"JDC" (space) message & send to 7575

بھارت کے روشن اور تاریک چہرے

ماڈرن بھارت اضدادکا ایک دلچسپ مجموعہ ہے۔ آئین کے اعتبار سے بھارت ایک سیکولر ملک ہے لیکن لوگوں کی مذہب سے وابستگی کبھی کبھی جنون کی حدوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ بھارت کی دو بڑی اقلیتیں‘ مسلمان اور مسیحی‘ اپنے آپ کو آج کے بھارت میں غیرمحفوظ محسوس کرتی ہیں۔ بھارتی آئین کے لحاظ سے تمام شہری برابر ہیں لیکن ذات پات کے نظام نے اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو جکڑا ہوا ہے۔ قومی دولت کا بیشتر حصہ اونچی ذات کے لوگوں کے پاس ہے۔ تعلیم کی اہمیت پر اچھا خاصا فوکس ہے لیکن 25 فیصد عوام اب بھی اَن پڑھ ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں میں بھارت کی اقتصادی ترقی متاثر کن رہی ہے لیکن آبادی کی کل تعداد کا 30فیصد اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی یومیہ آمدنی سوا ڈالر‘ یعنی ایک سو بھارتی روپے ہے۔ ایسے انتہائی غریب لوگوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ بھارت نے آزادی کے بعد کون سے شعبوں میں زیادہ ترقی کی ہے۔ سب سے پہلے اگر سیاسی میدان کو دیکھیں تو جنوری 1951ء میں بھارتی دستور نافذ العمل ہو گیا تھا۔ ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین بی آر امبید کر (BR Ambedkar) تھے جن کا تعلق شیڈول کاسٹ سے تھا۔ سیکولر ازم کو بھارتی آئین میں مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ بھارت میں عمومی طور پر جمہوریت جاری و ساری رہی۔ وہاں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ مسز اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کی وجہ سے جمہوریت کو جھٹکا ضرور لگا تھا لیکن یہ پٹڑی سے نہیں اُتری۔ چونکہ جمہوریت میں قیادت کا فیصلہ ووٹ سے ہوتا ہے لہٰذا دلت اور شیڈول کاسٹ لوگوں کو اپنے بڑے ووٹ بینک کی وجہ سے فائدہ ہوا ہے۔ بھارت میں اب تک آٹھ چیف منسٹر دلت ذات سے ہوئے ہیں۔ یو پی کی سابق چیف منسٹر مایا وتی کا نام آپ نے سنا ہوگا‘ وہ بھی دلت تھیں۔ پنجاب کے موجودہ چیف منسٹر چرن جیت سنگھ چنی بھی اسی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کی صدر منتخب ہونے والی دروپدی مرمو کا تعلق اڑیسہ کے قبائلی علاقے سے ہے۔ گو کہ یہ ایک چھوٹے سے دراوڑ قبیلے کی سردار رہیں لیکن ان کی مالی حیثیت واجبی سی تھی اور گھر کا کام خود کرتی تھیں۔ حال ہی ان کی کچن میں کام کرتے ہوئے تصویر خاصی وائرل ہوئی ہے۔
گزشتہ تین عشروں میں بھارت نے اچھی خاصی اقتصادی ترقی کی ہے۔ آج پوری دنیا میں بھارتی اکانومی چھٹے نمبر پر ہے۔ ترقی کے اس سفر کا آغاز 1990ء کی دہائی میں ہوا تھا جب ڈاکٹر منموہن سنگھ فنانس منسٹر تھے۔ انہوں نے بھارتی اکانومی کو سوشلسٹ بیڑیوں سے آزاد کرایا۔ پرائیویٹ سیکٹر کو زیادہ اہمیت دی۔ آج بھارت کا گروتھ ریٹ 7.3فیصد ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں بھارت میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ اپر مڈل کلاس میں شامل ہوئے ہیں۔
اقتصادی ترقی اور تعلیم کے معیار کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ بنگلور‘ دہلی‘ ممبئی اور مدراس میں بنائے گئے ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ انٹرنیشنل لیول کی یونیورسٹیاں ہیں جہاں سائنس ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی تعلیم ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں سے ملتی جلتی ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی بھارت نے خوب ترقی کی ہے۔ بھارت کا پہلا اپالو ہسپتال 1983ء میں مدراس میں بنا تھا۔ آج بھارت بھر میں 73اپالو ہسپتال ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ جگر کی پیوند کاری کے لیے برسوں تک ہمارے پاکستانی شہری بھارت اور چین جایا کرتے تھے۔ یہی صورت بچوں کی ہارٹ سرجری کی رہی ہے۔
خارجہ پالیسی کے میدان میں بھارت نے اپنے جغرافیائی سائز‘ محل وقوع اور بڑی مارکیٹ کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ بھارت کے سفارت خانے اپنے ملک کے عظیم ہونے کے بارے میں دلچسپ دلائل دیتے ہیں۔ پہلی دلیل تو وہ یہ دیتے ہیں کہ ہم پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے وارث ہیں اور یہ کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں۔ خیر ان دونوں دلائل میں وزن بھی ہے لیکن یہ کہنا کہ ہم انتہائی امن پسند ملک ہیں اور ہم نے کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا‘ نہایت مضحکہ خیز ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ اس لیے بھی کھوکھلا ہے کہ جو ظلم مقبوضہ کشمیر میں اس وقت ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
بھارت کے اپنے ہمسایہ ممالک سے ہمیشہ مسائل رہے ہیں۔ آج بھی سارک تنظیم بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے غیر فعال ہے لیکن یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ بھارت مغربی ممالک کی کمزوری بن چکا ہے۔ وہ تمام تر پابندیوں کے باوجود آج بھی روس سے تیل خرید رہا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم بھارتی نژاد مغربی ممالک میں اونچے مناصب تک پہنچ گئے ہیں۔ امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس ماں کی جانب سے بھارتی نژاد ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بھارتی نژاد برطانوی سیاست دان رشی سوناک (Rishi Sunak) آج کل برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی جانشینی کے تگڑے امیدوار ہیں۔ بارہ بھارتی نژاد ترقی یافتہ ممالک میں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہ ہیں۔ امریکہ اور چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ کھرب پتی بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اسی بھارت میں چالیس کروڑ انسان ایسے بھی بستے ہیں جو انتہائی ذلت آمیز غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غریب اور امیر اپنی اپنی الگ دنیا میں رہتے ہیں۔ غریبوں کا بھارت اور ہے اور کھرب پتی سیٹھوں کا بھارت اور۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے کہا جاتا تھا کہ بھارت میں مذہب کی تفریق مٹ چکی ہے۔ ہندو‘ مسلم‘ مسیحی‘ سکھ کا فرق ختم ہو چکا ہے۔ کون کتنی ترقی کر سکتا ہے اس بات کا فیصلہ میرٹ پر ہوتا ہے۔ خیر دبی ہوئی مذہبی نفرتیں تو ایودھیا میں 1992ء میں اور گجرات میں 2006ء میں عیاں ہو گئی تھیں لیکن نریندر مودی کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد پتا چلا کہ بھارت میں مذاہب کی بنیاد پر برابری کا دعویٰ ایک سراب تھا۔ آج کے بھارت میں معروف مسلمان اداکار شاہ رخ خان اور سلمان خان بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔2020ء کے امیگریشن ایکٹ اور نیشنل رجسٹریشن کے قوانین نے مسلم دشمنی پر حکومتی مہر ثبت کر دی۔ شیوسینا نے پورے بھارت میں جشن منایا جبکہ آسام میں اتنے مظاہرے ہوئے کہ کرفیو لگانا پڑ گیا۔ آسام میں طویل عرصے سے ہزاروں بنگلہ دیشی رہائش پذیر ہیں جن کا مستقبل اب خطرے میں ہے۔ اس مسئلے کا اثر بھارت اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات پر بھی پڑا ہے۔
ہم نے سنا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں عرب بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ لیکن آج کے بھارت میں کئی بچیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بچی پیدا ہو گی تو جائیداد دوسرے خاندان میں لے جائے گی۔ ماحولیاتی آلودگی بھی آج کے بھارت کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ آلودگی والے شہر بھارت میں ہیں۔ جن میں دہلی‘ لکھنؤ‘ غازی آباد‘ بلند شہر‘ پٹنہ‘ بھوانڈی‘ حصار‘ فرید آباد اور کئی مزید شہر شامل ہیں۔
بھارت میں مسلمان اور مسیحی خوف کی حالت میں ر ہتے ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کا مسئلہ سنجیدگی سے حل کیا جانا چاہیے لیکن بھارت چین کی وجہ سے امریکہ کا مستقل حلیف بھی ہے۔ ایک بھارت پانچ ہزار سالہ تہذیب کا امین ہے۔ تیزی سے ترقی کر رہا ہے‘ سیکولر ہے‘ مغرب کی آنکھوں کا تارا ہے‘ امن پسند ہے‘ اس نے گاندھی جیسا لیڈر پیدا کیا ہے‘ وہاں بالی وُڈ ہے‘ رقص ہے‘ موسیقی ہے مگر ایک دوسرا بھارت بھی ہے۔ جو انسانی حقوق کی پروا نہیں کرتا۔ مسلمان دشمن ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ غریب آبادی کا مسکن ہے۔ گاندھی کا بھارت اور تھا نریندر مودی کا بھارت اور ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں