"JDC" (space) message & send to 7575

Way Out

وطنِ عزیز ایک بار پھر گمبھیر حالات کا شکار ہے۔ ویسے تو مشکل حالات سے پاکستان کئی مرتبہ دوچار ہوا لیکن اس لیول کے چیلنج ہمیں صرف 1971ء میں دیکھنے کو ملے تھے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ اُس وقت ہمارے پاس ذوالفقار علی بھٹو کے پائے کا لیڈر موجود تھا۔ آج ہمارے پاس نہ کوئی بھٹو ہے‘ نہ مہاتیر محمد ہے اور نہ ہی رجب طیب اردوان۔
1971ء میں ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے تھے‘ ہمارے پاس کوئی آئین نہیں تھا‘ اقتصادی حالات خراب تھے‘ روپے کی قدر یکا یک سو فیصد گر گئی تھی۔ ہمارے 90ہزار قیدی بھارت کی جیلوں میں تھے۔ چھوٹے صوبوں میں علیحدگی پسند رجحانات موجود تھے لیکن بھٹو نے اسلامک سمٹ بلا کر خارجہ پالیسی کو ایک نئی جہت دی۔ شملہ معاہدے کے بعد جنگی قیدی رہا ہوئے۔ پاکستان کے ہنر مند لوگوں کو مڈل ایسٹ میں نوکریاں ملنے لگیں۔ بھٹو صاحب کی تعریف کی جائے تو کئی دوست فوراً ان کی خامیاں اور غلطیاں گنوانے لگ جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان سے چند ایک بڑی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں لیکن بڑے لیڈر کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں اور غلطیاں گنواتے وقت ہمیں اس کے محاسن کا بھی ذکر کرنا چاہیے۔
آج ہماری سیاست میں قد آور شخصیات کی شدید کمی ہے۔ جو لیڈر شپ میسر ہے‘ وہ کوتاہ قد ہے یا خود غرض۔ ہم نے شہباز شریف کی سولہ ماہ کی سخت ناکام حکومت بھی دیکھ لی‘ وہ ذہنی طور پر اب بھی صوبے کے وزیراعلیٰ لگتے تھے۔ اس سے پہلے ہم چیئرمین پی ٹی آئی کا کرپشن کے خلاف ناکام جہاد بھی مشاہدہ کر چکے ہیں۔ زرداری صاحب تو اب یورپی ممالک کی نصابی کتابوں کا باب بن چکے ہیں۔ موجودہ قیادت ہمارے بے پناہ مسائل کا حل نہیں نکال سکتی۔ پاکستان اس وقت اشرافیہ کے شکنجے میں ہے اور اشرافیہ خود مقتدر سیاسی جماعتوں میں گھسی ہوئی ہے۔مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ لوگ بجلی کے بل ادا کرنے کے بجائے جلا رہے ہیں۔ ملتان میں بجلی سے متعلقہ محکمے نے اپنے افسروں کو کہا ہے کہ سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں بیٹھ کر عوام میں نہ جائیں اور یہ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ بجلی کے ہوشربا نرخوں کی وجہ بھی اشرافیہ کے لوگ ہیں جو آئی پی پیز کے مالک ہیں اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں کے ادوار میں حکومتوں سے عوام دشمن معاہدے کرکے گزشتہ تیس سال سے مزے لوٹ رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی گلیوں اور بازاروں میں شدید غیظ و غضب ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سری لنکا میں پچھلے سال تھی۔ ارجنٹائن میں بھی ایسے ہی حالات ہیں بلکہ ہم سے بھی ابتر‘ وہاں بازاروں میں لوٹ مار کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔ اسی لیے تاجروں نے دکانوں میں حفظِ ماتقدم کے تحت اسلحہ رکھ لیا ہے‘ جب عوام کے لیے دو وقت کی دال روٹی کا حصول محال ہو جائے تو وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں یہ خطرہ موجود ہے اور ہمیں اس کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ زمانۂ حاضر میں ملک آئین اور قانون کے مطابق چلیں تو ترقی کرتے ہیں۔ مغربی ممالک کی صورت میں اس بات کا ثبوت موجود ہے‘ وہاں ٹیکس نہ دینا گناہِ کبیرہ ہے۔ نوکریاں میرٹ پر ملتی ہیں۔ عدالتیں انصاف فراہم کرتی ہیں۔ ہمارے آئین کے ساتھ جو کھلواڑ پچھلے چند ماہ میں ہوا ہے‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔ آئین کی خلاف ورزی ملک کیلئے زہر قاتل ہے۔ اب ملک نظریۂ ضرورت کے مطابق نہیں چل سکتے۔ اگر ہم نے پاکستان کو نظریۂ ضرورت کے مطابق چلایا تو ہمارا حال بھی میانمار (برما) اور سوڈان والا ہوگا۔ ہم ملائیشیا اور ترکی نہیں بن سکیں گے۔
پچھلے دنوں جنوبی افریقہ میں برکس (BRICS) کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور ساؤتھ افریقہ اس تنظیم کے ممبر ممالک ہیں۔ یہ سب دنیا کے نمایاں ممالک اور ابھرتی ہوئی طاقتیں ہیں جو مغرب کی چودھراہٹ کے مقابلے میں متوازی گروپ بنا رہی ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگلے سال کے آغاز میں ایران‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ مصر اور ارجنٹائن اور ایتھوپیا کو بھی اس تنظیم کا ممبر بنایا جائے گا۔ عالمِ اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت کو دعوتِ شرکت کیوں نہ دی گئی‘ اس کی وجہ ہمارا سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی حالت ہے۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس دلدل سے کیسے نکالا جائے۔ میری رائے میں ہمیں ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام اہم سیاسی پارٹیاں اور ادارے شامل ہو کر مشورہ کریں۔ پاکستان کو تین قسم کے چارٹر وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ ایک چارٹر آف ڈیموکریسی‘ دوسرا چارٹر آف اکانومی اور تیسرا چارٹر آف سوشل ڈویلپمنٹ۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں طے کیا جائے کہ دستور پر ہر صورت میں عمل ہوگا۔ الیکشن ہر مرتبہ وقت پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن ہر صورت میں نیوٹرل اور بااختیار ہوگا۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندر بھی الیکشن کرائیں گی۔ اعلیٰ عدلیہ کا انتخاب جوڈیشل سروس سے ہوگا جو مقابلے کے امتحان کے ذریعہ تشکیل پائے گی۔ کسی تادیبی ادارے کو سیاسی اغراض کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ صاف شفاف الیکشن ہی ہمیں موجودہ سیاسی عدم استحکام سے نکال سکتا ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ شاید اگلے الیکشن میں بھی کوئی مخلص اور مضبوط قیادت سامنے نہ آ سکے ‘لیکن پانچ سال کے مینڈیٹ والی حکومت تو بنے گی جو موجودہ ڈنگ ٹپاؤ سیٹ اَپ سے کہیں بہتر ہو گی۔چارٹر آف اکانومی کا مطمح نظر عوام کی بہبود ہونا چاہیے۔ صحت مند اور خوشحال عوام ہی توانا اور مضبوط پاکستان کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔ بڑے زمینداروں پر انکم ٹیکس اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب دکانداروں‘ وکیلوں‘ ڈاکٹروں اور بلڈرز‘ سب کو ایمانداری سے ٹیکس دنیا ہوگا۔ آج کنسلٹنٹ لیول ڈاکٹر کی فیس پانچ ہزار ہے اور ایک اچھا ڈاکٹر درجنوں مریض روزانہ دیکھتا ہے اور وہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ فیس لینا پسند نہیں کرتا کیونکہ اس طرح اس کی اصل انکم عیاں ہو جاتی ہے۔کیا ایف بی آر کے لیے یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ کون لوگ اپنی تعطیلات بیرونِ ملک گزارتے ہیں۔ کس کس کے پاس لینڈ کروزر جیسی دیو ہیکل گاڑیاں ہیں۔ کون سے لوگ فارم ہاؤسز میں رہ رہے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک بڑے کلب کی ابتدائی ممبر شپ فیس 35 لاکھ ہے اور امیدواروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ ان میں سے کون کتنا ٹیکس دیتا ہے‘ کیا ایف بی آر کو معلوم نہیں۔ اقتصادی انصاف‘ سماجی انصاف کی بنیاد ہے۔
سوشل ڈویلپمنٹ کا چارٹر ہمارے تعلیمی نظام کی اصلاح کرے گا اور یہ تعلیمی نظام ہمیں اچھا مسلمان بھی بنائے گا اور اعلیٰ پائے کے سائنسدان بھی۔ یہ نظام چرچ اور مندر جلانے کا جنون پیدا نہیں کرے گا۔ معاشرے کی بدنی اور ذہنی صحت کے لیے صحت مند تفریح ضروری ہے۔ جگہ جگہ کھیل کے میدان ہونے چاہئیں۔ ہمارے لیاری کے بچے پروفیشنل فٹ بالر بن سکتے ہیں‘ بشرطیکہ انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ خواتین کو مقتدر بنانا سوشل ڈویلپمنٹ کا ضروری حصہ ہے۔ حال ہی میں ایک خاتون پروفیسر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کی ریکٹر بنی ہیں۔ ایک فٹ بال پلیئر خاتون نے سعودی عرب کے کلب کے ساتھ کھیلنے کا معاہدہ کیا ہے اور ہاں ترقی کی منصوبہ بندی پاپولیشن پلاننگ کے بغیر ناممکن رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں