"JDC" (space) message & send to 7575

جب روم جل رہا تھا

یہ پہلی صدی عیسوی کا اتنا مشہور واقعہ ہے کہ دو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی ذہنوں میں تازہ ہے اور ضرب المثل بن چکا ہے‘ وہ یہ کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ نیرو اُس وقت سلطنت کا بادشاہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اُسے عوامی امور سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ موسیقی کا البتہ بہت شوق تھا۔ عوام میں وہ خاصا غیرمقبول تھا۔روم کی آبادی اُس وقت دس لاکھ تھی‘ گلیاں تنگ تھیں۔ قدیم شہروں کی طرح گھر ساتھ ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ شہر کے کل چودہ محلے تھے۔ آگ سٹیڈیم سے شروع ہوئی اور پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ روم چھ روز تک مسلسل جلتا رہا۔ چودہ میں سے دس محلے خاکستر ہو گئے اور دریں اثنا نیرو موسیقی سے محظوظ ہوتا رہا۔ کئی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ نیرو کی حکومت کے پاس آگ بجھانے کی صلاحیت نہیں تھی۔ بہرحال اب یہ عوام کی انتہائی مشکلات میں حکمرانوں کی بے حسی کی علامت بن چکا ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کہتے ہیں کہ پاکستان 2018ء سے دیوالیہ پن کی حالت میں ہے۔ بس ہم نے اعلان نہیں کیا جبکہ سری لنکا نے آئی ایم ایف سے قرض واپس نہ کرنے کی معذرت کر لی ہے۔ یہ ہوتا ہے اصل ڈیفالٹ جس کی نوبت ابھی تک پاکستان میں نہیں آئی۔ دراصل شبر زیدی کی بات اتنی غلط بھی نہیں۔ پاکستان اور سری لنکا میں فرق یہ ہے کہ دو تین ممالک مشکل وقت میں ہماری مدد کرتے رہے‘ لہٰذا ہم ڈیفالٹ ظاہر کرنے پر مجبور نہ ہوئے۔ گزشتہ تقریباً بیس سال سے سری لنکا میں راجہ پاکسے کے خاندان کی حکومت تھی۔ اب آہستہ آہستہ عیاں ہو رہا ہے کہ یہ خاندان کرپٹ تھا۔ ہمارے ہاں تیس سال تک دو خاندان مسندِ اقتدار پر براجمان رہے۔ دونوں کے بیرونِ ملک اثاثے بڑھتے رہے لیکن پاکستانی عوام کی حالت جوں کی توں رہی۔ سری لنکا میں کئی خاندانوں کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں لیکن ہم نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ قصرِ صدارت میں شاندار سوئمنگ پول ہے۔ روزمرہ کی ورزش کے لیے قیمتی مشینیں موجود ہیں۔ یادش بخیر! زرداری صاحب نے اپنے عہد میں قصرِ صدارت میں پولو گراؤنڈ کی بنیاد رکھی تھی۔ مجھے اس بات پر ذرا بھر تعجب نہیں ہوا کہ کولمبو میں وزیراعظم وکرما سنگھے کا گھر مہنگائی سے تنگ عوام نے جلا دیا۔ روم میں عوام کو نیرو کا گھر جلانے کا خیال نہیں آیا تھا مگر آج حالات مختلف ہیں۔
پاکستان بھی مہنگائی میں جل رہا ہے۔ کراچی پانی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن پنجاب میں دو سیاسی جماعتوں میں تختِ لاہور حاصل کرنے کی رسہ کشی جاری ہے۔ روزانہ کروڑوں روپے جلسوں پر ضائع ہو رہے ہیں۔ سیاسی تنقید اب گالم گلوچ کا روپ دھار چکی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں ورکنگ ریلیشن شپ برسوں سے غائب ہے۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی لیڈر سرجوڑ کر بیٹھیں اور ملک کے گمبھیر مسائل کا کوئی حل تلاش کریں لیکن یہ خود غرض لیڈر ایسا نہیں کریں گے۔ نیرو کو موسیقی کا شوق تھا تو یہ لیلائے اقتدار کے دیوانے ہیں۔ جو لوگ سیاست کا کچھ تجربہ رکھتے ہیں اُنہیں علم ہے کہ لیڈر عوام کو کس طرح بیوقوف بناتے ہیں۔ 1970ء کی بات ہے‘ قوم اُس وقت دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم کا شکار تھی۔ میں اُن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہو کر اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھا رہا تھا۔ دوسرے نوجوانوں کی طرح ہم بھی بھٹو کے دیوانے تھے مگر یہ بات تسلیم کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ سیاسی مکالمے کو سوقیانہ شکل دینے کی موجد بھی پیپلز پارٹی تھی۔ ایک فلم ایکٹریس کی تصویر پر جماعت اسلامی کے بانی لیڈر کے چہرے کی تصویر جوڑ دی گئی۔ جماعت اسلامی کو امریکہ نوازی کے طعنے ملے اور پھر 2007ء میں وہی پیپلز پارٹی امریکہ کی اشیر باد سے پرویز مشرف سے این آر او لے کر پاکستان میں پھر سے برسر اقتدار آئی‘ ہمارے لیڈروں کا نظریات پر کوئی ایمان نہیں‘ یہ عوام کو بے وقوف بنا کر محض اپنا الّو سیدھا کرنا جانتے ہیں۔
برطانیہ میں حال ہی میں وزیراعظم بورس جانسن کو بطور کنزویٹو پارٹی لیڈر شکست ہوئی ہے۔ پارٹی کے اندر بغاوت ہوئی ہے مگر بورس جانسن نے پارٹی کے فیصلے کو تسلیم کیا ہے‘ کسی سازش کا شور نہیں مچایا۔ وہاں وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروں میں پاکستانی نژاد ساجد جاوید بھی تھے۔ لیکن کسی نے ان کی انکم ٹیکس ہسٹری پر سوال اٹھا دیے۔ حالانکہ یہ سوال اُس وقت سے متعلق ہیں جب وہ ابھی سیاست میں بھی نہیں آئے تھے لیکن وہ بطور امیدوار دستبردار ہو گئے اور ایک ہم ہیں کہ آدھی کابینہ ضمانت پر ہے۔ اصلی جمہوریت سے ہم کوسوں دور ہیں۔1990ء کے آس پاس ہم نے اقتصادی فیصلے مکمل طور پر سیاسی بنیادوں پر کرنے شروع کر دیے‘اس سے پہلے بھٹو صاحب بینک‘ انڈسٹری حتیٰ کہ سکول اور کالج قومیا کر معیشت کی جڑیں ہلا چکے تھے۔ 1990ء میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی باریاں لگ گئیں۔ میاں نواز شریف کو موٹرویز بنانے کا شوق چرایا تو بینظیر صاحب نے پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں کی داغ بیل ڈالی۔ دونوں پارٹیوں کے فیصلے کوتاہ نظر اور خود غرض تھے۔انڈیا نے موٹرویز پر فوکس کرنے کے بجائے ریلوے کی بہتری پر توجہ دی۔ ریلوے میں انرجی کی کھپت روڈ ٹریفک کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے اور پھر ہماری ایم ٹو کے رخ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر تبدیل ہونے لگے۔ میاں صاحب نے اپنے ایک انوکھے لاڈلے وزیر کی خواہش پر موٹروے کو چکری سے گزارا جس سے اسلام آباد اور لاہور کا فاصلہ بہت بڑھ گیا اور مستزاد یہ کہ موٹروے کو سالٹ رینج سے گزارنا پڑا جو ٹیکنیکل لحاظ سے انتہائی ناقص فیصلہ تھا۔ لیکن شیر جنگل کا بادشاہ ہے‘ چاہے بچے دے چاہے انڈے۔
روم چھ دن مسلسل جلتا رہا۔ بقول شبر زیدی ہمارا ملک 2018ء سے ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے مگر کیا ہماری قیادت اور اشرافیہ کے طور اطوار بدلے۔ کیا ہمارے ہاں لمبی لمبی کاروں کی امپورٹ بند ہوئی۔ کیا ہماری کابینہ کا سائز کم کیا گیا۔ کیا صوبوں سے کہا گیا کہ وہ بھی اٹھارہویں ترمیم کے مطابق ٹیکس کولیکشن میں حصہ لیں۔ کیا بڑے بڑے جاگیرداروں پر زرعی انکم ٹیکس لگایا گیا۔بڑے بڑے قومی فیصلے کرنے کے لیے قانون سازی درکار ہوتی ہے۔ دیرپا اور عمدہ قانون سازی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ڈائیلاگ ہو مگر ہمارے ہاں ایسا نہ ہو سکا اور اس کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2018ء کے الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ہم قومی اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مولانا کی بات نہیں مانی۔ یہ اپوزیشن کا اچھا فیصلہ تھا مگر دوسری جانب سے فراخدلی کا مظاہرہ نہ ہو سکا۔ قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ مل کر چارٹر آف اکانومی بناتے ہیں لیکن حکومت کے لیے یہ بات بھی قابلِ قبول نہ تھی۔ حکومت کی اقتصادی اور فنانشل ٹیم اتنی کمزور تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے میں تاخیر ہوئی۔
2014ء سے ہم چور چور کا شور سن رہے ہیں لیکن پکڑا ایک بھی نہیں گیا۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے مگر قیادت اقتدار کے مزے لے رہی تھی۔ اپوزیشن لیڈروں کو ضمانتیں ملتی رہیں‘ چند ماہ پہلے حکومت بھی گرا دی گئی۔ ایسے غیر مستحکم ملک میں سرمایہ کاری کون کرے گا۔ کیا کمزور حکومت بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں بے چینی کا پائیدار حل نکال سکتی ہے۔ ہمارے گمبھیر مسئلے حل مانگ رہے ہیں اور حل سیاسی استحکام اور مخلص قیادت سے آتے ہیں۔ کیا روم یونہی جلتا رہے گا‘ کیا نیرو یونہی بانسری بجاتا رہے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں