"JDC" (space) message & send to 7575

ہماری فاقہ مستی اور شہ خرچیاں

وزیراعظم شہباز شریف فرماتے ہیں کہ مہنگائی اتنی ہو گئی ہے کہ میرے لئے لوگوں کو منہ دکھانا مشکل ہو گیا ہے‘لیکن پھر بھی ہم ان کا چہرہ ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر اُکتا جاتے ہیں۔ موصوف صبح و شام حب الوطنی کے بھاشن دیتے ہیں‘ انہیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ بھوکے پیٹ والے انسان کو اس قسم کے بھاشن سمجھانا انتہائی دشوار ہے اور پچھلے ایک سال میں ہماری فی کس آمدنی دو سو ڈالر کم ہوئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
پچھلے سال اکتوبر میں اعلان ہوا کہ 87ارب روپے 174حلقوں کو بطور ڈویلپمنٹ فنڈز دیئے جا رہے ہیں۔ یہ وہ حلقے ہیں جہاں سے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دینے والے پی ڈی ایم کے ایم این ایز منتخب ہوئے تھے۔ چھ ماہ بعد الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کو بتایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس الیکشن کرانے کیلئے 21ارب روپے نہیں ہیں۔ اسے آپ جمہوری مذاق سمجھ لیں‘ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب رنگین شامیں گزارتے تھے اور سامان راحت ولایتی ہوتا تھا‘ لہٰذا مقروض ہوتے گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کئی کئی روز گھر سے نہیں نکلتے تھے کہ کہیں کوئی قرض خواہ تقاضا نہ کر دے‘لیکن داد دینے کو دل کرتا ہے اپنے وزیراعظم کو کہ پاکستان سر سے پاؤں تک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور موصوف دھڑلے سے پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں۔ کنگ چارلس کی تاجپوشی میں بھی ان کی شرکت لازمی ٹھہری حالانکہ اصل مقصد لندن میں بھائی جان کو ملنا تھا اور اگر یہ سب ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہے۔
2011ء میں آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی گئی تو بہت سی وزارتیں صوبوں کے پاس چلی گئیں وزارت تعلیم‘ صحت‘ معدنیات اور پاپولیشن کنٹرول مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے وسائل کا ایک بڑا حصّہ صوبوں کو ملنے لگا مگر آج بھی وفاق کے پاس 43ڈویژن یعنی وزارتیں ہیں۔ 34فیڈرل وزیر ہیں‘ سات وزرائے مملکت ہیں‘ چارمشیر ہیں اور 39سپیشل اسسٹنٹ ہیں۔ سابق گورنر سٹیٹ بینک شاہد کاردار کہتے ہیں کہ اگر فیڈرل حکومت کا حجم ایک تہائی کر دیا جائے تو نہ صرف اچھی خاصی بچت ہوگی بلکہ کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔ اور میں کاردار صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ بہت سے عہدے اور وزارتیں بلا مصرف ہیں اور وسائل کا ضیاع ہیں۔
ایک سٹڈی کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ کفایت شعاری کی پالیسی پر سنجیدگی سے عمل کر کے سالانہ دو سو ارب روپے بچا سکتی ہے۔ اس ہدف پر کام بھی شروع کر دیا گیا لیکن نیم دلی سے۔ مختلف وزیروں کے پاس تیس ایسی گاڑیاں تھیں جنہیں عرف عام میں لگژری کار کہا جاتا ہے۔ جو کار 1800سی سی یا اس سے زائد ہو اسے لگژری کار کہا جاتا ہے اور ہمارے وزیر لینڈ کروزر اور پراڈو کے دلدادہ ہیں۔ یہ گاڑیاں پٹرول کی ہر وقت پیاسی رہتی ہیں‘ لہٰذا خزانے پر بوجھ ہیں۔ تیس استعمال کنندگان کو خط لکھے گئے کہ فلاں تاریخ تک یہ گاڑیاں کیبنٹ ڈویژن کو واپس کر دی جائیں۔ چند ہفتے پہلے عمل درآمد کمیٹی کا اجلاس وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں ہوا‘ کمیٹی کو بتایا گیا کہ چودہ لگژری گاڑیاں واپس نہیں آئیں۔ لگژری کاروں کے عشق میں مبتلا وزیروں کے نام صیغۂ راز میں رکھے گئے۔
چند سال پہلے فیصلہ ہوا تھا کہ ہر افسر کو سرکاری کار اور ڈرائیور دینے کی بجائے ماہانہ ایک رقم دے دی جائے اور اس طرح خاصی بچت ہو جائے گی۔ماہانہ رقم اس لئے دی گئی کہ صاحب بہادر اپنی ذاتی کار اور اپنا پٹرول استعمال کریں گے۔ ہر سینئر افسر کو اس مد میں 97ہزارروپے ملتے ہیں۔ اب یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ افسر لوگ مشاہرہ بھی وصول کر رہے اور سرکاری گاڑیاں بھی استعمال کرتے ہیں۔
زرداری صاحب نے اپنے پا نچ سالہ دورِ صدارت میں صرف 134 بیرونی دورے کئے۔ میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں چار سال میں ایک ارب 84کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ملک اُس وقت بھی قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا لیکن ہمارے لیڈروں کو اس سے کیا غرض‘ انہیں ہر صورت میں ملک سے باہر جانا تھا۔ ز یادہ دورے زرداری صاحب کے دبئی اور میاں صاحب کے لندن کے ہوتے تھے۔ان دوروں سے قوم کو کیا حاصل ہوا یہ کبھی نہیں بتایا گیا البتہ لیڈروں کی سیر و تفریح ہوتی رہی‘ ان کے حواریوں کی بھی سیر ہوتی گئی۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے اب اخراجات زیادہ تر صوبائی حکومتیں کرتی ہیں اور منصوبے کتنی لا پروائی سے بنتے ہیں یہ آپ نے کراچی واٹر سپلائی کے پروجیکٹ میں دیکھ لیا ہوگا۔ کام سالوں تک ملتوی ہوتا رہتا ہے۔ آخر میں پتا چلتا ہے کہ جو کام سو روپے میں ہونا تھا وہ اب ہزار میں ہوگا‘ مگر لیڈروں کیلئے سرکاری خزانہ مالِ مفت کی طرح ہے اور دل ان کا بے رحم ہوتا ہے۔ فیڈرل حکومت اگر صوبائی حکومتوں کو فنڈز دیتی ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ اُن سے اخراجات کا حساب بھی مانگے۔کوئی دو ماہ ہوئے آئی ایم ایف نے دو شرطیں لگائی تھیں کہ صوبائی حکومتوں سے حساب کتاب مانگا جائے اور سرکاری افسروں کے اندرون اور بیرون ملک اثاثے افشا کئے جائیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر ریٹائرڈ بریگیڈیئر مصدق عباسی کا ویڈیو کلپ چل رہا ہے موصوف کئی سال نیب میں رہے ان کا کہنا ہے کہ صرف منی لانڈرنگ کے کیس کھنگالنے میں حکومت کے ایک ملین ڈالر خرچ ہوئے اور نتیجہ صفر نکلا۔اُس سے پہلے سوئٹزر لینڈ میں ہمارے ایک لیڈر کے بینک اکاؤنٹ ڈھونڈنے کی سعی بے حاصل ثابت ہوئی۔ بے تحاشا اخراجات ہوئے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے یہ لیڈر معصوم تھے۔ اگر معصوم ہوتے تو واجد شمس الحسن کو لندن سے زیورخ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔
1989ء کی بات ہے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد پیش ہوئی۔تحریک عدم اعتماد بارہ ووٹوں سے ناکام ہوئی۔ اپنے حق میں ووٹ دینے والے تمام ممبران کو محترمہ پی آئی اے کی ایک خصوصی پرواز میں سعودی عرب لے کر گئیں‘ انہیں عمرہ کرایا گیا۔ وفد نے شاہی پروٹوکول کے مزے لئے۔ حرم شریف میں عمرہ اور شکرانے کے نفل قوم کو کتنے میں پڑے یہ مجھے نہیں معلوم لیکن اخراجات میرے اور آپ کے ٹیکس سے ادا کئے گئے۔کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی وزیراعظم شہباز شریف نے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیا۔ ووٹ سے پہلے پی ڈی ایم کے وزرا کو ظہرانہ دیا گیا۔ ظہرانہ اس قدر پرتکلف تھا کہ یوں سمجھئے کہ ہم غریبوں کے کھانوں کا مذاق تھا۔ شہر اقتدار میں کئی روز تک اس ظہرانے کی بازگشت سنی گئی اور پھر تمام کے تمام ممبران نے شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ دیا اور ان میں وہ ایم این اے بھی شامل تھے جو بظاہر ناراض لگتے تھے۔ ثابت یہ ہوا کہ پرتعیش کھانے میں بڑی طاقت ہے تو پھر 1989ء کی بے نظیر بھٹو اور 2023ء کی شہباز شریف حکومت میں کیا فرق ہوا؟ صرف ایک وزیراعظم کو ہم نے سنجیدگی سے کفایت شعاری اپناتے دیکھا اور وہ تھے عمران خان جو 2019ء میں امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے اور سفیر کے گھر قیام کیا۔
پچھلے ایک سال میں نیشنل اسمبلی کے اجلاس کچھ زیادہ ہی ہوئے۔ مقصد اپنے مفاد کی قانون سازی تھا۔ نیشنل اسمبلی اور سینیٹ کی نشستوں پر کتنا خرچ ہوا یہ مجھے نہیں معلوم لیکن یقینا ایک خطیر رقم صرف ہوئی ہوگی۔ قوم مفلس ہے لیکن ہمارے لیڈر خاندان مغلیہ کے شہزادے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں