصد صحت مند ہیں‘ لہٰذا حکومت کے کارندوں کو ایک انوکھا طریقہ کار وضع کرنا پڑا‘ صرف ایک شخص کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے۔ اور عدالت کی رائے میں یہ طریقہ غلط تھا۔
اور اب آتے ہیں اصل سبب کی طرف جو اس سارے قضیے کی وجہ سے بنا۔ عدالتی فیصلے میں یہ تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ وزیراعظم کی ایک ٹاسک فورس برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے‘ جس کے چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمن ہیں۔ میں نے اُن کا نام اس لئے لکھ دیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں بھی مذکور ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے زیر سرپرستی چند ادارے ہیں جو سائنس کے امور بالخصوص کیمیا اور حیاتاتی علوم میں ریسرچ کرتے ہیں۔ ریسرچ کے کام کے لیے ان اداروں کو ایچ ای سی سے ہر سال خطیر رقم ملتی ہے۔ فیصلے کے متن میں یہ رقم چالیس ارب روپے مذکور ہے۔
حکومتی قانون ہے کہ جو بھی ادارے سرکاری فنڈز استعمال کرتے ہیں انہیں آڈٹ کرانا پڑتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ سرکاری رقوم کا استعمال قاعدے قانون کے مطابق ہوا ہے‘ اور آج کل روایتی آڈٹ کے علاوہ پرفارمنس آڈٹ بھی ہوتا ہے‘ جس میں مستفید شدہ ادارے کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے کہ ادارے نے فنڈز استعمال کر کے کیسا کام کیا‘ لہٰذا ایچ ای سی تمام ریسرچ اداروں کے آڈٹ پر اصرار کرتا ہے۔ یہاں یہ دیکھا گیا کہ جو ادارے ڈاکٹر عطاالرحمن کی سرپرستی میں تھے وہ آڈٹ کرانے کی مزاحمت کر رہے تھے جبکہ ڈاکٹر طارق بنوری آڈٹ پر مصر تھے۔ فیصلے کے چند جملوں کا ترجمہ کچھ یوں ہے ''ریکارڈ سے واضح ہے کہ چیئرمین وزیر اعظم ٹاسک فورس ہائر ایجوکیشن کمشن کی پالیسی سے خود متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی مزاحمت خط و کتابت سے واضح ہے‘‘ اس سلسلے میں ایک خط کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں HEC کو کہا گیا کہ اس اداروں کو جانچ پڑتال سے استثنا دیا جائے‘ گویا حکومت ایک مقدس گائے کی سرپرستی کر رہی تھی۔
عدالت عالیہ نے اس فیصلے میں مفاد کے تصادم (Conflict of Interest) کا زاویہ بھی نمایاں کیا ہے یعنی وزیراعظم کی ٹیم میں کام کرنے والا ایک اہم شخص ریسرچ کے ادارے بھی چلا رہا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے لکھا ہے کہ یک فردی قانون سازی کا جواز نہیں۔ اس کیس میں ایسی قانون سازی کی گئی جس کا ہدف فرد واحد تھا۔ فیصلے میں ایسی قانون سازی کو Colourful legislation لکھا گیا ہے اور ڈکشنری کے مطابق یہ ایسی قانون سازی ہوتی ہے جو مقننہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہو مگر ظاہر یہ کیا جائے کہ دائرہ اختیار میں ہی ہے۔ عدالت عالیہ نے گویا مقننہ کے اس آرڈیننس کو منظور کرنے کے اقدام کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
دو ججوں کے اس بینچ کی سربراہی خود چیف جسٹس نے کی۔ بینچ نے اس بات کا بھی نوٹس لیا کہ چیئرمین ٹاسک فورس اپنے ریسرچ اداروں کو آڈٹ کے لیے پیش کرنے کے بجائے اخباروں میں کالم لکھ کر ان کی شاندار کارکردگی کی تشہیر کرتے رہے۔
ڈاکٹر بنوری نے 2018 میں جب اس عہدے کا چارج لیا تھا تو شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔ ہمارے ہاں روایت رہی ہے کہ ہر نئی حکومت آ کر پہلی حکومت کے کاموں کو ترک کرتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر بنوری موجودہ حکومت کو اس لیے بھی نہیں بھائے کہ ان کی تقرری گزشتہ حکومت نے کی تھی۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میں ڈاکٹر بنوری کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور وہ سو فیصد غیر سیاسی ہیں۔
ہمارا ایک المیہ اوسط درجے کی لیاقت یعنی Mediocrity بھی ہے۔ جب کوئی قد آور شخصیت ہمارے کسی ادارے میں آتی ہے تو ارد گرد کے درمیانے قد کے لوگ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ مجھے اس سارے قصّے سے ذاتی رنج یوں بھی ہوا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر رہا ہوں۔ ہمیں زعم تھا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی آئے گی‘ دو کے بجائے ایک پاکستان بنے گا۔ ہمارا خواب تھا کہ پاکستان عہدِ حاضر کی ریاستِ مدینہ ہوگا جہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہو گا‘ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اب بھی طاقتور لوگ آڈٹ یا احتساب سے استثنا چاہتے ہیں اور حکومت ان کی مدد کرتی ہے۔ ایسے تاریک حالات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ روشنی کی کرن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں