"KMK" (space) message & send to 7575

سستی شہرت کی حد ہی مُک گئی ہے

پرسوں میں شاکر حسین کے ساتھ ایس پی چوک سے گزر رہا تھا تو اچانک میری نظر اس چوک کے درمیان میں ایستادہ خوبصورت ستون کے چاروں طرف لگے ہوئے بورڈ پر پڑی۔ یہ پینا فلیکس اس ستون کے گرد فریم میں لگا ہوا تھا اور اس پر تحریر تھا ''ہم جناب عامر کریم خان سابق ڈپٹی کمشنر ملتان کے تہہ دل سے مشکور ہیں جنہوں نے سرکاری رقم خرچ کئے بغیر ملتان کی خوبصورتی کے لیے آٹھ سے زائد چوراہوں کی تزئین و آرائش اور ریکارڈ ترقیاتی کام سرانجام دیئے۔ منجانب! اہالیانِ ملتان‘‘۔ میں نے یہ بورڈ دیکھ کر شاکر سے پوچھا کہ یہ کیا ماجر ہے؟ آخر اس بورڈ کی کیوں ضرورت پڑی ہے؟ سب کو علم ہے کہ ملتان کے اس ڈپٹی کمشنر نے اپنے دورمیں ملتان شہر اور شہر کے داخلے کے مقامات والے چوراہوں کو ملتان کے مخیر حضرات کے تعاون سے سرکاری خزانے سے ایک پیسہ لگائے بغیر نہ صرف خوبصورت طریقے سے بنوایا بلکہ اس تزئین و آرائش نے ان چوراہوں کے ٹریفک کے نظام کو بھی بہتر بنانے میں بہت مدد کی۔ ایسے میں ڈپٹی کمشنر کے اس شہر سے چلے جانے کے دس ماہ بعد اچانک باسی کڑھی میں یہ ابال کس لیے آیا ہے؟
شاکر اپنے مخصوص انداز میں مسکرایا اور کہنے لگا: آپ سوشل میڈیا سے لاتعلق ہیں اس لیے آپ کو بڑی آسانی ہے کہ اس قسم کی ساری غیر ضروری مصروفیات سے اپنی جان چھڑوا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دراصل قصہ یوں ہے کہ ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اچانک دس ماہ بعد اپنی صفر قسم کی کارکردگی کو عوام میں باور کروانے کی غرض سے سابق ڈپٹی کمشنر کے عوامی فنڈ کے ذریعے بنائے گئے ان سات پروجیکٹس کا کریڈٹ سمیٹنے کے لیے ایک عدد اشتہار لگایا ہے جس میں آٹھ عدد پروجیکٹس کو اپنی کاوشوں اور کامیابیوں کی فہرست میں دکھاتے ہوئے ان کی تکمیل کا سہرا اپنے سر باندھا ہے۔ کسی دل جلے نے ایم ڈی اے کی جانب سے حلوائی کی دکان پر نانا جی کا فاتحہ دلوانے کی اس بھونڈی حرکت کا بھانڈا پھوڑنے کی غرض سے یہ بورڈ لگوا دیا ہے۔
میں نے یہ واقعہ شاہ جی کو سنایا تو وہ فرمانے لگے کہ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ اس شہر میں سب لوگ یہی کر رہے ہیں‘ کوئی سرکاری فنڈز پر اپنے خاندان کے ناموں والے بورڈ لگا رہا ہے اور کوئی ملتان کے مخیر حضرات کے لگے ہوئے پیسوں پر اپنے محکمے کے کارناموں کے اشتہار لگا رہا ہے۔ دھیان رہے کہ یہ محکمہ کہیں ملتان کے مخیر حضرات کی جانب سے خرچ کی جانے والی رقم اپنے خرچوں میں دکھا کر سرکاری خزانے سے نہ نکلوا لے۔ اس سے ان کو دُہرا فائدہ ہوگا‘ ایک یہ کہ دوسروں کے بنائے گئے پروجیکٹ ان کے کھاتے میں آ جائیں گے اور کسی اور کی جیب سے لگنے والے پیسے وہ سرکاری خزانے سے نکال کر اپنی جیب میں ڈال لیں گے۔ میں نے کہا: شاہ جی بھلا ایسا کیسے ممکن ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: بات پینتیس چالیس سال پرانی ہے اور مجھے بھی پوری صحت کے ساتھ یاد نہیں۔ ملتان میں سیوریج کا مسئلہ جیسے سکندر اعظم کے حملے کے وقت موجود تھا‘ آج اکیسویں صدی میں بھی اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ملتان کے کئی علاقے بغیر بارش کے ہی گٹر کے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں اب بارشوں کے بعد تو اس شہرِ نا پرساں کا حال ہی نہ پوچھو۔ تب سیوریج کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ملتان کے ترقیاتی ادارے نے ایک ماسٹر پلان بنایا۔ یہ کروڑوں روپوں کا منصوبہ تھا۔مجھے رقم وغیرہ تو یاد نہیں؛ تاہم یاد رہے کہ تب کے کروڑوں آج کے اربوں پر بھاری تھے۔ خیر اس منصوبے پر کروڑوں روپے خرچ ہو گئے اور برا بھلا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ اسی دوران ورلڈ بینک یا ایشین ڈیویلپمنٹ بینک سے بھی ملتان کے سیوریج کے مسائل حل کرنے کے لیے بھاری رقم آ گئی۔ یار لوگوں نے ترقیاتی محکمے کی جانب سے ڈالی گئی اسی سیوریج لائن اور پائپ وغیرہ کے نقشے اور بلیو پرنٹ ادھر بھی جمع کروا دیے اور ایک منصوبے کی دو طرف سے ادائیگی وصول کر کے ایک کو مزے سے غتربود کر لیا۔ میں نے پوچھا: شاہ جی! یہ بات آپ پورے یقین سے کہہ رہے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: مجھے جس بندے نے بتائی تھی وہ اسی ترقیاتی ادارے سے ریٹائر ہوا تھا اور ا س کی بات میں دَم یوں ہے کہ ترقیاتی ادارے نے بھی ملتان میں سیوریج کا منصوبہ مکمل کیا تھااور ورلڈ بینک یا ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی اس کام کے لیے رقم آئی تھی۔ لیکن ہمارے سامنے کھدائی تو صرف ایک دفعہ ہوئی تھی اور سیوریج لائن بھی ان دنوں ایک بار ہی ڈالی گئی تھی۔ دوسرا منصوبہ تو صرف کاغذوں میں ہی تکمیل پا کر فارغ ہو گیا تھا۔
پھرشاہ جی بتانے لگے کہ اینٹی کرپشن والوں نے شاید تمہارے کالم کی بنیاد پر سابق ایم این اے کو اپنے چچا کے نام پر بنوائے گئے پارک کے سلسلے میں طلب کیا ہے۔ انہوں نے اس پارک کی تعمیر میں ہونے والی مبینہ خورد برد کے سلسلے میں سمّن بھیجا ہے۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ تمہیں تو اصل بات کا علم ہوگا۔میں نے کہا: شاہ جی! آپ کو تو علم ہی ہے کہ ادھر گلشن مہر کالونی میں ایک کافی بڑے خالی پلاٹ پر خانہ بدوشوں نے جھگیاں بنا رکھی تھیں اور وہ یہاں عرصہ کئی سال سے قابض تھے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث ان کے لڑکوں نے اردگرد چوری چکاری شروع کر دی۔ علاقے کے لوگ پریشان تھے کہ روزمرہ کی اس مصیبت سے کیسے جان چھڑوائی جائے۔ خیر لوگوں نے مل ملا کر بمشکل ان کو یہاں سے بیدخل کروایا۔ میں نے کئی سال پہلے ایم ڈی اے سے گلشن مہر کالونی کا منظور شدہ نقشہ نکلوایا تو یہ جگہ پارک کے لیے مخصوص تھی۔ جب یہ جگہ خالی ہو گئی تو میں نے ڈپٹی کمشنر سے مل کر اس جگہ پارک بنانے کی درخواست کی اور کہا کہ اگر یہ پلاٹ خالی رہا تو ادھر پھر کوئی قبضہ کر لے گا اور اسے دوبارہ خالی کروانا مشکل ہو جائے گا۔ میں پاکستان سے باہر تھا کہ میرے واٹس ایپ پر مورخہ پانچ اکتوبر 2021ء کو دو تصاویر اور ایک چھوٹا سا میسج موصول ہوا۔ میسج تھا Sir is this the site of said park?( کیا اس پارک کی جگہ یہی ہے؟) جواباً میں نے لکھا: جی ہاں! یہی ہے۔ بات ختم ہو گئی۔ پاکستان واپسی پر ڈپٹی کمشنر نے مجھے کہا کہ اس پر سارا کاغذی کام تو ہو گیا ہے لیکن فی الوقت اس کے لیے پی ایچ اے کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ انہیں کہا ہے کہ کسی رکن اسمبلی کے ترقیاتی فنڈ سے اس جگہ پر پارک بنوا دیں وگرنہ اس جگہ پر اگر کسی نے قبضہ نہ بھی کیا تو یہ کوڑا ڈالنے کی جگہ بن جائے گی۔ کچھ عرصہ بعد پارک بننا شروع ہو گیا۔ کبھی اس کی تعمیر میں تیزی آ جاتی اور کبھی یہ سست روی کا شکار ہو جاتا۔ بہرحال یہ پارک نومبر 2022ء میں مکمل ہو گیا۔ تب اس پارک کا افتتاح کرنے کے دعویدار سابق ایم این اے کو اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوئے اور وزیر مملکت و چیف وہپ کے عہدے سے فارغ ہوئے سات ماہ سے ز ائد عرصہ گزر چکا تھا مگر موصوف نے پارک میں قدم رکھے بغیر اٹھائیس نومبر کو رات کے اندھیرے میں اس پارک پر اپنے مرحوم چچا کے نام کی تختی لگوا دی۔ بلکہ کسی نے بتایا کہ ان دنوں ملتان کے چار پانچ پارکوں پر ان کے خاندان کے تمام مرحومین کے نام کی تختیاں لگائی گئیں۔ نومبر 2022ء میں تکمیل پانے والے پارکس کا دس اپریل 2022ء سے قبل عوامی افتتاح ممکن نہ تھا‘ لہٰذا چالاکی کرتے ہوئے ان تختیوں پر افتتاح کی تاریخ ہی نہیں لکھی گئی۔ سستی شہرت کی حد ہی مُک گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں