"JDC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی کامیابیاں اور ناکامیاں

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان ہماری سیاست میں سب سے دلچسپ شخصیت ہیں۔ ایک مسحورکن شخصیت جس کا جادوکئی ناکامیوں کے باوجود آج بھی قائم ہے۔ ان کے چاہنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی یونانی دیوتا ہیں جن سے سہواً تو غلطی ہو سکتی ہے لیکن نیت ان کی صاف شفاف ہے۔ ان کے نوجوان سپورٹرز اپنے لیڈر کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہیں۔ دوستوں میں عمران خان کی وجہ سے لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ میں ایک بزرگ میاں بیوی کو جانتا ہوں‘ دونوں بہت پڑھے لکھے اور دانا شخصیات ہیں۔ ایک عمران خان کا حامی ہے اور دوسرا مخالف۔ ان کی شادی کو چالیس سال سے زائد عرصہ ہو چکا‘ دونوں ایک دوسرے سے خوش ہیں‘ اگر گھر میں کبھی لڑائی ہوتی ہے تو کپتان کی وجہ سے۔میں سمجھتا ہوں کہ کپتان ایک عام انسان ہے‘ جس نے کرکٹ اور انسانی خدمت کے میدان میں بے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کا فین کلب بہت وسیع ہے۔ حکومت چھوڑنے کے بعد ان کے ووٹ بینک میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں تحریک انصاف کی حکومت گرا کر اپوزیشن نے عمران خان پر بڑا احسان کیا‘ انہیں نئی زندگی دی۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ اپنے ساڑھے تین سال کے دورِ حکومت میں عمران حکومت نے کونسی کامیابیاں سمیٹیں اور کون کون سی ناکامیاں ان کے کھاتے میں تاریخ دان ڈالے گا۔ عمران خان کے 2018ء میں عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد اسلام آباد میں چند غیر قانونی شادی حال مسمار کیے گئے تو یہ تاثر جنم لینے لگا کہ حکومت ہر صورت میں اپنی رِٹ قائم کرے گی‘ کسی کو قانون پامال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ بعد میں جب بنی گالا والا گھر اور شارع دستور پر عمارت نمبرون ریگولرائز ہو گئے تو پتا چلا کہ قانون سب کے لیے برابر تو ہونا چاہیے لیکن حقیقت میں سوفیصد ایسا کرنا وطن عزیز میں فی الحال ممکن نہیں۔ لیکن پہلے ہم عمران خان کی کامیابیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
کپتان نے پاکستان کی موروثی سیاست پر زور دار ضرب لگائی۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ والے مزے سے باریاں لے رہے تھے کہ کپتان نے مینارِ پاکستان والا جلسہ کر کے خطرے کی گھنٹی بجا د ی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے این آر او لے چکی تھی۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی سربراہی میں مرکز میں حکومت تو بن گئی مگر جلد ہی اسے وکلا تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ کپتان انصاف اور تبدیلی کے پُرکشش نعروں کے ساتھ میدان میں اتر آیا۔2018ء میں اقتدار میں آنے سے پہلے کپتان نے لمبا عرصہ جدوجہد میں گزارا تھا جب اقتدار ملا تو پتا چلا کہ تیاری تو کوئی کی ہی نہیں‘ ہوم ورک نہ ہونے کے برابر تھا۔ انہیں زعمِ مسیحائی اتنا زیادہ تھا کہ بس میں آئوں گا تو ہر شے ٹھیک ہونے لگے گی۔ کرپشن معاشرے سے کافور ہو جائے گی‘ لوگوں کو انصاف ملنے لگے گا‘ بیرونِ ملک سے پاکستانی بے تحاشا زرِ مبادلہ بھجیں گے‘ کرپشن ختم ہوگی تو ملک دیکھتے ہی دیکھتے خوشحال ہونا شروع ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا اورنہ ہوا۔
لیکن اس کے باوجود کئی اچھے کام ہیں جو عمران خان نے بطور وزیراعظم کیے۔ ان کے دورِ حکومت میں ہزاروں نہیں لاکھوں پودے اسلام آباد میں لگائے گئے۔ پچھلے چند سال میں اسلام آبادسرسبز شہر بن گیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا‘ بڑھتے ہوئے درخت شہر کے حسن میں مزید اضافہ کریں گے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی خوب شجرکاری ہوئی‘ اس سے ماحول پر مجموعی طور پر بہتر اثر پڑے گا۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات قدرے کم ہوں گے۔ عمران خان کرپشن ختم تو نہ کر سکے مگر اس بات کا عمومی شعور ضرور عام کیا کہ کرپشن ایسا زہر قاتل ہے جو معاشرے کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس ضمن میں کپتان نے باربارسنگا پور کی مثال دی جہاں کرپشن ختم ہوئی‘ قانون کی حکمرانی شروع ہوئی‘ میرٹ کا بول بالا ہواتو ملک نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔ سنگا پور کا لیڈر لی کوآن یو کپتان کا آئیڈیل تھا لیکن بوجوہ عمران خان لی کوآن یو نہ بن سکے‘ اُن کے سپورٹر اس ناکامی کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت نہ ہونے پر محمول کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اتحادی پارٹیوں کا سہارا لینا پڑا‘ اپنی پسند کی قانون سازی میں انہیں خاصی دشواری رہی۔
کپتان کی دوسری بڑی کامیابی احساس پروگرام تھا جس کا مقصد غربت کم کرنا تھا۔ اس پروگرام کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ شہریوں کی مدد کی گئی اور یہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام تھا‘ ڈاکٹر ثانیہ نشتر اس پروگرام کی روحِ رواں تھیں۔ ان کی قابلیت اور ایمانداری مسلمہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو ایک اور خاتون' بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کی ہیڈ تھیں‘ وہ کافی عرصے سے ملک سے غائب ہیں‘ وجوہات آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس پروگرام کو بہت شفاف طریقے اور کامیابی سے چلایا اور اس بات کا انٹرنیشنل لیول پر اعتراف کیا گیا۔ کاش کپتان کے دوسرے مشیر بھی اسی طرح مخلص اور قابل ہوتے۔
کورونا کی روک تھام اور معیشت کا پہیہ حرکت میں رکھنا تحریک انصاف کی تیسری بڑی کامیابی تھی۔ وبا کی صورتحال کے باوجود فیصل آباد کی ٹیکسٹائل فیکٹریاں چلتی رہیں‘ کسان خوشحال رہے‘ برآمدات میں اضافہ ہوا‘ حکومت نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی جسے معروف انٹرنیشنل میگزین اکانومسٹ نے بہت سراہا۔ کپتان کا خواب تھا کہ ملک اقتصادی لحاظ سے خود کفیل ہو‘ کپتان کی توجہ اپنے ملک پر مرکوزرہی کیونکہ ان کے نہ تو سوئٹزر لینڈ میں اکائونٹ تھے اور نہ انگلینڈ اور عرب ممالک میں پراپرٹی۔
اور اب آتے ہیں تحریک انصاف حکومت کی ناکامیوں کی جانب۔ چونکہ ہوم ورک نہ ہونے کے برابر تھا لہٰذا ایک لمبا عرصہ حکومت یہ فیصلہ نہ کر پائی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔ تبدیلی کے نعروں کے برعکس نہ تو کچہری کا کلچر بدلا اور نہ ہی پولیس غیر سیاسی بن سکی۔ اپوزیشن سے ڈائیلاگ معطل رہا‘ لہٰذا پارلیمنٹ بھی اپنا رول احسن طریقے سے ادا نہ کر پائی۔ نیب کا ادارہ متنازع رہا اور اب ایک حالیہ انٹرویو میں عمران خان کا کہنا ہے کہ نیب پر کنٹرول دراصل کسی اور کا تھا تو جناب اگر آپ کی حکومت اتنی لاغر تھی تو شروع میں ہی اقتدار کو خیر باد کیوں نہیں کہا؟ کپتان کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ دوسروں کی بات پر بلاتحقیق یقین کر لیتے ہیں۔ اس عادت کی ایک مثال 35 پنکچر کی گردان ہے۔ تقریر کے دوران قاسم سوری اسلامی ٹچ کا مشورہ دیتا ہے جو فوراً مان لیا جاتا ہے لیکن جب اپریل میں حکومت گرنے کے بعد تحریک انصاف کے متعدد ممبران اسمبلی جانے کو بہتر آپشن سمجھتے ہیں تو کپتان ان کے مشورے کو اہمیت نہیں دیتے۔ کپتان کے اس مزاج کی شکایت میں نے پی ٹی آئی کے معتبر لوگوں سے سنی ہے۔ ایک بہت ہی سینئر ممبر نے مجھے بتایا کہ 2014ء والا دھرنا جب بہت لمبا ہو گیا تو قریبی ساتھی مشورہ دیتے کہ خان صاحب آج ہی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیں۔ خان صاحب یہ مشورہ مان بھی جاتے مگر شام کو سامعین کا جم غفیر دیکھ کر اُن کی نیت بدل جاتی۔
اور اب ذرا ذکر ہو جائے اس گھڑی کا جس کی بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔ میں توشہ خانہ کے رولز سے بخوبی واقف ہوں۔ وزیراعظم پاکستان کو ایک قیمتی تحفہ بیرون ملک ایک لیڈر سے ملا۔ وزیراعظم نے اسے توشہ خانہ میں جمع کرا کے سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق خرید لیا۔ اب گھڑی وزیر اعظم کی ملکیت بن گئی اسے بیچ کر کپتان نے کوئی جرم نہیں کیا۔ البتہ کلچرل اور خارجہ تعلقات کے اعتبار سے یہ ایک بڑی غلطی تھی۔ اس سے نہ صرف ملک کا بلکہ خود کپتان کا امیج خراب ہوا۔ خارجہ امور میں بھی تحریک انصاف کی پرفارمنس اچھی نہیں رہی۔ سعودی عرب کے ساتھ غلط فہمی پیدا ہوئی۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تنائو آیا۔ چین سے تعلقات میں گرمجوشی برقرار نہ رہنے کی وجہ سے سی پیک پر کام کی رفتار سست ہوئی لیکن امورِ خارجہ میں پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی ایک الگ کالم کی متقاضی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں