"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کا مستقبل: ترکیہ یا شام؟

میں نے زندگی بھر رجائیت کو اپنے دل و دماغ میں رکھا ہے۔ قنوطیت اور ناامیدی کو پاس نہیں آنے دیا۔ اچھے دنوں کی امید ہمیشہ میری ڈھارس بندھاتی رہی لیکن اب جو حالات میں دیکھ رہا ہوں‘ ان سے میری امید کمزور اور لاغر ہو رہی ہے اور بیم کی کیفیت توانا ہونے لگی ہے۔ ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں‘ کوئی کہتا ہے کہ ملک کی بنیاد ہی کمزور تھی‘ دوسرے کہتے ہیں کہ سیاست دان ہمیں لے ڈوبے ہیں کہ ان کی اقتدار کی جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ایک رائے یہ ہے کہ غیر منتخب افراد سیاست میں ملوث ہو جائیں تو یہی حشر ہوتا ہے جو پاکستان کا ہو رہا ہے۔ اشرافیہ نے 75سال ملک کو خوب لوٹا اور اب ملک سے بھاگنے کی اَنتھک کوشش کر رہی ہے۔ اشرافیہ کے اکثر لوگوں کے پاس گرین کارڈ ہیں‘ ان کا نصب العین اس وقت گرین پاسپورٹ سے نجات حاصل کرنا ہے۔ غریب کی تو بات بھول جائیں‘ اچھے خاصے لوگوں کا مورال آج کل گرا ہوا ہے۔ مکالمہ جمہوریت کی روح ہے مگر کپتان نے برسوں تک یہ رٹ لگائے رکھی کہ میں چوروں ڈاکوؤں سے بات نہیں کروں گا۔ ہمارے ہاں پانی پت کی پہلی جنگ 2014ء میں شروع ہوئی۔ عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے شارع دستور پر حملہ کیا۔ کپتان نے ڈی چوک پر مورچہ لگا لیا۔ یہ جنگ کئی ماہ چلی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا‘ وہ تو کوئی غیبی مدد پاناما پیپرز کی شکل میں آئی‘ ورنہ حالات وہی رہتے۔
دوسرا حملہ 2022ء میں ہوا‘ اس جنگ میں عمران خان کی دانست میں ڈاکوؤں کی مدد نامعلوم افراد نے کی مگر اس حملے کے منفی اثرات آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ ایک سال میں معیشت کا بھرکس نکل گیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے اقتصادی جہاز کو سخت متلاطم امواج میں پھنسا دیا ہے۔ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور عوام کی آمدنی زمین بوس ہے مگر حکمران کسی طور الیکشن کرانے کو تیار نہیں۔ عمران خان کا خوف ان کے اعصاب پر بری طرح سوار ہے۔ لاہور والے جلسے نے یہ خوف مزید بڑھا دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنے بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کرتے‘ ہم آپس میں دست و گریبان ہیں۔ پہلے جنگ سیاسی حریفوں میں تھی‘ اب پارلیمنٹ اور ایک ریاستی ادارے میں چپقلش شروع ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم چل رہی ہے۔ ادارے اندر سے تقسیم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ سیاست دانوں کی لڑائی کے شعلے بلند تر ہو رہے ہیں۔ وزیر داخلہ کا اس ضمن میں بیان دل دہلادینے والا ہے۔ پاکستان ترکیہ اور ملائیشیا کی طرح جمہوریت اور گڈگورننس کی طرف بھی جا سکتا تھا مگر اب ہم نے شام اور صومالیہ کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک زمانے میں ایسی صورتحال میں مقتدر ادارے ثالث کا رول ادا کرتے تھے مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہو چکی ہے۔
پچھلے ایک سال میں ہمارے ہاں غربت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ میرے ایک عزیز ہر سال بیرونِ ملک سے رمضان میں زکوٰۃ کی رقم پاکستان بھیج دیتے تھے۔ ہم اس رقم سے مہینے بھر کا راشن خرید کر مستحقین میں تقسیم کر دیتے تھے۔ پچھلے سال تک مستحقین کی تعداد ہمارے گاؤں میں ایک سو کے لگ بھگ ہوتی تھی۔ اس سال یہ تعداد 155تھی اور اس میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ کبھی کسی سے مدد طلب کریں گے۔ لوئر مڈل کلاس غربت کی طرف جا رہی ہے اور غریب تو بے چارہ پِس کر رہ گیا۔ خیر یہ باتیں تو سب کو معلوم ہیں لیکن اس کالم کے حوالے سے یہ پہلو اہم ہے کہ جمہوریت کی نشوونما کے لیے پڑھی لکھی باشعور مڈل کلاس ضروری ہے۔ جہاں قیمے والا نان کھلا کر لوگوں سے ووٹ لیے جائیں وہاں اصلی جمہوریت جڑیں نہیں پکڑ سکتی۔ انڈیا‘ بنگلہ دیش‘ ملائیشیا اور ترکیہ میں جمہوریت کے مضبوط ہونے کی ایک وجہ وسیع تر مڈل کلاس بھی ہے۔
ریاست اور عوام الناس کے مابین عمرانی معاہدے کی بنیاد کیا تھی۔ عوام روز روز کے ظلم اور بربریت سے تنگ آ چکے تھے‘ ان کا جان اور مال کچھ بھی محفوظ نہ تھا‘ جس کے ہاتھ لاٹھی تھی‘ بھینس بھی اسی کی ہوتی تھی۔ پھر لوگوں نے فیصلہ کیا کہ جان و مال کی حفاظت اور کمزور طبقوں کو تحفظ دینے کے لیے ریاست بنائی جائے جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ تو ریاست کی تشکیل کا مقصد ہی عوام کو قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اس لحاظ سے پاکستان کی پرفارمنس خاصی مایوس کن رہی ہے۔ یہ شام‘ صومالیہ اور میانمار والی کیفیت ہے۔ ترکیہ یا سعودی عرب والی نہیں جہاں بروقت انصاف ملتا ہے۔
ہمارے ہاں پولیس ان دو ڈھائی سو وی آئی پیز کو خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے جو وزارتی عہدوں پر فائز ہیں یا اداروں میں اعلیٰ پوزیشن رکھتے ہیں لیکن 23کروڑ عوام غیر محفوظ ہیں۔ ان کی جان و مال کو خطرہ رہتا ہے۔ یہ ریاست کے بنیادی فرائض سے انحراف ہے۔ کفر معاشرے میں اتنا بگاڑ نہیں لاتا جتنا ظلم لاتا ہے۔ جمہوریت اور سویلین برتری کا اصول لازم و ملزوم ہیں۔ ترکیہ میں 2016ء میں فوجی بغاوت ہوئی تو عوام نے اسے ناکام بنا دیا۔ استنبول میں لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ ترکیہ میں صدر طیب اردوان کی حکومت فیصلہ سازی میں مکمل طور پر خود مختار ہے‘ اس سے پہلے ترکیہ میں بھی سویلین برتری ایک خواب تھی۔ اچھے پائے کی سویلین قیادت نے یہ ہدف حاصل کر لیا ہے۔
شام میں البتہ صورتحال مختلف ہے۔ بشار الاسد کہنے کو تو سویلین لیڈر ہیں لیکن ان کے پیچھے اصل طاقت فوج کی ہے۔ وہاں بارہ سال سے خانہ جنگی جاری ہے۔ آدھی آبادی در بدر پھر رہی ہے۔ شہر کے شہر تباہ ہو گئے۔ لاکھوں شامی ترکیہ‘ لبنان اور اردن میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ملک میں امریکی‘ ترکش‘ ایرانی اور روسی فوجی موجود ہیں۔ ایک خاصا بڑا حصہ اب بھی دمشق کے کنٹرول سے باہر ہے۔ اسرائیل وہاں فضائی حملے کرتا رہتا ہے۔ ترکیہ میں حکومت کی بنیاد وسیع تر ہے اور عوام کی شراکت کے ساتھ ہے جبکہ شام میں ایک مختصر سے ٹولے کی حکومت ہے جو ہر قیمت پر اپنے مفادات کا دفاع کر رہا ہے‘ الیکشن کا نام بھی نہیں لیتا۔ ترکیہ میں انتخابات کی تیاری ہے مگر پاکستان میں شام کی طرح الیکشن نہ کرانے کے لیے اَنتھک کوشش ہو رہی ہے۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ساڑھے تین سالہ دور کیا پاکستان کا سنہری زمانہ تھا؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ کپتان کی حکومت سے کئی غلطیاں ہوئیں جن کی نشان دہی کئی کالم نگار متعدد بار کر چکے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں‘ گو کہ غیر جانبدار اینکر چند ہی رہ گئے ہیں لیکن وہ بھی اپنی بے لاگ تنقید میں پی ٹی آئی حکومت کا تنقیدی جائزہ لیتے رہے ہیں لیکن میرے خیال میں کپتان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ بیساکھیاں استعمال کرتے رہے اور سویلین برتری کو نافذ نہ کر سکے۔ کسی بھی معاشرے کے لیے احتساب از بس ضروری ہے مگر ہمارے ہاں احتساب کا ادارہ سیاسی حریفوں کے ساتھ حساب چکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ اداروں کا غلط استعمال انہیں کھوکھلا کر دیتا ہے اور چونکہ ہم افراط و تفریط کا شکار معاشرہ ہیں اور ہمارا نیوٹرل گیئر عرصے سے خراب ہے لہٰذا موجودہ حکومت نے احتساب کے ادارے کے دانت ہی نکال دیے ہیں۔حکومت کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آ گئی تو احتساب پھر سے شروع ہوگا مگر صحیح احتساب اچھی چیز ہے۔ ترکیہ میں باغی افسروں کا احتساب ہوا ہے۔ سعودی عرب میں ولی عہد نے کرپٹ لوگوں کا بڑا احتساب کیا ہے۔
اب یہ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ ہم ترکیہ اور ملائیشیا بننا چاہتے ہیں یا شام اور صومالیہ۔ ترکیہ بننے کے لیے ہمیں اپنے رویے بدلنا ہوں گے۔ سویلین برتری کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ عوام کو انصاف دینا ہوگا۔ کڑے اور سچے احتساب کو خوشدلی سے قبول کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں