"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان، عرب سپرنگ اور جمہوریت

پچھلے آٹھ دس ہفتوں سے پاکستان میں سیاسی ہنگامہ آرائی اپنے عروج پر ہے۔ کوئی اس سال کے آغاز میں کہہ سکتا تھا کہ سیاست کا ہما جلد ہی شہباز شریف کے سر پر بیٹھے گا۔ کوئی پیش گوئی کر سکتا تھا کہ کپتان کی اننگز اتنی جلدی ختم ہو جائے گی۔ سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان نارمل ملک نہیں ہے۔ اپنے اس کلیم کے حق میں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ نارمل ملکوں کے بارے میں آپ بتا سکتے ہیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے‘ پاکستان کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ بقول سینئر سیاست دان اعتزاز احسن‘ پاکستان کے بارے میں حتمی پیش گوئی صرف ماضی کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔
حال ہی میں جمہوریت کا جو تاثر عام پاکستانی کے ذہن میں اجاگر ہوا‘ وہ مثبت نہیںہے۔ نیشنل اسمبلی کی خوبصورت چھت پر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ لکھے ہوئے ہیں۔ ہر اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا ہے پھر نعت رسول مقبولؐ پڑھی جاتی ہے۔ دونوں کے درمیان حدیث شریف پڑھی جاتی ہے۔ اس پاکیزہ آغاز کے بعد گالم گلوچ ہوتی ہے‘ فری سٹائل کشتی اور باکسنگ کے مناظر ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے زیادہ حسین ہونے کی وجہ سے اسمبلی ایسے بازار میں تبدیل ہو جاتی ہے جہاں مال و زر ہر فیصلے کی اساس ہوتا ہے لیکن میں پھر بھی پاکستانی جمہوریت سے ناامید نہیں ہوں کیونکہ جن ممبران پر ضمیر فروشی کا الزام لگا ان کا تناسب 12 فیصد بنتا ہے۔ یعنی 88 فیصد وفا شعار رہے۔
چند لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں عرب سپرنگ کا آغاز ہو رہا ہے اور عرب سپرنگ سے ان کی مراد اندرونی جنگ و جدل ہے جس میں بیرونی قوتیں بھی کود سکتی ہیں۔ انہیں اس سارے عمل میں ایک سپر پاور ملوث دکھائی دیتی ہے۔ نوجوان نسل عرب سپرنگ کی روح رواں تھی جو سیاسی اور سماجی حقوق مانگ رہی تھی‘ آزادیٔ اظہارِ رائے کی طلب گار تھی۔ عرب نوجوان نسل کا کردار کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کپتان کے نوجوان سپورٹر ادا کر رہے ہیں جو انصاف چاہتے ہیں‘ معاشرے سے کرپشن کے ناسور کو حراجی سے نکال دینا چاہتے ہیں‘ لیکن یہاں یہ لوگ ایک اہم فیکٹر کو نظر انداز کرتے ہیں کہ عرب سپرنگ آمرانہ حکومتوں کے خلاف بغاوت تھی جبکہ پاکستان میں 2008 کے بعد سے جمہوریت قائم ہے۔ عرب ممالک کے مقابلے میں یہاں اظہارِ رائے کی خاصی آزادی ہے یعنی جو پریشر ککر والی صورت حال عرب دنیا میں تھی وہ پاکستان میں نہیں ہے۔ یہاں دل کی بھڑاس نکالنے کے ذرائع میسر ہیں۔
دوسرا زاویہ مبینہ سازش کا ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات واضح ہے کہ عرب سپرنگ کا آغاز سپرپاور نے نہیں کرایا تھا‘ لیکن جب سپر پاور نے دیکھا کہ مصری نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے مسلسل نعرے لگا رہے ہیں تب یقینا امریکہ کی ہمدردیاں اس آمریت مخالف تحریک کے حق میں ہو گئیں مگر وہ نوجوان جو کپتان کے ساتھ ہیں وہ تو اپنے لیڈر کی سازش والی تھیوری پر مکمل اعتقاد رکھتے ہیں لہٰذا امریکہ مخالف ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت لنگڑی لولی ہی سہی لیکن عرب ملکوں کے مقابلے میں پھر بھی توانا ہے۔ یہاں دو آمروں یعنی ایوب خان اور پرویز مشرف کے خلاف کامیاب عوامی تحریکیں چلی تھیں۔ لوگ جیلوں میں گئے لیکن جمہوریت کی پاسداری کرتے رہے اور ستم ظریفی یہ کہ پاکستان میں پرائیویٹ میڈیا چینل ایک عسکری حکمران کے زمانے میں آئے اس لیے کہ جنرل مشرف کو پتہ تھا کہ لوگ مختلف آرا کو سننا پسند کریں گے۔ شاید ہی کسی اور آمریت میں ایسا ہوا ہو۔ عرب ممالک میں تو یقینا ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان میں ایوب خان سے لے کر اب تک متعدد بار میڈیا پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئی۔ ایوب خان کے زمانے میں پاکستان ٹائمز اور امروز کو سرکاری کنٹرول میں لایا گیا لیکن ایسے اقدام ایوب خان کے زوال کا باعث بنے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جمہوری حکومتیں بھی میڈیا کنٹرول کرنے کی متمنی رہیں۔ 1998 کی بات ہے پاکستان میں جمہوریت کا حسن جوبن پر تھا مگر ایک میڈیا ہاؤس پر انکم ٹیکس کے کیس بنے تاآنکہ حکومت اور میڈیا ہاؤس کا سمجھوتہ ہوگیا۔ ایک میڈیا ہاؤس کے مالک ماضی قریب میں پابند سلاسل رہے۔
لیکن پاکستان میں ایسے اقدامات کی مزاحمت بھی بھرپور ہوتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت Electronic Crimes Prevention Act میں ترمیم لائی تو سول سوسائٹی اور میڈیا تنظیموں نے بھرپور مخالفت کی۔ اس کے مقابلے میں عرب دنیا میں ایسی بھرپور مخالفت نظر نہیں آتی۔ صدر حسنی مبارک کے زمانے میں ایک ٹی وی اداکار نام جس کا ایمن نور تھا حکومت مخالف لطیفے سُنا کر مقبول ہوا۔ حوصلہ بڑھا تو صدر حسنی مبارک کی نقلیں بھی اتارنے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسے جیل جانا پڑا۔ عرب دنیا میں میڈیا کی آزادی پاکستان کے مقابلے میں بہت محدود ہے۔ پرائیویٹ چینل بھی دوسری حکومتوں پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن اپنی حکومت خلاف نہیں بول سکتے۔ مصر کے علاوہ یہی صورت حال میں نے شام میں دیکھی جہاں میں ساڑھے تین سال رہا۔
سازشی نظریہ پاکستان کی طرح مڈل ایسٹ میں بھی بڑا مقبول ہے۔ یہ نظریہ اُن معاشروں میں زیادہ مضبوط جڑیں پکڑتا ہے جہاں لوگ اپنی کوتاہیاں قبول کرنے کے بجائے تمام برائیوں کی ذمہ داری بیرونی طاقتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات ذہنی طور پر ناقابل قبول ہے کہ امریکہ کی ذرا سی سازش نے ہمارے کپتان کی اچھی خاصی حکومت کو دھڑام سے گرا دیا۔ پاکستان بنانا ری پبلک تو نہیں۔
اگر عرب سپرنگ سے مراد تباہی اور بربادی ہے جو سول وار سے آتی ہے تو اس بات کے امکانات موجود ہیں۔ جس معاشرے میں اسلحہ عام ہو، سیاسی، سماجی اور مذہبی روّیے انتہائی غیر معتدل ہوں، برداشت ختم ہو رہی ہو وہاں اندرونی لڑائیاں جنم لیتی ہیں۔ ہم لبنان کی صورت حال دیکھ چکے ہیں‘ کیا خوبصورت ملک تھا۔ دنیا جہاں سے لوگ وہاں پڑھنے اور سیاحت کی غرض سے آتے تھے اور اب کیا بن چکا ہے۔ لبنان میں تباہی عرب سپرنگ سے بہت پہلے اور جمہوریت کے باوجود آئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیں لمحۂ حال میں کیا کرنا چاہئے۔ میرے ذہن میں ذرہ برابر شک نہیں کر ہمارے لیے واحد راستہ جمہوریت کا ہے۔ آمریت عرب دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکی۔ مصر عسکری حکومت کی وجہ سے مضبوط نہیں ہوا۔ ہمارے لیے واحد راستہ آئین اور قانون کا ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال عدم استحکام اور بے یقینی کو بڑھا رہی ہے لہٰذا الیکشن جلد از جلد ہونا چاہئے۔ تمام سرکاری اداروں میں توسیعات کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ نئے چہرے نئی فکر اور نئی توانائی لے کر آتے ہیں۔
تو ہمارا پہلا کام ایک قابل اعتماد عبوری حکومت کا قیام ہونا چاہئے۔ ایسی حکومت جو صاف شفاف الیکشن کرا سکے۔ پاکستان کو عرب ممالک والی تباہی سے بچانا ہے تو ملک کو اسلحے سے پاک کریں‘ لیکن یہ کام اب اگلی حکومت ہی کرے گی۔ بے یقینی اور عدم استحکام معیشت کے دشمن ہیں۔ ملک کو بے یقینی کی دلدل سے نکالنا ہم سب کا فرض ہے۔ اللہ کرے کہ مضبوط جمہوری حکومت آئے جو عوام کو قانون کی حکمرانی، میرٹ اور انصاف دے سکے‘ جہاں ناظم جوکھیو کے خاندان کو انصاف مل سکے‘ جہاں عام آدمی لاوارث نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں