"JDC" (space) message & send to 7575

صدر بائیڈن کا متنازع بیان

پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے صدر بائیڈن کا بیان بہت اہم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک خطرناک ایٹمی ملک ہے جہاں ہم آہنگی ناپید ہے۔ یہ بیان پاکستان کے لیے یقینا حیران کن تھا۔ پچھلے دو‘ چار ماہ سے لگ رہا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات میں واضح بہتری کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ وزیر خارجہ اور آرمی چیف کے دورے بھی کامیاب رہے تو پھر اچانک کیا ہو گیا کہ امریکہ کے صدر نے اتنا غیرمعمولی بیان دے ڈالا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدر بائیڈن کی زبان پھسل گئی ہو گی لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔
پاکستان کے امیج کے حوالے سے یہ بیان خطرناک حد تک منفی تھا۔ امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفتر خارجہ بلا کر تحریری احتجاج ان کے حوالے کیا گیا جسے سفارتی زبان میں ڈی مارش کہتے ہیں اور پھر جلد ہی امریکن سٹیٹ ڈپارٹمنٹ یعنی فارن آفس نے ایک بیان جاری کیا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں‘ اس سے کسی حد تک ہماری اشک سوئی ضرور ہو گئی لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ انڈین میڈیا کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔
صدر بائیڈن امریکہ کے اُن چند لیڈروں میں سے ہیں جو پاکستان کو خوب جانتے ہیں‘ اُن کے اس بیان سے امریکہ کی پاکستان سے ناراضی جھلکتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب سابق وزیراعظم عمران خان فروری میں ماسکو گئے تھے تو امریکہ والے یقینا خوش نہیں تھے۔ واشنگٹن سے ہمارے سفیر صاحب کی جانب سے بھیجے گئے مشہور سائفر میں بھی اس ضمن میں امریکہ کے اعتراض کا ذکر تھا۔ ابھی چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین پر روسی جارحیت کے خلاف پیش کی گئی مذمتی قرارداد میں پاکستان نے ووٹنگ میں حصّہ نہیں لیا۔ اس بات پر بھی امریکہ کو غصہ تھا۔
لیکن اس ووٹنگ میں نیوٹرل تو انڈیا بھی رہا تھا تو پھر سارا غصہ پاکستان پر ہی کیوں؟ انڈیا کو کچھ کہنے کی تو امریکہ کو ہمت نہیں ہوئی۔ اب یہ بات بالکل عیاں ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے لیے مغربی ممالک کے معیار اور روّیے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ جیسا کہ اوپر لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں صدر بائیڈن کا بیان سراسر سیاسی نوعیت کا تھا کیونکہ ٹیکنیکل زاویے سے دیکھا جائے تو مارچ میں عالمی ادارہ برائے ایٹمی انرجی نے اپنا ایک وفد پاکستان بھیجا۔ اس وفد نے ہماری ایٹمی تنصیبات کا مفصل دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ہماری تنصیبات محفوظ ہیں اور انہیں چلانے کے قواعد و ضوابط تسلی بخش ہیں۔
جس دن صدر بائیڈن کا متنازع بیان آیا اُس کے اگلے روز ایک عربی ٹی وی چینل' الشرق‘ نے مجھے پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔ واشنگٹن سے ایک سابق امریکی سفارت کار بھی پروگرام میں شریک تھے۔ میں نے کہا کہ صدر بائیڈن کے بیان کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ایٹمی امور سے متعلق انٹرنیشنل ادارے کے ایکسپرٹ پاکستان سے ہوکر گئے ہیں اور پاکستان کو اچھی رپورٹ دے کر گئے ہیں۔ میں نے اضافہ کیا کہ پاکستان کو ایٹمی اثاثے رکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا‘ مئی 1998ء میں پہل انڈیا نے کی اور پاکستان کو برصغیر میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔
سابق امریکی سفارت کار کی باری آئی تو وہ صدر بائیڈن کے بیان کی مکمل حمایت میں بولنے لگے۔ استدلال یہ تھا کہ پاکستان معاشی طور پر ایک بڑے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے اور سیاسی طور پر غیرمستحکم ہے‘ وہاں القاعدہ‘ داعش اور تحریک طالبان جیسی دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ میرا جواب تھا کہ القاعدہ کا وجود پاکستان سے ختم ہو چکا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے طویل اور کامیاب جنگ لڑی ہے۔ صاف لگ رہا تھا کہ یہ صاحب انڈیا کا بیانیہ دہرا رہے ہیں اور انڈین لابی آج کل امریکہ میں خاصی مضبوط ہے۔
ذکر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا ہو رہا ہے تو چند روز پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پہلی برسی تھی۔ حکومت کو سرکاری طور پر تو ان کی برسی کا فنکشن کرنے کی توفیق نہیں ہوئی البتہ ان کی فیملی اور چند دوستوں نے مل کر اسلام آباد کلب میں ایک تقریب کی۔ ایک سے زیادہ مقررین نے یہ بات دہرائی کہ بڑے نامساعد حالات کے باوجود ڈاکٹر اے کیو خان ایک بہت بڑا کارنامہ کر گئے اور ایٹمی اثاثے بنانے کے دو مروجہ طریقوں سے ہٹ کر اتنا بڑا کام کیا۔ ہم یہ بات آج وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نیو کلیئر اثاثے نہ ہوتے تو دشمن ہمیں ترنوالہ سمجھ کر حملہ ضرور کرتا اور ہماری حالت آج یوکرین والی ہوتی۔ یوکرین کی مدد کے لیے آج مغربی ممالک پیش پیش ہیں‘ ہمارے لیے یہ زحمت بھی نہ کرتے کیونکہ انڈیا کو مغربی ممالک ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ ڈاکٹر قدیر خان مرحوم پاکستان کی سلامتی کے لیے عظیم کام کر گئے ہیں مگر ہم احسان فراموش قوم ہیں۔
میں نے سابق امریکن سفارت کار کے جواب میں کہا کہ آج پاکستان میں نہ تو القاعدہ کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی داعش کا۔ ہماری فوج نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے آپ خود ہی آج کے سوات کا اور 2009ء کے سوات کا موازنہ کر لیں۔ مگر مجھے ایک اور بات کا بڑا افسوس ہوا کہ ہمارے نوآموز وزیر خارجہ امریکی صدر کے بیان کی وضاحت کرنے لگے جو قطعی ان کا کام نہیں تھا۔ لیکن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے۔ پچھلے ایک دو ماہ سے مالاکنڈ اور سوات میں دہشت گرد پھر سے سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں ہمیں ان پہ مکمل سختی کرنی چاہیے۔ اندرونی طور پر پُرامن پاکستان معاشی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے از بس ضروری ہے اور تیز معاشی ترقی انتہا پسندی کا تریاق ہے۔
صدر بائیڈن نے یکجہتی کے لیے Cohesion کا لفظ استعمال کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں چونکہ یکجہتی ناپید ہے لہٰذا یہ ملک خطرناک ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کے خیال میں کیا ہمارے نیو کلیئر پروگرام کے بندوبست اور کنٹرول میں یکجہتی کی کمی ہے یا صدر بائیڈن کا اشارہ ہماری روز افزوں سیاسی کشمکش کی طرف ہے۔ میرا خیال ہے کہ صدر بائیڈن کا اشارہ ہماری شدید سیاسی تقسیم اور عدم استحکام کی طرف ہے کیونکہ ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اب ہمیں اس سلسلے میں 24سالہ تجربہ بھی ہے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے خطے میں امن اور سلامتی کو فروغ دیا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ان اثاثوں کی ہر طرح سے حفاظت کریں مثلاً بار بار آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں۔ بیرونی قرضے کم سے کم لیں۔ اشرافیہ ایمانداری سے ٹیکس دے۔ حکومت اسراف سے اجتناب کرے۔ 75 وزیروں اور مشیروں کی کیا ضرورت ہے‘ پاکستان کی پہلی کابینہ میں چھ وزیر تھے اور قائداعظم نے دورانِ اجلاس چائے اور کافی پیش کرنے سے منع کیا تھا۔ مجھے اس بات کا بھی افسوس ہوا کہ تختِ لاہور والے اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس کی تزئین و آرائش پر خطیر رقم صرف کررہے ہیں۔ ہم قرضوں پر عیاشی کرنے والے شہزادے ہیں لیکن یہ کب تک چل سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں